سوشل میڈیا بھی اپنے آپ میں ایک گورکھدھندہ ہے ۔ یہاں پر
زیادہ تر وقت تو ان پہیلیوں کو بوجھنے میں صرف ہو جاتا ہے جو دکھائی جاتی
ہیں۔ کل ایک تصویر دیکھی جس میں دو خواتین بس کے پیچھے لٹک رہی تھیں ۔
تصویر کاعنوان تھا پاکستا ن میں صنفی مساوات۔ تصویر کو دیکھ کر دکھ بھی ہوا
اور خوشی بھی۔ دکھ اس بات کا کہ یہ خواتین کے وقار اور ہمارے سماجی قدار کے
خلاف ہے اور خوشی اس بات کی ایسے لٹکنے سے شاید خواتین کی عقل بھی اپنی جگہ
سرک آئے اور انہیں سمجھ آجائے کہ مرد ہونابھی کسی عذاب سے کم نہیں۔ عورت پر
ظلم کے عنوان پر ہونے والی اس ہیجان انگیزی کو اب ختم ہو جانا چاہیئے۔
پچھلے دنوں مجھے کسی نے کہا کہ بیٹا آپ عورت کے مسائل پر کچھ لکھیں میں نے
برجستہ جواب دیا، کہ عورت کوبظاہر تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن اسکے اندر خود
ساختہ ایک مسئلہ ہے جو کہ بہت سے مسائل پیدا کر رہا ہے۔ یہ مسئلہ ہاتھی کے
ان دانتوں کابھی ہے جو کھانے اور دکھانے کے اور ہیں۔ یہ نہ تو مظلوم ہے نہ
ہی قابل رحم۔ حقیقتا ا س معاشرے کا سب سے قابل رحم طبقہ تو مرد ہے۔ ایک مرد
کو اپنی بہتر زندگی اور روشن مستقبل کیلئے اعلی تعلیم، بہترین تربیت، مخلص
دوست، اچھی نوکری، خوبصورت گھر ، وفا شعار بیوی ، سعادت مند اولاد اور سب
سے بڑھ کر اچھی ساکھ اور نیک نامی چاہیئے ہوتی ہے۔ وہ یہ سب حاصل کرنے
کیلیئے اپنی پوری زندگی صرف کر دیتا ہے جبکہ ایک عورت کو اپنی بہترین زندگی
اور روشن متقبل کیلئے مندرجہ بالا خوبیوں پر مشتمل مرد مل جائے تو ناک پر
مکھی نہیں بیٹھنے دیتی۔ گھر ، اولاد اور خاندان سب مرد کی وجہ سے چلتے ہیں۔
اولاد کی بہتر پرورش، صحت، تعلیم غرض ہر ذمہ داری مرد کی ہے، ہاں عورت اگر
اپنی خوشی اور مصلحت سے اسکا ہاتھ بٹاتی ہے تو یہ اسکی اچھائی ہے۔ لیکن
عورت دراصل اس قدر پیچیدہ مسئلہ ہے جسکی سمجھ خود عورت کو بھی نہیں آتی۔ یہ
چاہتی کچھ اور ہے اور کر کچھ اور جاتی ہے۔ جو کہہ رہی ہوتی ہے وہ دراصل
کہنا نہیں چاہتی اور جو کہنا چاہتی ہے وہ کہتی نہیں لیکن چاہتی ہے کہ جو
نہیں کہا وہ ہو جائے اور جو کہا ہے وہ نہ ہو۔ ہر عورت کی ایک خوبی یہ بھی
ہے کہ وہ اندر سے انتہائی دکھی ہوتی ہے، کچھ کو یہ دکھ ہوتا ہے کہ انہیں
دکھ کیوں ہے جبکہ کچھ اس دکھ میں مری جاتی ہیں کہ انہیں کوئی دکھ ہی نہیں۔
جو برسرروزگار ہیں انہیں یہ غم کھائے جاتا ہے کہ انکی زندگی نوکری کرنے میں
تما م ہوگئی اور باقی ساری گھروں میں آرام کررہی ہیں جبکہ ہاؤس وائفز اس
بات پر شکوہ کناں ہیں کہ انکی زندگی میں جھاڑو برتن کے علاوہ کچھ نہیں رہا۔
یہ چاہتی ہیں کہ مرد ان پر حکم چلانے کے بجائے سب کچھ انکی مرضی پر چھوڑ دے
اور جب ایسا ہو تا ہے تب اس بات پر روتی ہیں کہ ہم تو سب کچھ خود کر رہی
ہیں کوئی بتانے ولا نہیں۔ سارا سال پڑوسیوں کی، رشتے داروں کی ، گھر والوں
کی برائیاں اور جھگڑے کر کر کے مرد کی ناک میں دم کر دیتی ہیں اور چاہتی
