بلاشبہ “برائی”کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی اور
اس کا مرتکب اسلام میں برائی کی نوعیت کے بطور سزا کا مستحق ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا اس ضمن میں بہت ہی مناسب قول ہے:”تمہارا
بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا برائی کے راستے نہیں ہونا چاہیے”۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کسی منکر کی تادیب میں ایسا طریقہ نہ اختیار کریں
جو اس منکر سے بھی بڑے فتنے کا سبب بن جائے۔اس لیے کہ اس سے جنم لینے والا
فتنہ بھی “منکر” ہی شمار ہوگا جس کے نتائج کا تصور بہت خوفناک اور رونگٹے
کھڑا کردینے والا ہے۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ نے انكار منكر کے چار درجات بیان کیے ہیں:(یہ
درجات انکار منکر کے بعد مرتب ہونے والے اثرات کے بطور بنتے ہیں)
۱-منکر کا خاتمہ ہو اور اس کا بدل لایا جائے۔
۲-اس منکر کے اندر کمی آئے گرچہ مکمل ختم نہ ہو۔
۳-انکار منکر سے اسی جیسی برائی جنم لے۔
٤-انکار منکر سے اس سے بھی زیادہ خطرناک فتنہ جنم لے۔
پہلی دو قسمیں متفقہ طور پر مشروع اور شرعی استحکام کے لیے مطلوب ہیں۔
تیسری قسم فقہاء کے مابین موضع اختلاف ہیں۔
انکار منکر کی چوتھی قسم کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
اس لیے کہ اس قسم کی برائی کی روک تھام کا کوئی فائدہ نہیں جس سے مزید
حالات ابتر ہوجائیں،شرور وفتنے کو ہوا ملے اور امن وسکون غارت ہوجائے۔
اسی تیسری قسم میں ظلم وجبر کے بعد بھی حاکم وقت کے خلاف بغاوت نہ کرنا
شامل ہوگا،چوں کہ عام رعایا حکومت کے خلاف علم بغاوت تو بلند کرسکتی
ہے،البتہ وہ اس سے مقابلے کی تاب نہیں لاسکتی،اس لیے کہ حکومت کے سامنے ان
کی نہتی تعداد کے سوا کوئی حیثیت نہیں جسے کسی دم بھی فوجی قوت کے ذریعے
دبایا جاسکتا ہے،اور یہی منظر نامہ آج ملک”شام”پیش کر رہا ہے،جہاں “انکار
منکر” کے نام پر گمراہ اور فتنہ پرور داعیوں نے “بَہاریہ انقلاب”
کا”سبزباغ” دکھلایا،جس کی کاشت،خون میں لت پت لاشیں،ملبے اور کھنڈرات میں
تبدیل مساکن اور بچوں اور بوڑھوں کی چیخ وپکار ہے۔ |