ستر سال قبل اسلام کے نام پر قائم ہونے والا
پاکستان ابھی تک کوئی بھی سرکاری ادارہ حقیقی اسلامی اصولوں کے مطابق
استوار نہیں کر سکا جسکی بے شمار اندرونی سیاسی وجوہات اور وہ عالمی سیاسی
و اقتصادی نظام ہے جس سے ترقی پزیر ممالک کا چھٹکارہ پانا تو درکنار وسائل
سے مالا مال امیر ترین اسلامی ممالک بھی اسلامی نظام کے فقدان کی وجہ سے فی
الحال مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں پاک ۔قطر فیملی تکافل کا دعوی ہے
کہ وہ مکمل طور پر اسلامی بنیادوں پر قائم ہے اور اسکا مقصد استحصال نہیں
بلکہ کفالت اور ایک مشترکہ نظام ہے۔ لفظ تکافل عربی لفظ کفالت سے نکلا ہے
جسکا مطلب باہمی تعاون ہے جسکی جڑیں میثاق مدینہ سے ملتی ہیں جو بھائی
چارگی اور یکجہتی کے اصولوں پر قائم ہوتا ہے لیکن روز اول سے مضبوط ترین
عالمی سودی نظام کی شکار دنیا خاصکر اسلامی دنیا کی بگڑتی ہوئی سیاسی و
اقتصادی صورت حال کے باعث تکافل کو ترقی نہ مل سکی۔ تکافل مغربی طرز پر
قائم موجودہ انشورنس کا متبادل ہے جسکا آغاز موجودہ اسلامی دنیا میں سب سے
پہلے ستر کی دہائی میں ملیشیا نے کیا۔ پاکستان میں تکافل کا قیام 16.
08.2007کو عمل میں لایا گیا۔ اسکا صدر دفتر کراچی میں ہے اور اب تک ملک بھر
میں اسکی کل چالیس شاخیں ہیں۔ دو سال قبل اسے بہترین بنکنگ اور جدید
ٹیکنالوجی کو موثر انداز میں استعمال کرنے کے الگ الگ ایوارڈز بھی مل چکے
ہیں۔ تحصیل کھوئیرٹہ آزاد کشمیر میں بھی حال ہی میں اسکی ایک شاخ قائم کی
گئی ہے اس کے نوجوان مینجر تیموراخلاق اور ڈپٹی مینجر ادیب ظفر اسکی
کامیابی کے لیے اپنی تمام تر توانایاں صرف کر رہے ہیں جبکہ اس کے ذونل
ہیڈعمران شجاع ہاشمی اور گروپ انچارج حافظ خلیل بخش اپنے سابقہ ریکارڈ کی
روشنی میں کامیابی پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔
کنوینشنل انشورنس اور تکافل کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے مینجر تیمور
اخلاق کہتے ہیں کہ کسی بھی ادارہ کو چلانے کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے
مگر ان وسائل کا جائز ذرائع سے آنا اور جائز طریقے سے استعمال میں لا کر
حلال طریقے سے پیسہ کمانا بنیادی شرط ہے۔ موجودہ سودی نظام میں پیسہ کہاں
سے آتا ہے اور کہاں انویسٹ ہوتاہے نہ تو اسکی پرواہ کی جاتی ہے اور نہ ہی
ایک عام ادمی کے لیے اسکی چھان بین کرنا ممکن ہے جبکہ تکافل کا ایک شرعی
بورڈ ہے جو بھر پور طریقے سے تسلی کرتا ہے کہ شراکتکار کی کمائی حلال ہے
اور شراکت کاری میں شراکتکار مکمل کنٹرول میں ہے۔ کنوینشنل انشورنس میں
انشورنس کروانے والا شریک کھاتہ نہیں ہوتابلکہ اسکی رقم اس سے ایک معاہدہ
کے تحت لے کر انشورنس کمپنی اپنی مرضی سے جس طرح چائیے جہاں چاہے لگا سکتی
ہے جس کے لیے منافع پہلے سے ہی طے کر لیا جاتا ہے کمپنی کو اسکا فاہدہ بھی
ہو سکتا ہے اور نقصان بھی جو سود کے زمرے میں آتا ہے جبکہ تکافل میں انشور
یا ا نویسٹ کی گئی رقم سے حاصل ہونے والے منافع کے مطابق حصہ ملتا ہے جو
کمائی کے بعد منافع سامنے آتا ہے اور اکثر یہ منافع بنک میں جمع سودی رقم
کے منافع سے زائد ہوتا ہے اسکی شرح اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہوتی ہے۔
اکاؤنٹ میں جمع رقم پر کوئی ٹیکس نہیں اور نہ ہی کوئی اور خفیہ چارجز ہیں۔
سال میں چار مرتبہ بنا کسی فیس کے رقم نکلوائی جا سکتی ہے۔ تکافل میں تمام
شراکت کاروں کی رقم وقف فنڈ میں چلی جاتی ہے جہاں سے تعلیم وصحت کے لیے مدد
کے علاوہ اگر کسی شراکت کار پر کوئی مسلہ بن جائے تو اس کی وقف فنڈ سے مدد
کی جاتی ہے۔ تکافل میں انوسٹر اور وقف کرنے والے یہ شرط رکھ سکتے ہیں کہ
وقف کی گئی رقم کہاں اور کیسے انویسٹ کی جائے جبکہ کنوینشنل انشورنس میں
رقم لینے کے بعد تمام تر فیصلے کمپنی خود کرتی ہے ۔ سٹاف کا کردار ایک وکیل
کا سا ہوتا ہے جو مشورے دیتا ہے مگر اصل فیصلہ موئکل کرتا ہے- |