ہیں کہ قطع تعلقی ہو جائے اور جب بالآخر مرد اپنے عزیزوں، رشتے داروں سے
اسکی خوشی کیلیئے قطع تعلق ہو جاتا ہے تو اچانک ان خواتین کے دلوں میں ایک
دوسرے کیلیئے جذبات کا سمندر امڈ آتا ہے اور پھر انکی پہلی اور آخری کوشش
یہی ہوتی ہے کہ پھر سے صلح صفائی ہو جائے۔ مرد کو مائل کرنے، دوسروں کے گھر
خراب کرنے اور کسی نہ کسی روپ میں عورت کی دشمن ببنے کے بعد چاہتی ہیں کہ
مرد وفاداربھی رہے اوراسکی عزت بپر حرف بھی نہ آئے۔ میڈیا کہتا ہے کہ یہ
مردوں کا معاشرہ ہے لیکن ذرا غور کریں تو معاشرہ تو حقیقتا عورتوں کا ہے،بے
چارے مرد تو عورت کے آرام و سکوں کیلیئے کٹھ پتلیوں کی صورت کار جہاں میں
مصروف نظر آتے ہیں۔ انکی راستے میں آنے والی ہر تکلیف ، آزمائش اور مصیبت
کا سامنا خود کرتے ہیں۔ انہیں زمانے کے گرم و سرد سے بچاتے ہیں، انکی
بیماری اور کمزوری میں سہارا بنتے ہیں۔ انہیں دنیا داری اور مکرو فریب کے
جالوں سے بچاتے ہیں اور کسی نازک آبگینے کیطرح اسے حفاظت اور محبت سے رکھتے
ہیں اﷲ تبارک و تعالی نے مرد کو عورت کے تحفظ اور سلامتی کیلئے جنت سے نکال
کر زمیں پر بھیج تو دیا لیکن مرد اس گھن چکر میں ایسا چکرایا کہ خدا تک کو
بھول گیا۔ باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں ، کار جہاں دراز ہے اب
میرا انتظار کر
یہ سارے کام تقریبا سارے ہی مرد اپنی ذ مہ داری سمجھ کہ کرتے ہیں لیکن پھر
بھی بدلے میں اسے عورت سے ذلالت، رسوائی، بدنامی اور پھٹکار ہی ملی ہے۔ بہت
کم عورتیں اپنے مردوں، انکی قربانیوں اور انکے فیصلوں سے خوش پائی گئی ہیں
اور اسکا سہرا ہمارے میڈیا اور عورتوں کے نام پر پیسہ بٹور تنظیموں کے
سرجاتا ہے۔ ٹھیک ہے مرد ظالم بھی ہوتے ہونگے، مار پیٹ اور دوسری برائیاں
بھی ہوتی ہونگی لیکن کیا عورتیں ساری اچھی ہوتی ہیں؟ کیا وہ مردوں پر مختلف
طریقوں سے ظلم نہیں کرتیں؟ کیا انہوں نے مرد کی زندگی کو جہنم نہیں بنایا
ہوا؟ کیا عورت نے خاندان کے خاندان تباہ نہیں کر دیے؟ آج کی سماجی بے راہ
روی کی ذمہ دار بھی عورت ہے، مرد عورت ہی کے کسی روپ کے ہاتھوں میں پل کر
جوان ہوتا ہے، اچھائی برائی سب تربیت عورت ہی کرتی ہے، اگر تربیت کا اثر
واقعی ہوتا ہے تو گویا غلط مردوں کی تربیت بھی غلط عورتوں کے ہاتھوں ہوئی۔
ہر اک فعل کی زمہ داری مردوں پر ڈال خود کو معصوم پیش کرنے کرنے سے حقیقت
نہیں چھپتی۔ بقول شاعر فرید یونسبچے جننا ہی نہیں تھا فقط کام تیرا بات
تربیت کی ہو تو بے الاد تو ہے صنف نازک ہے محض شعر میں، افکار میں تو
مقابلہ شوہر سے اگر ہو تو فولاد تو ہے ۔ میڈیا اور ٹھپہ خو ر تنظیمیں کبھی
انکے خلاف بھی کوئی فلم بنائیں، رخسانہ بی بی کیطرح کسی مرد کو بھی پیسے دے
کر منہ پر تیزابی ڈرامہ رچایا جائے، آسکر نہ سہی بہترین فلم ایورڈ تو مل ہی
جائے گا لیکن نہیں، ہم نے عورتوں کو یہ باور کروانا ہے کہ وہ مظلو م ہیں۔
