یومِ پاکستان ایک اہم عہد ساز دن ہے، اس دن قرار داد
پاکستان پیش کی گئی تھی جس کا مقصد ایک الگ آزاد وطن کے قیام کے لیے تحریک
چلانا تھا اور محض اس قرار دا د پاکستان کی تحریک کو ہی منظوری ملنے میں
7سال کا طویل صبر آزما وقت لگا تھا۔قرارداد کے نتیجے میں ہمیں یہ آزاد
مملکت خداداد حاصل ہوئی۔ یہ وہ یادگار دن ہے جس کی یاد میں خصوصی تقاریب کا
اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایوان خانوں میں بڑے پیمانے پراس تقریب کا اہتمام کیا
جاتا ہے، صدر پاکستان کے علاوہ غیر ممالک سے بھی مہمان مدعو کیے جاتے ہیں،
فوجی پریڈ کا اہتمام ہوتا ہے۔
1956ء میں دستور ساز اسمبلی میں پہلا آئین پیش کیا گیا۔ اسی آئین میں23
مارچ کو یومِ پاکستان کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا اور یہ وہ سنہرا دن
ہے جسے ہم کم و بیش 70 سال سے مناتے آرہے ہیں۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ موجودہ
دور میں یہ سیلیبریشن ملکی جو ش و جذبے سے یکسر آزادد ہوتا ہے، محض نمو د و
نمائش یاہلہ گلہ کرنا ہی مقصد ہوتاہے، ہم میں وطن سے سرشاری کے وہ جذبات
معدوم ہوتے ہوتے یکسر مفقود ہوتے جا رہے ہیں جن کے تحت23 مارچ 1940 کو قرار
دادِ پاکستان پیش کی گئی تھی۔ جب دل ایک ہی لے پر دھڑک رہے تھے کہ ’’لے کے
رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان ‘‘۔ تب دل میں وطن سے محبت کے جذبات
ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی طرح موجزن تھے۔ وہ جذبات تو قائد اعظم کی رحلت کے
ساتھ ہی دم توڑنا شروع ہو گئے تھے جب صرف ایک سال بعد ہی اس نومولود ریاست
میں جنگ و جدل کا غلغلہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ جیسے تیسے کر کے مہاجروں کی ہجرت
کے معاملات نمٹائے گئے تو چند سال بھی اس نوزائیدہ مملکت نے سکون سے نہ
کاٹے تھے کہ ملکی ظلم کی نئی داستانیں رقم ہونا شروع ہو گئیں جب پاکستان کے
پہلے وزیرِ اعظم خان لیاقت علی خان کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ کبھی ملک
کو معاشی بحران میں مبتلا کیا گیا تو کبھی جرائم ، بدعنوانی اور سیاسی رسہ
کشی میں اضافہ دیکھنے میں آیا تو کبھی آئین معطل کرتے ہوئے اپنے ذاتی
مفادات میں اسلام کا انام استعمال کیا گیا ، تب سے اب تک ملکی حالات کی باگ
ڈور بے شمار ہاتھوں میں رہی جن میں سے اکثریت نے اس ملک کو بیچ کھانے میں
بھی کوئی کمی نہ رکھی ، وقتاً فوقتاً ایسے لوگوں نے اس ملک کا نظام سنبھالا
جنہوں نے اپنی تجوریاں بھرنے کی خاطر ملکی سا لمیت ، عزت و آبرو کو بھی داؤ
پر لگا ڈالا ، اس ملک کو اپنی شان و شوکت کی بھینٹ چڑھا ڈالا ، اور تاحال
یہ کام شدومد سے جاری ہے لیکن افسوس صد افسو س کہ ہم جیسی عوام بھی ناقص
العقل ٹہری جو ہمیشہ چند جھوٹے وعدوں پر بہل جاتی ہے اور خود غلط فیصلے سے
اپنے پاوں پر کلہاڑی مار لیتی ہے ، جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہم بظاہر
