کل اخبار دیکھتے ہوئے ایک شہ سرخی نے میری طرف مبذول
کروالی کہ کراچی کے ایک مشہور سرکاری ہسپتال سے ایک دسویں فیل خاتون ڈاکٹر
کا روپ دھارے ہوئے گائنی وارڈ سے پولیس اہلکار نے پکڑی گئی. تفشیش کرنے پر
وہ کوئی موضوع جواب نہ دے سکی اور اس نے جعلی ڈاکٹر ہونے کا اعتراف کرلیا.
سوال یہ اٹھتا ہے کہ چھوٹی مچھلیاں پکڑنے کا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں، جب
تک بڑے مگرمچهوں پر ان کی مدد سے ہاتھ نہ ڈالا جائے. یہ کیسے ممکن ہے کہ
ایک سرکاری ہسپتال میں ایک عورت لیڈی ڈاکٹر بن کر مریضوں پر اپنی عطائی
گیری چلانے اور سینئر ڈاکٹرز اور ہسپتال کا دیگر عملہ اس حقیقت سے واقف نہ
ہو. اگر وہ عورت نوزائیدہ بچوں کی چوری یا مریض خواتین کے غیر قانونی
پروسیجرز میں بھی مددگار تهی تب بھی یہ کسی ہسپتال کے اندرونی شخص کی مدد
کے بغیر ناممکن ہے. اس کے پرس میں سے برآمد ہونے والی مشکوک ادویات کے نام
اور ان کے استعمال سے وہ کس طرح واقف ہوئی؟
ہمارے ملک میں چهوٹے چوروں کو پکڑ کر بڑے چوروں کو چھوڑ دیا جاتا ہے. سوال
یہ ہے کہ اس قسم کے عطائی ڈاکٹر کب تک عوام کی صحت سے کهیلیں گے؟
ابھی عوام کو جاگنے کے لئے اور کتنا وقت درکار ہے.
یورپ، امریکہ میں ایک ڈاکٹر مخصوص گهنٹوں سے زیادہ کام نہیں کر سکتا کیونکہ
ایسے اس سے لوگوں کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے. ایک سرجن دن میں ایک مخصوص
تعداد سے زیادہ آپریشن نہیں کرسکتا مگر پاکستان میں تو گنگا ہی الٹی بہہ
رہی ہے. اب وقت آگیا ہے عوام جاگ جائیں اس سے پہلے کے ہماری آنے والی نسلیں
غلامی کا طوق لے کر پیدا ہوں.
|