اب تو گھر میں آرام و سکوں سے بیٹھی عورت کو بھی ایک دم سے مظلومیت کادورہ
پڑ جاتا ہے اور خاندان بھر کی زندگی داؤ پر لگانے کیلیئے تیار ہو جاتی ہے،
یہ میڈیا اس وقت کہاں ہوتا ہے جب شدید گرمی میں ATM سے پیسے نکالنے والی
لمبی قطار میں عورت شامل ہوتی ہے تو مردوں کی غیرت اپنی بہن ، بیٹی تو
جھلستے ہوئے دیکھنا گوارا نہ کرتے ہوئے آگے کر دیتے ہیں۔ کہاں ہوتے ہیں اس
وقت NGO's والے وہ منظر کیوں نہیں فلماتے جب مرد خواتین کی عزت اور لحاظ
میں بسوں میں کئی کئی گھنٹے کھڑے رہتے ہیں۔ جب آفس میں کلرکس مردوں کے
مقابلے میں عورتوں کا کام پہلے کرتے ہیں تا کہ انہیں انتظار نہ کرنا پڑے،
جب ہسپتالوں ، پارکوں، تعلیمی اداروں غرض ہر جگہ عورت اپنے عورت ہونے کا
بھر پور فائدہ اور عزت سمیٹتی ہے۔ اور اسکے برعکس ہم عورتیں مردوں کی بے
عزتی کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتیں، انکی ہر سوچ کو غلط اور غلیظ کہنے میں
دیر نہیں لگاتیں، انہیں ظالم، جابر اور نہایت ہے فضول القابات دینے میں عار
محسوس نہیں کرتیں۔ اور پھر یہ شکوہ بھی لیے بیٹھی ہوتی ہیں کہ مرد ہماری
عزت نہیں کرتے۔ انہیں کون سمجھائے کہ عزت کروانے کیلئے پہلی شرط عزت کرنا
ہے اور مرد کی تو تمام ریاضتوں کا حاصل ہی عزت ہے۔ کاش کوئی ایسی تنظیم بھی
ہو کہ جو مردوں کے حقوق کیلیئے بھی کام کرتی ہوکیونکہ اس معاشرے کا سارا
بوجھ تو انہی کے کاندھوں پر ہے، آپ اگر یونہی مردوں پر تنقید کرتے رہیں گے
تو ہماری عورتیں یونہی بسوں کے پیچھے لٹکتی ملیں گی کیونکہ جن معاشروں نے
مرد اور عورت کے درمیان سے عزت اور لحاظ ختم کر دیا وہاں کی عورتیں ٹھنڈے
کمروں میں ڈرامے دیکھنے اور کرنے کے بجائے جلتی دھوپ میں مزدوری کر رہی ہیں،
راتوں کو سکوں سے سونے کے بجائے کسی مکان کی تعمیر کیلئے گارا مٹی تیار کر
رہی ہیں۔ اپنا مقابلہ ان سے کرنے کے بجائے اپنی حالت اور اپنے معاشرتی
اقدار پر فخر کریں کیونکہ یہی اقدار جب ہم مغر ب زدہ معاشروں کے سامنے بیان
کرتے ہیں تو وہ ہمیں اور ہمارے مردوں کو سلام کرتے ہیں۔ عورت جن باتوں کو
پابندی کا نام دیتی ہے منطق اسے تحفظ اور سکوں گردانتی ہے۔ اس بات کا احساس
ان عورتوں کو زیادہ ہوتا ہے جن کے گھر میں کوئی مرد نہیں ہوتا۔ جب انہیں
جلتے ہوئے روزوں میں منڈی جا کر سودا سلف لانا پڑتا ہے، جب بے کسی کے عالم
میں ضروریات زندگی کیلیئے خوار ہوتی ہیں، جب بہت آزاد اور با ا ختیار ہونے
کے باوجوبھی انکے اندر سے اواز آتی ہے کاش کوئی سرپرست انہیں مشورہ دے،
نصیحت کرے، روک ٹوک کرے، اور تحفظ کا احساس دلائے۔ یہ سچ ہے کہ اچھے اور
برے مرد ہر جگہ ہوتے ہیں بلکل ویسے ہی جیسے اچھی اور بری عورتیں لیکن یہ جو
ہم بے عزتی کے پلڑے میں سب کو جمع کر دیتے ہیں یہی سب سے بڑی برائی ہے اور
یہی مرد کو سب سے زیادہ تکلیف دیتی ہے۔ خداراہ عزت دینا اور اچھائیاں تلاش
کرنا سیکھیں، برائیاں خود ہی دب جائینگی۔ |