انسان کی سوسالہ منصوبہ بندی میں نہیں ہے توفقط موت
کی منصوبہ بندی نہیں ہے۔زندگی میں جدوجہدکامقصد بڑے بڑے محلات بنانا،بچوں
کیلئے وراثت میں خوب ساری جائیداد چھوڑجانے کی فکرمیں زندگی گزاردینے والے
جدیددورکے انسان کو نہیں یاد توقبریاد نہیں ہے۔کہتے ہیں قبرمیں نیک اعمال
کام آئیں گئے۔ضرورآئیں گے پراس سے پہلے قبرکاانتظام توکرلیناچاہئے۔شہربھرکے
قبرستانوں میں گزشتہ کئی دہائیوں سے جگہ ختم ہوچکی ہے۔حالت یہ ہوچکی ہے کہ
نئی قبرکھودتے وقت زیرزمین دوسے تین پرانی قبریں نکل آتی ہیں۔کبھی ہڈیاں
توکبھی پرانی میت کے کفن کاکپڑانئی میت کاشریک قبربن جاتاہے۔شہرلاہورکی
آبادی ہزاروں سے لاکھوں اورلاکھوں سے کروڑوں تک پہنچ چکی ہے ہرطرف
بلندبالاعمارتیں اورنئی آبادیاں قائم ہوچکی ہیں۔قابل غوروفکرموضو ع پرقلم
اُٹھاتے ہوئے راقم یہ کہناچاہتاہے کہ قبرستانوں میں جگہ ختم ہونے کے باوجود
ہماری توجہ اس اہم مسئلہ کی طرف کیوں نہیں جاتی؟ کاہنہ کے نواح میں واقع
رکھ چیدو گاؤں میں حکومت پنجاب نے 155 ملین روپے کی لاگت سے90کنال پر محیط
جدید و سائنسی بنیادوں پر شہر خاموشاں پراجیکٹ مکمل کرکے مرنے والوں کی
تدفین کیلئے کھول دیاہے۔حکومتی بیانات کے مطابق اس شہر خاموشاں کے قیام سے
شہر بھر میں مرنے والوں کی تدفین باآسانی ہو سکے گی۔ شہر خاموشاں کی
انتظامیہ کوکسی بھی مرنے والے کے اہل خانہ یا رشتہ داروں کی کال پر میت کو
اس کے گھر سے ایمبولینس کے ذریعے لانے سے لے کر نہلانے اور تدفین کرنے کا
پابند کیاگیاہے۔معلومات کے مطابق اس شہر خاموشاں میں 8000 افراد کی تدفین
کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ اس شہرخاموشاں کاقیام یقیناًحکومت پنجاب کااحسن
اقدام ہے پھربھی آٹھ ہزارقبروں کی گنجائش والایہ منصوبہ شہرلاہورکی آبادی
کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابربھی نہیں۔راقم یہ کہناچاہتاہے کہ
قبرستانوں میں ختم ہوچکی گنجائش کے حوالے سے اقدامات اُٹھاناصرف حکومت ہی
کاکام نہیں بلکہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اکیسویں
صدی میں پینے کا صاف پانی،صحت و صفائی ،تعلیم وتربیت اور بہتر سیوریج سسٹم
میسر نہیں ہے وہیں مرنے کے بعد دفنانے کی جگہ بھی میسر نہیں رہی۔ کاہنہ کی
آبادی بڑھنے سے شہر کے پرانے۔جٹھولاں والاقبرستان،دوپ سڑی قبرستان،کچوانہ
بستی قبرستان،پراناکاہنہ،پاڑواں تھیں،گجومتہ قبرستان سمیت تمام قبرستانوں
کے اندر نئی قبروں کیلئے جگہ ختم ہوچکی ہے جبکہ نئی آبادیوں کے اندر کہیں
کسی مقام پربھی قبرستان کیلئے زمین مختص نہیں کی گئی۔قابل ذکربات کرتاچلوں
کے کاہنہ وگردونواح کے تمام قبرستان وقف ہیں یہاں کسی کو قبربنانے کیلئے
زمین کی قیمت ادانہیں کرنی پڑتی۔اہل علاقہ کاحکومت پنجاب سے یہ مطالبہ ہے
کہ جدید و سائنسی بنیادوں پر شہر خاموشاں بنانے کی بجائے صرف زمین وقف کردی
جائے۔کفن،دفن کاانتظام تولوگ کرہی لیتے ہیں قبرستانوں کے اندرجگہ ختم
ہونابہت بڑامسئلہ ہے جسے حکومتی توجہ کے بغیرحل کرناممکن
نہیں۔سیاسی،سماجی،صحافتی،قانونی ،سرکاری وغیرسرکاری تمام ترشہری حلقوں کایہ
خیال ہے کہ اس ثواب کے کام میں شہریوں کو بھی آگے بڑھ کراپناحصہ ڈالناچاہئے
تاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر نئے اوربڑے قبرستانوں کیلئے زیادہ سے
زیادہ زمین وقف کی جاسکے۔زندگی کاکوئی بھروسہ نہیں اورموت ایسی حقیقت ہے جس
کانہ چاہتے ہوئے بھی سامناکرناہی پڑتاہے اس لئے راقم بھی وزیراعلیٰ پنجاب
میاں شہبازشریف کی توجہ اس اہم اورقابل غوروفکرمسئلہ کیطرف دلاکرفوری نوٹس
لینے کی اپیل کرتاہے |