تحریر :محمد فہیم شاکر
ایک ملک میں اگر ایک ہی قوم آباد ہو تو اس کا قومی ترانہ بھی ایک ہی ہوا
کرتا ہے ، اب اگر اسی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی
ہے کہ برعظیم میں ایک کی بجائے دو قومیں آباد تھیں کیونکہ قومی ترانے کے
متعلق ان کے خیالات میں زمین و آسمان کا فرق تھا ۔1905ء میں جب ہندووں نے
تقسیم بنگال کے خلاف اپنی تحریک شروع کی تو اس دوران انہوں نے ’’بندے ماترم
‘‘گا کر اس تحریک کو موثر بنانے کی کوشش کی۔ ایک بنگالی برہمن بنکم
چندرچیٹر جی نے 1885میں ایک ناول آنند ماٹھ لکھا جس سے یہ ترانہ اخذ کیا
گیا تھا ، بنکم چندر چیٹر جی بنگالی زبان کا ایک نامور مصنف تھا جو کالی
دیوی اور درگادیوی کا زبردست پرستار تھااور جس نے اپنے نام نہاد تاریخی
ناولوں میں مسلم اور انگریز ہیرو کے مقابلے میں راجپوت اور بنگالی ہیرو جنم
دئے تاکہ وہ مسلم اور انگریز ہیرو کے مقابلے میں کھڑے ہو سکیں اس کا سب سے
بڑا مشن ہندووں کو مسلمانوں کے خلاف اکسانا تھا ، بنکم نے یوں تو جو کچھ
بھی لکھا مسلمانوں کی تاریخ کو داغدار کرنے کی خاطر لکھا۔اس کا بڑا نشانہ
مغل شہزادیاں تھیں جنہیں اس نے اپنے ناول ’’راج سنہا‘‘ میں بے عزت کرنے کی
ناپاک کوشش کی، بنکم نے حد درجہ بے باکی کے ساتھ شاہ جہاں کی دو صاحبزادیوں
جہاں آراء اور روشن آراء اور اورنگزیب عالمگیر کی پاک دامن بیٹی زیب النساء
کے دامنِ عصمت کو داغدار کرنے کی سعی کی ۔یہاں سے آپ اس ناول نگار بنکم کی
سوچ کا اندازہ لگا سکتے ہیں، اب اس کے کسی ناول سے جو ترانہ لے کر اسے قومی
ترانہ بنانے کی سعی کی گئی تو وہ ترانہ بھی کس قدر بے ہودہ گا اس کا اندازہ
لگانا مشکل نہیں ۔بنکم چندر کا دوسرا ناول آنند ماٹھ ہے جس کے پس منظر کو
سمجھنا ضروری ہے تاکہ یہ بات سمجھ میں آسکے کہ اس کا نام سنتے ہی مسلمانوں
کے سینے میں آگ کیوں بھڑک اٹھتی ہے ۔ ناول کا ہیرو بھاونند نواب سراج
الدولہ کے بعد مرشد آباد کے نواب کی حکومت کا خاتمہ کرنے کے لئے فوج جمع
کرتا ہے اسی دوران اس کی ملاقات مہندر سے ہوجاتی ہے جسے وہ مسلمانوں کی
حکومت کے خاتمے کے لئے ایک مسلح بغاوت کا منصوبہ پیش کرتا ہے جسے مہندر
ناقابلِ عمل بتاتاہے، اس پر بھاونند سخت مایوسی اور غصے میں کہتا ہے کہ
ہمارا مذہب تباہ ہو رہا ہے اس لئے جب تک ان نرشوں (مسلمانوں ) کو یہاں سے
نکال نہیں دیتے اس وقت تک دھرم محفوظ نہیں ۔مہندر پوچھتا ہے کہ کیا تم
اکیلے مسلمانوں کو نکال سکتے ہو، اس پر بھاونند ترانہ گاتا ہے کہ جب سات
کروڑ زبانیں نعرہ بلند کریں گیاور چودہ کروڑ ہاتھ تلواریں چلائیں گے تو تم
اس وقت بھی وطن کو کمزور خیال کرو گے، مہندر اببھی اس کی باتوں پہ یقین
نہیں کرتا ،اس پر بھاو نند اسے یقین دلانے کی کوشش کرتاہے کہ انگریز میدانِ
