اجتماعی شعور کی بیداری وقت کی اہم ضرورت

انسان کی سوچ، غور و فکر، تحقیق،انسانی شعور اور ان تمام کو یکجا کرنے کے بعد انسان میں پیدا ہونے والی بیداری کو ہی انسانی معاشرہ اور انسانی ترقی کی ارتقاء کا بنیادکہا جاتا ہے۔تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ کسی قوم کی حالت تب تک نہیں بدلتی جب تک کہ اُس میں شعور، آگاہی اور بیداری نہ ہو۔شعور، آگاہی اور بیداری سے مرُاد ہر قسم کی آگاہی و شعور چاہے وہ سیاسی ہو یا مذہبی، معاشرتی ہو یا ضمیری یا پھِر نفسانی، پس انسان کے ہر امور اور حالات سے ہمیشہ باخبر اور اس کے بارے میں مکمل تحقیق اور آگاہ ہونے کے عمل کو شعوری بیداری کہتے ہے اور اسیِ عمل کو ساتھ لے کر چلنے سے ہی انسان حالات کو اپنے قابو میں کر کے اسےِ اپنی سمت کھینچ سکتا ہے۔

گذشتہ ایک مہینے کے دوران جب قبائلی علاقے کے نوجوانوں کے ملک کے کئی شہروں میں پے درپے قتل کے واردات شروع ہوئی تو قبائل کے نوجوانوں کو ایک مخلص اور سادہ مزاج نوجوان لیڈر منظور پشتین نے انفرادی سوچ کے بجائے اجتماعی سوچ کے جانب مبذول کرنے کی انتھک کوشش کی ابتدا کی، زخموں سے چور قبائلیوں نے نہایت مثبت جواب دیا اور بہت جلد منظور پشتین اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا نظر آیا۔ منظور پشتین نے اسی اجتماعی سوچ کے حامل افراد ٹوٹا پوٹا قافلہ لیکر حکومتی محل اسلام آباد کے جانب لانگ مارچ شروع کیا۔ غموں اور زخموں سے چور اپنے زخموں کو چاٹنے والے اور اپنے غموں کو سہنے والے قبائلی ایک ایک کرکے اس اجتماعی سوچ اور بیدار شعور کے حامل قافلے کے ساتھ ہو لیے۔ اور یہ قبائلی میں بیدارئی شعور کا نقطہ آغاز تھا۔ اس بے سروسامان قافلوں کو حد سے بڑھ کر کامیابیاں ملی۔ حکومت نے گھٹنے ٹیک کرکے ان کے مطالبات مان لیے۔

ہم بھی اتنے کاہل، سسُت اور اپنی زندگی کی آسائشوں میں اتنے کھو گئے ہیں کہ ہمیں اپنی خود کی حالت بدلنے، سوچنے اور اپنی مستقبل کو تاریکیوں سے نکالنے کی بھی فرُصت تک نہیں۔ہمارے ہاں کبھی سیاست کے نام پر لوگوں کو تقسیم، الجُھایا اور دھوکہ پہ دھوکہ دیا جارہا ہے تو کبھی کسی اور نام اور عنوان سے ہمیں قربانی کا بکرا بنا کرقتل کررہے ہیں اور لوگوں میں نفرت کا بیج بویا جا رہا ہے لیکن ہمیں اسِ بات پر غور و فکر کرنے کی فرُصت ہی نہیں کہ آخر یہ ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے اور کیوں؟ ہم میں سے ہر ایک صرف اپنے زخم سینکتا ہے ہم میں سے ہر ایک اپنا غم، درد اور دکھ سہتا ہے اور دوسرا تماشائی بن کر اپنے اوپر واقع ہونے والے اس ظلم اور زیادتی کا منتظر رہتا ہے ہم نے کبھی بھی اپنے پڑوسی کے غم اور درد کو اہمیت اور وقعت نہ دی اور نہ ہی اس کے غم میں شریک ہوئی پھر جب ہم پر یہ قیامت نازل ہوتی ہے تو تب ہائے ہائے کرنے لگتے ہیں اور ہمارا دوسرا ساتھی اس کے تماشائی کا کردار اد کرتا ہے لیکن اگر ہم میں اجتماعی شعور ہو ہم اجتماعی شعور کے لیے لڑے اور جدوجہد کریں تو کوئی وجہ نہیں اور وہ دن دور نہیں کہ ہم اجتماعی طور پر ان تکالیف سے نجات پالیں گے۔

