(37) مولانا احمد علی سہارنپوری
(1297ھ) :-
مولانا احمد علی سہارنپوری صحیح بخاری کے حاشیہ میں بدعت کی اقسام بیان
کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
46. البدعة أصلها ما أحدث علي غير مثال سابق و يطلق في الشرع في مقابلة
السنة فتکون مذمومة والتحقيق إنها إن کانت مما تندرج تحت مستحسن في الشرع
فهي حسنة و إن کانت مما تندرج تحت مستقبح في الشرع فهي مستقبحة وإلّا فهي
من قسم المباح و قد تنقسم الي احکام خمسة قاله في الفتح اي واجبة و مندوبة
و محرمة و مکروهة و مباحة کذا في الکرماني قال محمد في المؤطا لا باس في
شهر رمضان ان يصلي الناس تطوعا و قد روي عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم
ما راه المسلمون حسنا فهو عنداﷲ حسن وما راه المسلمون قبيحا فهو عنداﷲ
قبيح(1). و في الفتح قال ابن التين وغيره استنبط عمر ذلک من تقرير النبي
صلي الله عليه وآله وسلم من صلي معه في تلک الليالي و ان کان کره ذلک لهم
فانما کرهه خشية ان يفرض عليهم و کان هذا هوا السر في ايراد البخاري لحديث
عائشة عقب حديث عمر فلما مات صلي الله عليه وآله وسلم حصل الامن من ذلک.
(2)
’’بدعت سے مراد وہ عمل ہے جو مثال سابق کے بغیر کیا جائے شریعت میں عام طور
پر اسے سنت کے مقابلے میں بیان کیا جاتا ہے لہٰذا اس صورت میں یہ مذموم
ہوتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ شریعت کے مستحسنات کے تحت آ جائے تو
اسے بدعت حسنہ کہیں گے اور اگر یہ شریعت کے مستقبحات کے تحت آ جائے تو اسے
بدعت مستقبحۃ کہیں گے اور اگر یہ دونوں کے تحت نہ آئے تو اسے بدعت مباحہ
میں شمار کیا جائے گا اور بے شک یہ پانچ اقسام میں تقسیم ہوتی ہے جیسا کہ
صاحب فتح الباری نے کہا کہ یہ واجبہ، مندوبہ، محرمہ، مکروہہ اور مباحہ ہیں
اور اسی طرح شرح کرمانی میں ہے امام محمد نے موطا میں ذکر کیا ہے کہ لوگوں
کے ماہ رمضان میں نوافل پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آقا علیہ السلام نے
فرمایا کہ جو کام مسلمانوں کی نظر میں اچھا ہے وہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں بھی
اچھا ہے اور جو کام مسلمانوں کی نظر میں قبیح ہو وہ اﷲ تعاليٰ کے ہاں بھی
برا ہے۔ فتح الباری میں مذکور ہے کہ ابن متین اور دیگر ائمہ نے کہا ہے کہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی حضور علیہ السلام کی تقریر سے اسی طرح کا
استنباط کرتے ہوئے کہا کہ جس نے بھی ان راتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے ساتھ نماز پڑھی اور اگر اس میں ان کے لئے کراہت تھی تو وہ اس ڈر سے
کراہت تھی کہ کہیں وہ (نماز) ان پر فرض نہ ہوجائے اور یہ وہ راز تھا جسے
امام بخاری نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے بعد حضرت عائشہ کی حدیث سے
مراد لیا ہے، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا تو اس (نماز
کی فرضیت) کا خوف جاتا رہا۔‘‘
1.
1. بزار، المسند، 5 : 213، رقم : 1816
2. طيالسي، المسند، 1 : 33، رقم : 246
3. طبراني، المعجم الکبير، 9 : 112، رقم : 8583
4. ابن رجب، جامع العلوم والحکم، 1 : 254
5. بيهقي، الاعتقاد، 1 : 322
2.
سهارنپوري، حاشيه بخاري، 1 : 269
(38) نواب صدیق حسن خان بھوپالی (المتوفی 1307ھ) :-
غیر مقلدین کے نامور عالم دین نواب صدیق حسن خان بھوپالی نے واضح طور پر
لکھا ہے کہ ہر نئے کام کو بدعت کہہ کر مطعون نہیں کیا جائے گا بلکہ بدعت
صرف اس کام کو کہا جائے گا جس سے کوئی سنت متروک ہو اور جو نیا کام کسی
امرِ شریعت سے متناقص نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ مباح اور جائز ہے شیخ وحید
الزماں اپنی کتاب ہدیۃ المہدی کے صفحہ 117 پر بدعت کے حوالے سے علامہ
بھوپالی کا یہ قول نقل کرتے ہیں :
47. البدعة الضلالة المحرمة هي التي ترفع السنة مثلها والتي لا ترفع شيئا
منها فليست هي من البدعة بل هي مباح الاصل.
’’بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے
کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے۔‘‘
وحيد الزمان، هدية المهدي : 117
(39) مولانا وحید الزمان (المتوفی 1327ھ) :-
مشہور غیر مقلد عالم دین مولانا وحید الزمان بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے
لکھتے ہیں :
48. اما البدعة اللغوية فهي تنقسم إلي مباحة ومکروهة و حسنة و سيئة قال
الشيخ ولي اﷲ من أصحابنا من البدعة بدعة حسنة کالأخذ بالنواجذ لما حث عليه
النبي صلي الله عليه وآله وسلم من غير عزم کالتراويح ومنها مباحة کعادات
الناس في الأکل والشرب واللباس وهي هنيئة قلت تدخل في البدعات المباحة
استعمال الورد والرياحين والأزهار للعروس ومن الناس من منع عنها لاجل
التشبه بالهنود الکفار قلنا إذا لم ينو التشبه أوجري الأمر المرسوم بين
الکفار في جماعة المسلمين من غير نکير فلا يضر التشبه ککثير من الاقبية
والالبسة التي جاء ت من قبل الکفار ثم شاعت بين المسلمين وقد لبس النبي صلي
الله عليه وآله وسلم جبة رومية ضيقة الکمين و قسم الا قبية التي جاءت من
بلاد الکفار علي أصحابه و منها ما هي ترک المسنون و تحريف المشروع وهي
الضلالة وقال السيد البدعة الضلالة المحرمة هي التي ترفع السنة مثلها والتي
لا ترفع شيئا منها فليست هي من البدعة بل هي مباح الأصل.
