تحریر: ایمان ملک
چوتھی اور پانچویں نسل کی جنگوں کے اس دور میں کسی بھی قوم کے لئے سب سے
زیادہ مشکل مرحلہ اس کی ثقافت، نظریات و عقائد کا تحفظ اور ان کی آئندہ
نسلوں کو منتقلی ہوتی ہے۔ اس عمل میں کلیدی کردار نوجوان نسل کا ہوتا ہے جو
ان نظریاتی عقائد اور ثقافتی ورثے کے اصل امین تصور کئے جاتے ہیں۔ گھمبیر
صورتحال تب جنم لیتی ہے جب نوجوان نسل خود ہی اپنے ملکی، نظریاتی اساس اور
مذہبی تشخص سے ناواقف ہو اور اس سے بھی زیادہ نامساعد حالات تب جنم لیتے
ہیں جب نوجوان نسل بیک وقت متعدد ملکوں کی ثقافتی و نظریاتی یلغار کے زیر
عتاب بھی ہو۔ ایسی کشمکش میں عین ممکن ہے کہ ان نوجوانوں کی پنہاں صلاحیتیں
دشمن قوتوں کے ہاتھ لگ جائیں اور وہ انہیں پھر سے نورین لغاری بنا کر تو
کبھی سعد عزیز بنا کر معاشرے کے خلاف کھڑا کردیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں
کہ ہم ابھی بھی حالتِ جنگ میں ہیں اس لئے ہمیں اس جدید طرزکی جنگ کی تمام
جہتوں پر سوچ بچار کرنا ہوگی اورایک ایسی پالیسی ترتیب دینی پڑے گی جس میں
ہماری ملکی ثقافت، اسلامی تشخص و عقائد اور نظریہ پاکستان کے مکمل تحفظ کو
یقینی بنانے کے لئے ایک کثیرالجہتی لائحہ عمل موجود ہو۔
تحقیق و ریسرچ کی زبان میں یہ نظریاتی و ثقافتی جنگ‘سافٹ وار’کے زمرے میں
تصور کی جاتی ہے۔ پاکستان میں گزشتہ سالوں کے دوران ہم اس پر مباحثے تو
سنتے رہیں ہیں مگر کوئی عملی اقدام ہماری نظروں سے نہیں گزارا نہ تو حکومت
کی جانب سے اور نہ تو نام نہاد سول سوسائٹی کی جانب سے۔ ہاں! مگر تعلیمی
نصاب میں تبدیلی لانے کے نعرے متعدد سیاسی پارٹیوں کی جانب سے ضرور لگائے
جاتے رہے ہیں مگر وہ بھی بعد ازاں نامعلوم وجوہات کی بناء پر خود ہی دم توڑ
گئے۔ اور آج بھی پاکستان میں انٹرمیڈیٹ سطح کی انگلش کورس بک میں نا معقول
قسم کا ناول مسٹر چپس ہی پڑھایا جارہا ہے۔ مگر بد قسمتی سیہمارینصاب میں
ہمارے قومی و اسلامی ہیروز کے لئے قطعاً کوئی جگہ تاحال میسر نہیں آسکی۔
مگر خوش آئند بات یہ ہے ہماری نوجوان نسل میں بھی چند ایسے نوجوان موجود
ہیں جو انفرادی سطح پر نظریات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جو نہ صرف خود غور و فکر
کرتے ہیں بلکہ اپنے دیگر ساتھیوں میں بھی اس روش کو فروغ دینے جیسی کڑی ذمہ
داری کا بیڑہ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر
میری نظر سے بھی ایک ایسی کتاب‘نظریات’گزری ہے جو دو نوجوانوں کی مشترکہ
تصنیف ہے، پلوشہ سعید اور شہیر سیالوی۔ اس کتاب میں قابل غور بات یہ ہے کہ
اس میں تقریباً تمام نظریات و عقائد کی بات کہ گئی ہے نظریہ پاکستان سے لے
کر ختم نبوت تک، صحابہ کرام سے لے کر صوفیاء کرام تک، اولیاء کرام سے لے کر
خلفاء راشدین تک، ٹیپو سلطان سے لے کر حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
تک اور تحریکِ پاکستان سے لے کر تحریک آزادی کشمیر و فلسطین تک تمام اہم
نکات اس کتاب میں آپ کو زیر بحث ملیں گے۔ سونے پر سہاگہ اس کتاب میں دو
قومی نظریہ بھی آپ کودوبارہ زندہ ہوتے ہوئے ملے گا جسے نام نہاد امن کی آشا
کی نامعقول کمپئین کے ذریعے دفن کرنے کی سر توڑ کوشش کی گئی۔ اس کتاب میں
خواتین کا کراد بھی نہایت متحرک انداز میں پیش کیا گیا ہے، چاہے وہ نوجوان
نسل کی تربیت سازی کے حوالے سے ہو یا معاشرے کی تعمیر سازی کے حوالے سے یا
پھر وہ خواتین کا تحریک پاکستان میں مثالی کردار ہو۔
المختصر،اس کتاب میں تاریخی حقائق کو نہایت دلچسپ پیرائے میں پیش کیا گیا
ہیاور انداز بیان اور تحقیق بھی کمال کی ہے۔ گو کہ ہمارے معاشرے میں کسی کی
حوصلہ افزائی کی روش کا شدید فقدان پایا جاتا ہے، مگر اس وقت نوجوانوں کی
جانب سے ایسیانفرادی اقدامات کا سرہایا جانا نہایت ناگزیرہے کیونکہ یہ دیگر
نوجوانوں کے لئے نا صرف باعث تقلید ہو گا بلکہ یہ انہیں ہیجانی کیفیت سے
نکالنے اور ان میں مثبت سوچ اور شعور اجاگر کرنے کی جانب ایک مثبت قدم بھی
ثابت ہو گا۔ |