پاکستان میں بچوں کی ایک بڑی تعداد ڈومیسٹک ورکرز کے
طور پر گھروں میں کام کرتی ہے اس کے علاوہ چوڑیاں بنانے کے کام سے لے کر
سرجیکل آلات، کھیلوں کے سامان اور گہرے پانیوں میں ماہی گیری جیسے خطرناک
پیشوں کی ایک پوری فہرست ہے جو 'ورسٹ فارم آف چائلڈ لیبر' یا بچوں سے
مزدوری کی بدترین اقسام میں آتے ہیں۔پاکستان کے ادارہ برائے شماریات نے
بچوں سے محنت مشقت کیاعدادوشمار آخری بار ایک سروے کے ذریعے سنہ 1996 میں
جمع کیے تھے جس کے مطابق ملک میں 33 لاکھ بچہ مزدور تھے۔
آئی ایل او کے کنونشن فار ورسٹ فارم آف چائلڈ لیبر پر پاکستان نے سنہ 2001
میں دستخط کیے تاہم اب تک اس بارے میں کوئی اعداد وشمار اکھٹے نہیں کیے جا
سکے۔ملک میں تعلیم و آگہی نہ ہونے کے برابر ہے غربت میں پھنسے لوگوں کو
اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ ان کے بچے کو کس کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے۔ وہ
ٹریفکنگ میں آسکتا ہے، دہشت گرد کاروائیوں میں استعمال ہوسکتا ہے۔ خطرناک
پیشوں میں کام کرنے کی وجہ سیاس کی جان جاسکتی ہے۔ اس کے ساتھ جنسی تشدد
بھی کیا جاسکتا ہے یا ان کے بچے کو کیمل ریس کے لیئے بھی اسمگل کیا جاسکتا
ہے.ان کو بس اس معقول رقم سے سروکار ہوتا ہے جو ان کو بچے کے کام کے عوض مل
رہی ہوتی ہے.ان میں سے اکثر بچے کئی کئی مہینوں یا سالوں تک اپنے گھر بار
کی شکل تک نہیں دیکھ پاتے نہ ہی انھیں کسی قسم کا اور کوئی رابطہ کرنے کی
اجازت دی جاتی ہے۔
پاکستان سمیت اس وقت تقریبا تمام ترقی پذیر خصوصا ایشیائی ممالک میں یہ بات
قابل قبول ہے کہ بچوں سے کام کرایا جائے اس کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے۔ بچوں
کو کام پر اس لیے رکھا جاتا ہے کہ ایک بالغ آدمی کو انھیں پوری مزدوری دینا
پڑے گی جبکہ بچہ سستے میں یا مفت میں کام کردیگا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بچہ
ایک نوجوان کی نسبت زیادہ دیرتک اور زیادہ انرجی کے ساتھ کام کرتا ہے جس سے
زیادہ سے زیادہ کام لیا جاسکتا ہے۔اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں سے کا م
کروانا یا ان بچوں کو کام کے واسطے سکول سے روکنا چائلڈلیبر کے دائرے میں
اتا ہے اور چائلڈلیبر یعنی چھوٹے بچوں سے پیسے کے حصول کے لیے کام کروانا
قانونی اور اخلاقی لحاظ سے جرم ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کے اندر تقریبا
ساڑھے بارہ ملین بچے چائلڈلیبر کے ساتھ منسلک ہیں۔ان میں کثیر تعداد
بلوچستان اور فاٹاسے تعلق رکھتی ہے۔ فاٹاسے تقریبا 34فیصد بچے چائلڈلیبر سے
وابستہ ہیں۔ اگر ایک طرف دیکھا جا ئے تو ہمارا ملک ان ممالک کی فہرست میں
اتا ہے جہا ں سب سے ذیادہ بچے چائلڈلیبر سے جڑے ہو ئے ہیں۔ چا ئلڈ لیبر سے
وابستہ بچے آنے والے وقتوں میں محتلف قسم کے مسائل کا شکا رہو سکتے ہیں۔ سب
سے پہلے یہ بچے تعلیم و تربیت سے محرو م ہو جا تے ہیں۔ جو آنے والے وقت میں
دوسرے بچوں کی طرح ملک کے تعمیر و تر قی میں حصہ نہیں لے سکتے ہیں۔ ان کے
اندر شعور اتنا پختہ اور وسیع نہیں ہوتا ہے۔ ان کی شخصیت کے اندر شروع دن
سے احساس کمتری پیدا ہو جا تی ہے۔دوسرا یہ کہ صحت کے حوالے سے بھی محتلف
قسم کی بیماریوں کے شکار ہوتے رہتے ہیں.وہ کم عمری میں غلط عادات کا شکار
بھی ہوسکتے ہیں جو کہ یقینا ایک لمحہ فکریہ ہے۔چائلڈ لیبر سے منسلک بچوں
میں سے اکثریت ان بچو ں کی ہو تی ہے جو کسی مجبوری کی وجہ سے ان ہو
ٹلوں،ورکشاپوں اور ریسٹورنٹس میں کام کرتے ہیں۔تو دوسری طرف ہوٹلوں اور
ورکشاپوں کے مالکان بڑوں کی بہ نسبت ان چھوٹے بچوں کو ذیادہ رکھتے ہیں
کیونکہ بچے انتہائی کم اجرت پر کام کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔
چائلڈلیبر سے وابستہ بچوں کی نشاندہی کرکے وجوہات تلاش کی جائیں، اگر وہ
غربت کی وجہ سے وابستہ ہیں تو حکومت ایسے بچوں کے لئے ماہانہ وظیفہ مقررکر
ے ان کو سکول میں داخل کروائیں۔ بچے ملک کا اثاثہ اور روشن مستقبل ہوہیں
اورانہوں نے آنے والے وقت میں ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے، اگرآج ان کی
تعلیم وتربیت کا خیال نہیں رکھاجائے گا تو یہ ملک کے با وقار اور مہذب شہری
نہیں بن پائیں گے اور ملک کی تعمیر و تر قی میں ایک مثبت کردار ادا کرنے سے
قاصر رہیں گے۔آئین میں 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں نے چائلڈ لیبر سے متعلق
قانون سازی کی ہے لیکن اس پر سختی سے عمل درآمد کرانے کے ایک مربوط میکینزم
بنانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ پبلک مقامات پر اور میڈیا پر
ایسے پروگرام نشر کریں جن سے والدین میں بچوں کی تعلیم کا شعور پیدا ہو جا
ئے۔ ہراس فورم اور میدان کی حوصلہ شکنی کریں جو اس قسم کی سرگرمی کی حوصلہ
افزائی کرتا ہے۔ یاد رکھیئے ہمیں اپنے ملک کے اس سرمائے کی مل کر حفاظت
کرنی ہے۔
تحریر: ڈاکر رابعہ اختر |