تحریر: طیبہ شیریں، راولپنڈی
ارشاد ربانی ہے ’’اورجب تم میں حیا نہ رہے تو جو مرضی کرو‘‘۔ اس فرمان کے
یوں تو بہت سے معنی نکل سکتے ہیں تاہم یہاں پر دو مطلب پر غور کیا جاسکتا
ہے۔ ایک یہ انسان کس قدر برائیاں کرتا جائے اگر اس میں شرم و حیا ختم
ہوجائے تو پھر اسے کچھ بھی برا نہیں لگتا۔ دوسرا یہ کہ ہر شخص میں فطری طور
پر حیا رکھ دی گئی۔ چاہیے وہ مرد ہے یا عورت ہے۔ جب وہ حیا اس میں سے چلی
جائے تو پھر اسے نہ تو شرم و حیا کی فکر رہتی ہے اور نہ ہی وہ شرم کرتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا۔ اس نے زندگی دی ۔ ہر طرح کی نعمتیں عطا کیں۔
سب کچھ ہمارے لیے رکھ دیا تو اس کے پس پردہ ایک مقصد تھا اور وہ تھا کہ ہم
اس کے دی گئی اس زندگی کو اچھے اور اس کے دیے گئے احکامات کے مطابق بسر
کریں۔ ایک دن جب لوٹ کر اسی کے پاس جانا ہے تو یقینا اس کے احکامات کے
مطابق اگر زندگی بسر کی ہوگی تو ہم کامران و کامیاب ہوں گے۔ اس کے لیے سب
سے پہلے تو ہمیں اپنے آپ کا جائزہ لیں۔ آیا ہم اپنے رب کے دیے گئے احکامات
کے مطابق زندگی بسر کررہے ہیں یا نہیں۔
ایک نظر ہم اپنے معاشرے میں ڈالیں تو ہمیں فحاشی اور عریانی کا ایک عجیب
ماحول نظر آتا ہے۔ یہ چیز ایسی ہے کہ جس سے کئی دیگر برائیاں جنم لیتی ہیں۔
کچھ دیر کے لیے ہم اپنے جذباتی ذہن سے نکل کر سوچیں تو اﷲ تعالیٰ نے ہمیں
پیدا کیا وہ ہم سے 70ماؤں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے۔ پھر ہم اپنے گھر
آجائیں تو وہاں پر ہم سے ہمارے والدین ہم سے محبت کرتے ہیں۔ بہن بھائی دیگر
رشتے دار ہم سے اتنا محبت کرتے ہیں۔ اس کے بعد بھی ہمیں کمی محسوس ہوتی ہے
کہ ہم ان سب کی مخالفت میں جائیں۔ یہاں سے میرا مطلب ہے کہ آج کی کل کی غیر
ضروری اور غیر شرعی محبت۔ چند جذباتی بول اور دو چار وعدوں کے ساتھ محبت کا
کھیل شروع ہوجاتا ہے۔ کتنا عجیب بات ہے کہ ہم اپنے تمام محبت کرنے والے
رشتوں کو چھوڑ کر صرف ایک اجنبی کے پیچھے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
اس محبت میں دھوکا تو ملتا ہی اس کے بعد ہم اپنی جان کے در پے ہوجاتے ہیں
یہ سب کام صرف اور صرف چند وقتی جذباتی فیصلوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ذرا
سوچیں کہ رب جو ہمیں 70ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے تو وہ کیسے ہمارے
ساتھ غلط کر سکتا ہے۔ خودکشی کرنے والے اور کسی کی خاطر اپنی جان کو دینے
والے اس رب کو کیوں نہیں یاد رکھتے۔ پیار کے لیے جان دے دی، کسی نے بے
وفائی کی تو جان دے دی،کسی نے ڈانٹ دیا تو انا کا مسئلہ بنا لیا۔
ہم جب کسی بھی غلط رستے کا انتخاب کرتے ہیں ہم کیوں نہیں سوچتے کہ ہم اپنے
رب کی نافرمانی کررہے ہیں۔ وہ سب جانتا ہے، سب دیکھتا ہے۔ پھر والدین کی
نافرمانی کر کے ہم ناجانے کہاں سے سکھ لینے چلے جاتے ہیں جبکہ ماں باپ کی
بات نہ ماننے والا ہمیشہ دکھ ہی اٹھاتا ہے اور رب کی نافرمانی کی سزا ذلت
رسوائی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
ایک لڑکے یا لڑکی کے لیے کل کا کیا ہوا پیار ماں باپ کے پیار سے زیادہ اہم
ہو جاتا ہے۔ چند جھوٹے وعدوں پراپنے بوڑھے ماں باپ کو بھی بھول جاتے ہیں۔
جو اس کے لیے کتنی دکھ تکلیف اٹھاتا ہے۔ پھر اتنا ہی اپنے والدین کو چھوڑ
