تحریر: معصومہ ارشاد سولنگی (میہڑ)
زندگی میں بعض اوقات ایسے لمحے بھی آتے ہیں۔ برسوں بیت جانے کے بعد بھی جن
کو انسان نہیں بھلا پاتا شاید اس لیئے کہ انسان اپنی زندگی کو لمحوں کی قید
سے آزاد نہیں کرا سکتا۔لمحہ! اکثر پلک جھپکتے ہی گزر جاتا ہے یہ لمحہ۔ پر
کبھی کبھی تو اک لمحہ صدیوں پر بھاری پڑ جاتا ہے۔کچھ انسان تو ایسے بھی
ہوتے ہیں جو اک لمحے میں ہی پوری زندگی جی لیتے ہیں۔پر کچھ کے لیئے تو پوری
زندگی اک ایسے لمحے کے مانند ہوتی ہے جس کو جینے کے لیئے اک اور جنم کی
ضرورت پڑتی ہے۔
نئی زندگی کی شروعات بھی اس ایک لمحے سے ہی ہوتی ہے جس کو انسان بھرپور
طریقے جی لیتا ہے۔۔ایسے کئی لمحات انسانی زندگی کے گرد گھومتے رہتے ہیں۔پر
اکثر اک لمحہ ہی زندگی کا محور ہوتا ہے۔لاکھ چاہ کر بھی پھر جس کے حصار سے
نکلا نہیں جا سکتا۔یا شاید خود ہی اس حصار سے نکلنا نہیں چاہتا۔۔لمحے کی
خوشی کا تصور اکثر وہ ہی کر سکتے ہیں جن کی پوری زندگی غم کی گرد آلود
گلیوں سے گذرتے ہوئے ہی گذری ہو اور اچانک سے اس کی نظرخوشی کے خوابناک
خیموں پر پڑ جائے۔اک لمحے کو وہ انسان غم کی مسافت کو بھول کر ان خیموں کو
اپنی منزل سمجھ کر ان کی طرف قدم بڑھاتا ہے۔وہ اک لمحہ ہی اس کو اتساہ دیتا
ہے اور آگے بڑھنے کے لیئے اکساتا ہے۔اور باالآخر اسے اس کی منزل تک پہنچاہی
دیتا ہے وہ اک لمحہ!
پر اگر لمحے کا عذاب جاننا چاہو تو اس انسان کے دل میں جھانک کر دیکھو جس
پر اک اک لمحہ صدیوں کی طرح گذرتا ہے اس ہستی کی یاد میں جو اس کو زندگی دے
کر خود موت کی آغوش میں سو چکی ہو۔اک لمحے کی قدر اس انسان کو ہی ہو سکتی
ہے جس کی انمول یادیں اس اک لمحے سے وابستہ ہوں جس میں وہ پوری طرح جی چکا
ہو زندگی کی ہر خوشی اس اک پل میں پا لی ہو گویا دنیا جہان کی ساری خوشیاں
اس اک لمحے سے وابسطہ ہوگئی ہوں۔انسان اس لمحے کی یاد کو اپنی زندگی سے بھی
بڑھ کر سمجھنے لگے وہ اک لمحہ ہی اس کی پوری زندگی کا سرمایہ بن جائے۔مگر
کسی کارن اس اک لمحے کو ہی اس کی صفحہ زندگی سے مٹانے کی کوشش کی جائے تو
پھر دیکھو کیا حشر بپا ہوتا ہے اس کے دل سے نکلنے والی آہین عرش کے پردے
ہلا دیتی ہیں!!!!!
|