جنگ سے فرار نہیں ہوتا ،چاہے اس کی جان خطرے میں ہی کیوں نہ پڑ جائے ،لیکن
اگر مسلمان کو پسینہ بھی آجائے تو وہ میدانِ جنگ سے فرار ہوجایا کرتا ہے ۔یہاں
آپ دیکھئے کہ کس طرح مسلمانوں کو بزدل ثابت کرنے کی ناپاک جسارت کی گئی ہے،
یوں بھاونند مہندر کو یقین دلانے میں کامیاب ہوجاتا ہے پھر وہ ایک تہہ خانے
میں جاتے ہیں جہاں کالی دیوی کا بت رکھا ہے وہاں مسلمانوں سے لڑنے کا عزم
کرتے ہین اور پھر ہر سپاہی بڑی عقیدت کے ساتھ بندے ماترم کا گیت گاتا ہے ۔بنکم
کوئی محقق یا تاریخ کا طالب علم نہیں بلکہ ایک متعصب ناول نگار تھا اور
مذکورہ دونوں ناولوں کا جائزہ لینے کے بعد یہ صفائی پیش کرنے کی ضرورت نہیں
کہ و ہ مسلمانوں کے بارے میں کن خیالات کا حامل تھا۔
تقسیم بنگال کے خلاف چلائی جانے والی ہندو تحریک میں جب بندے ماترم کا گیت
گایا جانے لگا تو اسی وقت بنگالی مسلمانوں نے اس کے خلاف زبردست احتجاج کیا
کیونکہ ناول بنگالی زبان میں لکھا گیا تھا جسے بنگالی مسلمان اچھی طرح
سمجھتے تھے، چنانچہ6اگست1907کو نٹروکانا محمڈن انجمن نے اپنے ایک اجلاس میں
ایک قرارداد کے ذریعے حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ*’’ بندے ماترم
کا گیت قومی گیت کے طور پر نہیں بلکہ انگریزوں اور مسلمانوں کو مشتعل کرنے
کے لئے گایا جا رہا ہے ‘‘۔1937میں جب کانگریسی وزارتوں نے بندے ماترم کو
قومی ترانہ قرار دیتے ہوئے اسے سکولوں کالجوں اور مجالس قانون ساز کے آغاز
پر پڑھنے کا حکم جاری کیا تو دونوں قوموں کے درمیان شدید کشمکش کا آغاز ہوا۔
ہندو لیڈر پنڈت جواہر لال نہرو نے یہ دعوی کیا یہ ترانہ گذشتہ 30سال ہماری
قومی جدوجہد سے وابستہ چلا آرہا ہے اور اس کے ساتھ بہت سی یادیں اور
قربانیاں وابستہ ہو گئی ہیں اور اس ترانے میں ہندوستان کی مدح کی گئی
ہے۔پنڈت جی کا اشارہ تقسیم بنگال کی طرف ہے کیونکہ 1937میں سے 30 سال حذف
کر دئے جائیں تو یہ سن تقسیم بنگال کی طرف چلا جاتا ہے اور تاریخ کا ہر
طالب علم جانتا ہے نہ صرف بنگال بلکہ بر عظیم کے جملہ مسلمان ہندووں کے
برعکس تقسیم بنگال کی حمایت کررہے تھے اس موقع پر دونوں قومیں ایک دوسرے کے
مد مقابل کھڑی تھیں لہذا اسے قومی جدوجہد سے تعبیر کرنا تاریخ کا خون کرنے
کے مترداف ہوگا۔ابھی کانگریسی وزارتوں کے قیام میں پورے چار سال باقی تھے
کہ کلکتہ سے شائع ہونے والے اخبار سٹار آف انڈیا نے اپنی 2نومبر
1933کیاشاعت میں بندے ماترم کے حوالے سے ایک ادارئیے میں لکھا کہ بنگال کے
مسلمانوں نے ہمیشہ اس گیت پر اعتراض کیا ہے جسے ہندو قوم پرستوں نے سنا ان
سنا کر دیا، اخبار نے واضح کیا کہ یہ گیت مسلمانوں کے لئے قطعاً ناقابل