کر چلے جانا اس قدر تکلیف دہ مرحلہ ہے کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایک لڑکی
جب اپنا گھر چھوڑ کر جاتی ہیں تو اس ماں کو کیوں بھول جاتی ہے جو اس کے لیے
اتنی قربانیاں دیتی ہیں۔
بات کہیں اور نکل جاتی ہے تو تمام تر بات کا مدعا یہیں ہے کہ ہمیں اپنی
اصلاح کرنی ہے۔ فحاشی سے نہ صرف خود بچیں بلکہ دوسروں کو بھی اس سے بچائیں۔
فحاشی جب کسی معاشرے کا حصہ بن جاتی ہے تو وہاں قتل و غارت، اغوا، زنا،
بدکاری اور زیادتی جیسے واقعات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس طرح کا ماحول پیدا
بھی ہم سے ہوتا ہے اور پھر اس کے خلاف مہمات بھی ہم ہی چلا رہے ہوتے ہیں۔
اس لیے سب سے پہلے توضروری ہے اس حیا کا پردہ اپنے اوپر بلا تفریق اوڑھنا
ہوگا۔ اس کے بعد ایسی کسی بھی مہم کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔
اس کے ساتھ والدین کو بھی اپنے نوجوان بچوں پر نظر رکھنی چاہیے۔ والدین
بچوں کی پرورش کرتے ہیں اور انہیں بڑا کرتے ہیں تو ان کی سرگرمیوں پر توجہ
کیوں نہیں دیتے۔ رات بیٹا لیٹ گھر کیوں آیا، بیٹی کالج سے لیٹ کیوں آئی،
بچے رات گئے کیا کرتے رہتے ہیں۔ کب سوتا ہیں۔ ایسا نہیں کہ انہیں بالکل نظر
بند کردیا جائے ممکنہ حد تک نظر رکھنا والدین کی ذمے داری بنتی ہے۔
لڑکی ہر ٹائم اپنی دوست کے گھر کیوں جانے کو تیار رہتی ہے، لڑکی کو اتنے
مہنگے گفٹ کون دیتاہے؟ کہاں سے لا رہی ہے ،رات گئے تک ایسی کون سی باتیں
ہیں جو گھنٹوں ختم نہیں ہوتیں۔ ان سب باتوں کا خیال والدین کو رکھنا چاہیے۔
بچے تو بچے ہوتے ہیں بھٹک سکتے ہیں اور بھٹک جاتے ہیں اور یہ والدین کا کام
ہے ان کو کیسے بھٹکنے سے روکیں۔اگر والدین آنکھیں بند کر کہ بیٹھ جائیں گئے
تو پھر بدنامی ہی مقدر بنتی ہے اور ساری عمر کا رونا ہی ہاتھ میں آتا ہے۔
اسی طرح کہیں والدین کو بچوں میں کچھ محسوس ہوتا ہے تو انہیں سمجھائیں، اس
کے لیے ضروری ہے کہ والدین بچوں کے دوست بن کر رہیں۔ تاکہ بچے انہیں سب کچھ
کھل کر بتائیں۔ اس طرح وہ بچے بھی سمجھیں کہ ان کے والدین کبھی بھی اپنے
بچوں کے بارے میں برا نہیں چاہتے۔ بچے ہی ہوتے ہیں جن کو اپنے والدین کی
باتوں کا برا محسوس ہوتا ہے اور والدین کو کچھ بھی نہیں سمجھتے۔
معاشرے کی اصلاح ہمارے میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے۔ میڈیا کے دو پہلو ہوتے
ہیں، اچھا اور برا۔ میڈیا کو چایے کہ وہ مثبت اور اچھائی کا پہلو استعمال
کریں۔ اس طرح جدید ٹیکنالوجی کا بھی اس معاشرے کی اصلاح میں بہت اہم کردار
ہے۔ ٹیکنالوجی سے جہاں انسان کے لیے ترقی کی راہیں ہموار ہوئی ہیں وہیں کئی
دیگر برائیاں بھی جنم لے رہی ہیں۔ بچوں کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کریں
تاہم انہیں تمام تر آگاہی دیں۔ انہیں بہتر سے بہتر استعمال کا طریقہ بھی
بتانا چاہیے۔ کیا صحیح اور کیا غلط ہے سب چیزیں بتانی چاہیے۔
سب کو مل کر ہی فحاشی اور بے حیائی کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ یاد رکھیں اگر ہم
نے برائی کو پھیلنے دیا اور اس کا سدباب نہ کیا تو ایک وقت آئے گا ہمارے
اپنے بچے اس برائی کا حصہ ہوں گے۔ جب ہمارے سر سے پانی گزر چکا ہوگا تب ہم
سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں کر سکیں گے۔ |