اجتماعی شعور کی اہمیت بیان کرنے کے لیے شائد میرے یہ چند ناکافی پڑھ جائینگے۔ اس ا ہمیت کو ایک ہی شعر میں پشتون معاشرے کے ایک عظیم ترجمان شاعر رحمت شاہ سائل نے ، انہوں نے کہا ہے (سو چہ بیدار نہ وی دَ قام اجتماعی شعور ۔۔۔ سوزی بہ جونگڑے بنگلہ وال بہ تماشہ کوی) ترجمہ۔ جب تک قوم میں اجتماعی شعور بیدار نہیں ہوگا ، اس وقت تک غریب کے کوٹھیاں جلتی رہیں گی جبکہ امیرتماشہ ہی کرتے رہیں گے۔

ہمارے ملک میں بجلی کی بلاوجہ، بے وقت اور نہ ختم ہونے والی لوڈشیڈنگ، گیس کی بندشِ، پانی اور غذا کی قلتِ اور کمر توڑ مہنگائی پر خاموش رہنا، لاء اینڈ آرڈر اور تحفظ کے نام پر شہریوں کو بلاِ وجہ تنگ اور ان کے بنیادی حقوق کو پامال کرنا یہ وہ تمام چیزیں ہیں جنِ کو ہم ترک کرنے سے مکمل قاصرِ ہیں۔اگر ہمارے ہم آج ظلم کا شکار ہیں ہمارے گھر ہمارے علاقے ہمارے بازار اجاڑ دیئے گئے، اگر ہمارے گھر ہمارے بازار اجاڑ دیئے جانے کے بعد اب تک دوبارہ تعمیر نہیں کیے گئے، اگر ہمارے قبائلیوں اب تک کیمپوں کے زندگی گذار رہے ہیں، اگر ان کی زندگی خط غربت سے نیچے گذر رہی ہے تو اسِ کی ذمہ داری سراسر ہما رے اوپر عائد ہوتی ہیں کیونکہ ہمیں اپنے آئینی حقوق کا علمِ ہی نہیں اور نہ ہی ہم اسکا علمِ رکھنا چاہتے ہیں جو کہ بڑے شرم کی بات ہے۔جب ہم اپنے اردِ گردِ کے حالات و اقعات، انُ واقعات کے رونما ہونے پر تحقیق، غور و فکِر اور اپنے بنیادی حقوق و آئین سے خبر نہیں ہونگے اور جب تک ہم غلط کو غلط اورصحیح کو صحیح نہ مانے او نہ جانے گے، تب تک ہمارا ملُک ترقی نہیں کر سکتا ہے۔ اسیِ لئے ہمیں اسِ طویل خوابِ غفلت سے بیدار ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنے شعور کو بیدار کرکے ہر ملُکی، معاشرتی، سیاسی و مذہبی معاملات سے آگاہ رہنا چاہیے تاکہ ہم نہ صرف اپنے ملُک کو ڈوبنے سے بچا سکے بلکہ اپنی اور اپنے آنے والے نسلوں کی مستقبلِ کو بھی روشن کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکے کیونکہ آج تک خدُا نے اُس قوم کی حالت نہیں بدلی جب تک اسےُ خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو۔

Bilal Yasir
About the Author: Bilal Yasir Read More Articles by Bilal Yasir: 12 Articles with 19122 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.