انسانی معاشرہ اﷲ تعالیٰ کی باشعور مخلوق کا ایک اجتما ع
ہے۔ کیا کسی مخلوق کے لیے مخلوق کا بنایا ہوا نظام کارگر ہوسکتا ہے؟ کبھی
نہیں !ہم جس خالق کی تخلیق ہیں، ہمارے لیے امن وسلامتی کے ساتھ جینے کا
شیڈول بھی اسی نے دیا ہے۔آج پوری دنیا میں جنگ کا عالم ہے۔ قدرتی وسائل اور
انسانوں کو غلام بننے کے خواہش مندلوگ پوری دنیا کے امن کو برباد کیے ہوئے
ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مسلم ممالک میں خون کی ندیا ں بہہ رہی
ہیں۔پاکستان ، افغانستان ،شام ، عراق،فلسطین،برمااور ہندوستان سمیت متعدد
ممالک میں بھی مسلمان بدامنی کے اس ریلے سے محفوظ نہیں۔ اس قیامت خیز قتل و
غارت کی تمام تر وجہ انسانی معاشرے میں نافذ نظام ہائے حیات و حکومت کا
ناقص ہونا ہے۔
لیکن حقیقت وقت گزرنے کے بعد سامنے آتی ہے ،اسٹیفن ہاکنگ بیسویں اور
اکیسویں صدی عیسوی کے معروف ماہر طبیعیات تھے۔ انھیں آئن سٹائن کے بعد
گزشتہ صدی کا دوسرا بڑا سائنس دان قرار دیا جاتا ہے۔ حال ہی میں دنیا سے
رخصت ہوگئے۔ موصوف جہاں اپنے سائنسی نظریات کے حوالے سے متنازع رہے وہیں
انسانی حقوق کے باب میں ان کا موقف نپا تلا اور حقیقت پرمبنی تھا۔ غیرمسلم
بلکہ ملحد ہونے کے باوجود قضیہ فلسطین کے پرزور حامی اور اسرائیلی ریاست کے
بائیکاٹ کے لیے چلنے والی عالمی تحریکوں کے بھی حامی تھے۔
گزشتہ روزمتعدد اخبارات میں اسٹیفن ہاکنگ کے حوالے رپورٹ شائع ہوئی جن میں
انکی قیام امن کے لئے خدمات کو سراہاگیا ۔مرکزاطلاعات فلسطین نے ’’مڈل ایسٹ
آئی‘ ویب سائیٹ ‘‘ کے حوالے ایک رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا کہ اسٹیفن
ہاکنگ کو صہیونیوں کی جانب سے ہمیشہ نفرت کا نشانہ بنایا گیا۔ صہیونی اور
اسرائیلی لیڈر شپ انہیں تختہ مشق بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے
تھے۔ اپنے سائنسی نظریات سے ہٹ کرانہوں نے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی
مظالم کی شدید مذمت کی۔ فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کی۔ شام میں
جنگ بندی پر زور دیا اور عراق پر امریکا کی قیادت میں مسلط کی گئی جنگ کے
اسباب کو گمراہ کن قرار دے کر اس جنگ کو ظالمانہ کارروائی قرار دیا
تھا۔زندگی کا ایک بڑا حصہ معذوری کے عالم میں گذارنے والے اس شہرہ آفاق
سائنسدان نے 76 سال کی عمر پائی۔ انہیں سائنس کے میدان میں گراں قیمت خدمات
انجام دینے پر نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔ ان کے کئی سائنسی افکار
ونظریات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگران کی انسانیت نوازی ، انسان دوستی اور
انسانی حقوق کے باب میں خدمات سے انکارممکن نہیں۔ ان کے لیے اتنا ہی کافی
ہے کہ انہوں نے دنیاکی مظلوم اقوام کی حمایت کی۔
اخبارات میں سنہ 2013ء کے دوران اسٹیفن ہوکنگ کا ایک خطاب ہمیشہ یاد رکھا
جائے گا۔’القدس میں اسرائیل کا مستقبل‘ کے عنوان سے خطاب میں انہوں نے
اسرائیلی ریاست کا بائیکاٹ کرنے والے اداروں، ملکوں اور تنظیموں کا احترام
کرنے کی بات کی۔ فلسطینیوں کی حمایت میں انہوں نے کھل کر اپنے خیالات کا
اظہار کیا۔فلسطینی تجزیہ نگاروں، سیاسی قیادت اور فلسطینی عوامی حلقوں نے
اسٹیفن ہوکنگ کے موقف کو سراہا اور کہا کہ مغربی دنیا کے سائنسی اور علمی
حلقوں میں ہوکنگ کا شمار فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والوں
اور صہیونی ریاست کے مظالم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے والوں میں ہوگا۔