’’باعتبار لغت کے بدعت کے حسب ذیل اقسام ہیں : بدعت مباحہ، بدعت مکروھہ،
بدعت حسنۂ اور بدعت سیئہ. ہمارے اصحاب میں سے شیخ ولی اللہ نے کہا کہ بدعات
میں سے بدعت حسنہ کو دانتوں سے پکڑ لینا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے اس کو واجب کیے بغیر اس پر برانگیختہ کیا ہے جیسے تراویح۔
بدعات میں سے ایک بدعت مباحہ ہے جیسے لوگوں کے کھانے پینے اور پہننے کے
معمولات ہیں اور یہ آسان ہے۔ میں کہتا ہوں کہ دولہا، دلہن کے لئے کلیوں اور
پھولوں کا استعمال (جیسے ہار اور سہرا) بھی بدعات مباحہ میں داخل ہے بعض
لوگوں نے ہندوؤں سے مشابہت کے سبب اس سے منع کیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ جب
کوئی شخص تشبّہ کی نیت نہ کرے یا کفار کی کوئی رسم مسلمانوں میں بغیر انکار
کے جاری ہو تو اس میں مشابہت سے کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ قباء اور دوسرے
لباس کفار کی طرف سے آئے اور مسلمانوں میں رائج ہو گئے اور خود نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تنگ آستینوں والا رومی جبہّ پہنا ہے اور کفار
کی طرف سے جو قبائیں آئی تھیں ان کو صحابہ میں تقسیم فرمایا ہے اور بدعات
میں سے ایک وہ بدعت ہے جس سے کوئی سنت متروک ہو اور حکم شرعی میں تبدیلی
آئے اور یہی بدعت ضلالہ (سیئہ) ہے۔ نواب صاحب (نواب صدیق حسن بھوپالی) نے
کہا ہے کہ بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس
بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح
ہے۔‘‘
وحيد الزمان، هدية المهدي : 117
(40) مولانا عبدالرحمن مبارکپوری (1353ھ) :-
مولانا عبدالرحمن مبارکپوری بدعت لغوی اور بدعت شرعی کی تقسیم بیان کرتے
ہوئے تحفۃ الاحوذی میں لکھتے ہیں :
49. بقوله کل بدعة ضلالة(1) والمراد بالبدعة ما أحدث مما لا أصل له في
الشريعة يدل عليه واما ما کان له أصل من الشرع يدل عليه فليس ببدعة شرعا و
إن کان بدعة لغة فقوله صلي الله عليه وآله وسلم کل بدعة ضلالة من جوامع
الکلم لا يخرج عنه شئ وهو أصل عظيم من أصول الدين واما ما وقع في کلام
السلف من استحسان بعض البدع فإنّما ذلک في البدع اللغوية لا الشرعية فمن
ذلک قول عمر رضی الله عنه في التراويح (نعمت البدعة هذه)(2) و روي عنه أنه
قال إن کانت هذه بدعة فنعمت البدعة ومن ذٰلک أذان الجمعة الأول زاده عثمان
رضي الله عنه لحاجة الناس إليه و اقره عليٌّ واستمر عمل المسلمين عليه و
روي عن ابن عمر أنه قال هو بدعة و لعله اَراد ما أراد ابوه في التراويح.
(3)
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ (ہر بدعت گمراہی
ہے) میں بدعت سے مراد ایسی نئی چیز ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ
ہو جو اس پر دلالت کرے اور وہ چیز جس کی اصل شریعت میں موجود ہو جو اس پر
دلالت کرے اسے شرعاً بدعت نہیں کہا جا سکتا اگرچہ وہ لغتاً بدعت ہو گی
کیونکہ حضور علیہ السلام کا قول ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ جو امع الکلم میں سے ہے
اس سے کوئی چیز خارج نہیں ہے۔ یہ دین کے بنیادی اصولوں میں سے ہے اور اسلاف
کے کلام میں جو بعض بدعات کو مستحسنہ قرار دیا گیا ہے تو یہ بدعت لغویہ ہے،
شرعیۃ نہیں ہے۔ اور اسی میں سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نماز تراویح کے
بارے میں فرمان ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ ہے اور آپ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت
کیا گیا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’ان کانت ھذہ بدعۃ فنعمت
البدعۃ‘‘ (اگر یہ بدعت ہے تو یہ اچھی بدعت ہے) اور جمعہ کی پہلی اذان بھی
اسی میں سے ہے جسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی ضرورت کے پیش نظر
شروع کیا تھا اور اسے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے قائم رکھا اور اسی
پر مسلمانوں نے مداومت اختیار کی۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ بدعت ہے کا شاید ان کا ارادہ بھی اس سے
وہی تھا جو ان کے والد (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) کا نماز تراویح میں تھا (کہ
با جماعت نما زتراویح ’’نعمت البدعۃ‘‘ ہے)۔‘‘
1.
1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة،
رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم
: 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
2.
1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266
3.
مبارکپوري، جامع الترمذي مع شرح تحفة الاحوذي، 3 : 378
جاری ہے--- |