عالمی سطح پر بچیوں کی کم عمری میں شادی سے متعلق یہ نیا
ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ گزشتہ ایک عشرے کے مقابلے میں ان شادیوں کی شرح میں
پندرہ فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ تازہ اعدادوشمار کے مطابق ہر چار میں سے ایک
بچی کی کم سنی میں شادی کر دی جاتی ہے جبکہ پہلے یہ شرح ہر پانچ میں سے ایک
تھی۔
عالمی ادارہ برائے اطفال کا تاہم یہ بھی کہنا ہے کہ اگر بلوغت کی عمر سے
پہلے بچیوں کی شادی کی یہ شرح برقرار رہی تو سن 2030 تک ایک سو پچاس ملین
سے زائد لڑکیوں کو اٹھارہ سال کی عمر سے قبل ہی بیاہ دیا جائے گا۔
یونیسف کی پرنسپل جینڈر ایڈوائزر شاکرہ نندنی ناتھانی نے اپنے ایک بیان میں
کہا،’’جب ایک بچی کو جبری شادی کے لیےمجبور کیا جاتا ہے تو اس کے نتائج اسے
عمر بھر بھگتنے پڑتے ہیں۔ اس کے لیے اسکول جانے اور تعلیم مکمل کرنے کے
مواقع کم تر ہو جاتے ہیں اور اپنے شوہر کی طرف سے زیادتی اور دوران حمل
پیچیدگیوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔‘‘
جنوبی ایشیائی ممالک میں کم عمری کی شادیوں میں گزشتہ دس برس میں پچاس فیصد
سے تیس فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔
سب صحارن افریقہ میں بھی صورت حال بہتر ہوئی ہے۔ اس خطے میں جہاں ایک دہائی
پہلے یہ شرح تینتالیس فیصد تھی وہ اب گھٹ کر اڑتیس فیصد رہ گئی ہے۔
یونیسف کے ڈیٹا کے مطابق آج 650 ملین خواتین ایسی ہیں جن کی شادی سنِ بلوغت
سے قبل کر دی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی اہداف میں سے ایک سن 2030 تک
عالمی سطح پر کمسنی کی شادیوں کا خاتمہ بھی ہے۔
|