قبول ہے چہ جائیکہ اسے ہندوستان کا قومی ترانہ قرار دیا جائے ۔1937میں جب
کانگریس کو 8صوبوں میں اپنی وزارتیں قائم کرنے کا سنہری موقع ہاتھ آیا تو
اس نے دنیا پر یہ ثابت کرنے کے لئے کہ ہندوستان میں ایک قوم آبادہے جس کا
ایک قومی ترانہ بھی ہے ،بندے ماترم کو قومی ترانہ کا درجہ دینا شروع کر دیا
،حکومت سنبھالتے ہی اس نے سکولوں ، کالجوں ، سرکاری دفاتر، اور اسمبلیوں کے
آغاز پہ یہ قومی ترانہ گانے کا حکم جاری کردیا اب دو قومی نظریہ اپنا رنگ
دکھانا شروع کرتا ہے ، برعظیم کے جملہ مسلمانوں نے اپنی پوری قوت کے ساتھ
کانگریس کے اس قومی ترانے کو مسترد کر دیا ، بنگال ، پنجاب، بہار، یوپی،سی
پی، اور مدراس کے مسلمانون نے اس قومی ترانے کو اسلام اور اس کی تعلیمات کے
منافی قرار دیتے ہوئے اسے گانے سے انکار کر دیا۔ستمبر 1937میں جب مدراس
اسمبلی میں حسب معمول یہ گیت گایا جا رہا تھا تو اسمبلی کے ایک مسلمان رکن
نے اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اسلام کے خلاف اعلانِ جنگ قرار دیا تھا۔سہ
روزہ نوائے وقت نے جولائی 1943میں دو مرتبہ بندے ماترم کا اردو ترجمہ شائع
کیا تھا اور ساتھ ہی مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک نوٹ میں
لکھا تھا کہ اصلاً یہ ترانہ بنگال کے ہندو باغیوں کا ترانہ ہے جو انہوں نے
اسلام اور حکومتِ اسلامی کو مٹاکر ہندو راج قائم کرنے کے لئے جاری کیا تھا
۔اس نام نہاد قومی ترانے کے متعلق یہ بات ذہن نشین کرنا نہایت ضروری ہے کہ
یہ گیت قومی ترانے کے طور پر نہیں لکھا گیا اور نہ ہی اس کے متعصب مصنف کو
یہ وہم و گمان بھی ہو سکتا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب یہ ہندوستان کا قومی
ترانہ قرار پائے گا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دو قومی نظریے نے اس ضمن میں کیا
کردار ادا کیا جب ہندووں کی جانب سے بندے ماترم کو بطور قومی ترانہ اختیار
کرنے پہ اصرار کیا گیا تومسلمانوں نے علامہ اقبال کی نظم
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
کو ہندوستان کا قومی ترانہ قرار دیا۔
مجلہ ادبی دنیا کے مدیر نے اس سلسلے میں انکشاف کیا کانگریس کے 1921کے
اجلاس اور اس کے دو تین سال بعد تک کانگریس کی کاروائی کا آغاز علامہ اقبال
کے اسی ترانے سے ہوا کرتا تھا ۔آل انڈیا ریڈیو آج بھی اپنی نشریات کا آغاز
بندے ماترم کے ترانے سے کرتا ہے اور ریڈیو پاکستان اپنی نشریات تلاوت قرآن
حکیم سے شروع کرتا ہے ۔
تو ہمیں ہر حال میں یاد رکھنا ہوگا کہ نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے ،
پاکستان بن گیا ہے اب اس کو آفات سے بچانے کے لئے قیام پاکستان کے جذبات کو
دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
|