اْنہوں نیاسرائیل پراقتصادی پابندیاں لگانے کی حمایت کی اور کہا کہ صہیونی
ریاست کا عالمی سطح پر جاری اقتصادی، تجارتی،ثقافتی، تعلیمی اور سائنسی
بائیکاٹ کیا جائے تاکہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے صہیونی ریاست کا غاصبانہ
قبضہ ختم کرنے میں مدد مل سکے۔دوسری جانب اسرائیل کے حامیوں نے ہوکنگ کو
مسلسل تنقید اور مذمت کا نشانہ بنایا گیا۔ ہوکنگ کی وفات کے بعد اسرائیلی
وزارت خارجہ ایک بیان میں کہا کہ ہوکنگ جیسا کوئی سائنسدان ایسا نہیں جس نے
صہیونی ریاست کے بائیکاٹ کی کھل کرحمایت کی ہو۔
جنوری 2009ء میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی پرننگی جارحیت کرکے 1000 سے زاید
فلسطینی شہید کردیے۔ الجزیرہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ہوکنگ نے کہا کہ
اسرائیل امن نہیں چاہتا۔ فلسطینیوں سمیت غاصب ریاست کے قبضے کے خلاف جدو
جہد مزاحمت کا حق حاصل ہے۔ فلسطینی قوم اور اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے
وہی کچھ کیا جو آئرلینڈ کے عوام نے برطانوی فوج کے خلاف کیا۔ غزہ کی پٹی
میں حماس کی منتخب قیادت کی حکومت قائم ہے۔ حماس کو فلسطینی عوام نے جمہوری
انداز میں منتخب کیا ہے اور حماس کو فلسطین میں حکومت کرنے کا حق حاصل
ہے۔سنہ 2006ء میں ہوکنگ نے اسرائیل اور مقبوضہ فلسطین کا آٹھ روزہ دورہ
کیا۔ اس دورے کے دوران انہوں نے اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم ایہود باراک
سے بھی ملاقات کی تھی۔انہوں نے بیت المقدس میں اسرائیل کی عبرانی یونی
ورسٹی اورغرب اردن میں بیرزیت یونیورسٹی میں طلبا اور دانشوروں سے خطاب
کیا۔ہوکنگ نے فیس بک پر فلسطینی سائنسدانوں کی مکمل حمایت اور تائید کا
اعلان کیا اور عالمی برادری سے فلسطین میں طبیعات کا جدید مرکز قائم کرنے
کے لییمالی مددکی معاونت کی۔اسٹیفن ہوکنگ نے شام اور عراق میں جاری جنگ ختم
کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عراق، شام اور فلسطین میں جاری جنگوں میں
بچوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ شام میں جو کچھ ہو رہا ہے
وہ کسی بھی طور قابل قبول نہیں۔ پوری دنیا تماشہ دیکھ رہی ہے۔ جنگ کاخاتمہ
اور بچوں کے دفاع کیلئے اقدامات کرنا چاہئیں۔سنہ 2003ء میں جب امریکا نے
عراق پر حملہ کیا تو اسٹیفن ہوکنگ نے اس جنگ کی بھی ڈٹ کر مخالفت کی۔سنہ
2004ء میں عراق جنگ روکنے کے حوالے سے نکالی گئی ایک ریلی سے خطاب میں
اسٹیفن ہوکنگ نے کہا کہ عراق پر جھوٹ کی بنیاد پر جنگ مسلط کی گئی ہے۔ عراق
کے پاس وسیع پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا کوئی وجود نہیں۔ صدام
حسین کے خلاف بلا جاز جنگ چھیڑی گئی اور نائن الیون کے حملوں میں کوئی
صداقت نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ قیام امن کیلئے مسلم حکمران مل کر کوشش کریں ورنہ وہ
دن دور نہیں جب قدرتی وسائل اور انسانوں کو غلام بننے کے خواہش مند لوگ کی
جانب سے دنیا میں جاری بدامنی اور قیامت خیز قتل و غارت کے اس ریلے میں
مسلمانوں کا سب کچھ بہہ جائے گا۔اس بات کی تاریخ گواہ ہے جوقومیں اپنے مقصد
اور حقوق کو بھول جاتیں ہیں ، تباہی ان کا مقدر بن جاتی ہے ۔ابھی وقت ہے ہم
سب ملکر قیام امن اور اپنے حقوق کے لئے کچھ کریں۔
مرزا اسد اﷲ خان غالب
نوید امن ہے بیداد دوست جاں کے لیے
رہی نہ طرز ستم کوئی آسماں کے لیے
|