ایک الگ ا ٓزاد مسلم ملک میں رہتے ہیں لیکن دل و دماغ پر آج بھی انگریزوں
کا قبضہ ہے ، کلچر ہمارا آج بھی انڈین زدہ ہے ، قومی زبان ،، اردو ،، محض
کاغذات میں ہی درج ہو کر رہ گئی ہے ، درحقیقت انگلش کا ہی بول بالا ہے۔
23مارچ ہو یا 14اگست ہم صرف دن مناتے ہیں ، دن یا د رکھنے والے تو کب کے
منوں مٹی کے نیچے جا سوئے ، جب پاکستان کے نام سے ایک الگ آزاد اسلامی
ریاست مطالبہ کیا گیا تو کیا کوئی بھی لفظ ،، پاکستان ، کے مفہوم سے آشنا
بھی تھا ؟
نہیں بالکل نہیں ، لفظ ،، پاکستان ،، کو اس وقت عروج حاصل ہوا جب قرار دادِ
پاکستان میں پاکستان کا نام تجویز کیا گیا ، لفظ پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔
لاالہ الااﷲ۔۔
لیکن افسوس صد افسو س اسلام کے نام پر حاصل کیے جانے والے اس ملک میں وہ
قومیں ، وہ فرقے وہ رسم و رواج پنپ رہے ہیں جو صرف دوسروں کی تقلیدمیں اپنی
ثقافت اپنی روایات کی پاسداری ، اپناکلچر سب بھول کر ماڈرن ازم کی بے جا
دوڑ میں آگے اور آگے بڑھنے کے جنون میں سب فراموش کیے جا رہے ہیں اور ہماری
نئی نسل اس تقلید سے بخوبی آشنا ہے اور بھرپور مستفید ہو کر اس اندھی تقلید
کی شاہراہ پر رواں دواں ہے ،کیوں کہ یہ نئی نسل اس بات سے بے بہرہ ہے کہ اس
آزاد ملک کو پانے کے لیے اس کی سلامتی کی خاطر ، اس آزادی کی خاطرکتنے
متوالے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر بیٹھے ہیں ، کتنی سہاگنوں نے بیوگی کا
کرب سہا ، کتنی بیٹیاں باپ کے بنا بے آسرا رہ گئیں ، کتنی ماوں نے اپنے
جوان کڑیل بیٹے گنوا دیئے ، کتنی بہنیں اپنے لاڈلے بھائیوں کی لاشوں پر
نوحہ کناں ہوئیں ، اور کتنی مائیں ، بہنیں ، بیٹیاں اس ملک کے حصول کی
خاطربھیڑیوں کا نشانہ بننے سے پہلے اپنی جان گنوا بیٹھیں کہ وطن سے محبت
اور آزادی کا حصول ان سب کی رگ رگ میں یوں بہتا تھا کہ انہیں اپنی جان دینے
میں بھی قباحت محسوس نہ ہوئی اور دشمنوں سے اپنی عزت کا سودا نامنظور ٹھہرا
اور آج اسی ملک میں خود اپنے ہی اپنی ماوں ، بہنوں ، بیٹیوں کی عزت تار تار
کرنے میں پل نہیں لگاتے ، کیوں کہ نئی نسل یہ سب جانتی ہی نہیں ، نہ ہی
جاننا چاہتی ہے ،اور نہ ہی کسی کے پاس ٹائم ہے یہ سب بتانے کا تو پھر گلہ
کس سے کیجئے کہ آج کل تو نصاب کی کتابوں میں بھی حصولِ پاکستان کے لیے دی
جانے والی قربانیوں کا ذکر خال خال ہی ملتا ہے۔ جدھر نظر اٹھائی جائے دہشت
گردی ، ظلم ، ناانصافی ، چور بازاری ، دھوکہ دہی ، جھوٹ ، بے ایمانی ،
کرپشن کا بازار گرم ہے۔ جب اپنے ملک میں یہ حال ہے کہ کسی کو کسی کے دکھ سے
، ملک و قوم سے اپنے وطن کی ناموس سے کوئی سروکار نہیں تو ایسے ملک میں
بسنے والے بے حس لوگوں سے ، حکمرانوں سے، میڈیا سے ملک شام میں مسلمانوں پر
ہونے والے مظالم پر ہمدردی کی امید چہ معنی وارد۔۔؟ اورآفریں ہے ہم پر کہ
ایسے میں بھی ہم23 مارچ منانا رہے ہیں۔ |