دروود پاک ایک ایسی نعمت ہے جس کا اندازہ نہیں کیا جا
سکتا۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔"بے شک اللہ اور اس کے سب
فرشتے نبی مکرم ﷺ پردرود بھیجتے رہتے ہیں اے ایمان والو تم بھی ان پر درود
بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو"۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پہلے خبر دی
ہے پھر حکم ارشاد فرمایا ہے۔اللہ تعالی ٰ نے خبر یہ دی ہے کہ اللہ اور اس
کے سب فرشتے نبی مکرم ﷺ پردرود بھیجتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آگاہ
فرما کر اطلاع دےکر اپنا عمل اور فرشتوں کا عمل بتاکر پھر حکم ارشاد فرمایا
کہ اے ایمان والو تم بھی ان پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔اللہ
تعالیٰ نے قرا ٓن مجید میں صرف اس مقام کے سوا کسی اور مقام پر ایسا حکم
ارشاد نہیں فرمایا کہ وہ حکم دینے سے پہلے یہ خبر دے کہ میں یہ کام کرتا
ہوں تم بھی یہ کیا کروں۔
اللہ تعالیٰ نے جب سلسلہ نبوَّت شروع فرمایا او ر حضرت آدم ؑ کو دنیا میں
بھیجا تو عظمتِ نبوَّت کے اظہار کے لیے فرشتوں سے سجدہ تعظیمی کروایا اور
اس عمل سے آپکی تعظیم کا آپ کے بلند رتبے کا اظہار فرمایاجبکہ اظہارِعظمت
کے اس عمل میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایسے عمل کو منتخب کیا جس میں وہ خود
شریک نہیں ہوابلکہ یہ عمل فرشتوں سے کروایا کیوں کہ یہ عمل اللہ تعالیٰ کی
شان کے لائق نہیں تھا اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو کوئی ایسا عمل بھی منتخب کر
سکتا تھا جس میں عظمتِ نبوَّت کے اظہار کے لیے وہ خود بھی شریک ہومگر جب
اپنے حبیب ﷺکی عظمت کا اظہار چاہا تو ایسا عمل منتخب کیا جو سب سے پہلے اس
نے خود کیا پھر حکم ارشاد فرمایا کہ میں اور میرے ملائکہ حضورﷺ پردرود
بھیجتے ہیں مومنو تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔علماءفرماتے ہیں اللہ
تبارک و تعالیٰ نے یہ آیت حضور ﷺکی عظمت آپ کی شان اور آپ کے عظیم اور بلند
مرتبے کے اظہار کے لیے یہ آیت نازل فرمائی۔
اللہ تعالیٰ درور بھیجتا ہے اس سے مراد کیا ہے صحیح بخاری کی حدیث کا مفہوم
ہے اللہ تعالیٰ فرشتوں کا اجتماع منعقد کرتا اور خطاب کرتا ہے جس کا مو ضوع
آقاﷺ کی حمد وثناءہوتاہے للہ تعالیٰ اپنے حبیب کی شان بیان کرتا ہے اپنی
شان کے لائق ۔ہم پر اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں وہ ذکر
عطا فرمایا جو وہ خود فرماتا ہے اللہ تعالیٰ اپنی تسبیح خود نہیں کرتامثلاً
اللہ ھو ،سبحان اللہ ،اللہ اکبر اس نے ہمیں یہ ذکر کرنے کا حکم دیا وہ بس
ایک ہی ذکر کرتا ہے وہ ہے ذکرِ مصطفیٰ اپنے حبیب کی عظمت بیا ن کرنا اسی کے
±گن گانا چونکہ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا اس نے قیامت تک فرشتوں کا اجتماع
کرکرکے اپنے حبیب کی شان بیان کرنی ہے اسی لیے اس اپنے حبیب کا نا "محمد"
رکھ دیا یعنی وہ ذات جس کی بار بار تعریف کی جائے۔
انسان کاکو ئی عمل کوئی عبادت ایسی نہیں ہے جس کا قبول ہونا یقینی ہوآپ
ساری عمر نماز پڑھتے رہیں روزے رکھیں حج کریں زکوٰة دیں صدقہ و خیرات کریں
اللہ تعالیٰ کی مر ضی ہے وہ قبول کرے یا نہ کرے صرف ایک عمل ایسا ہے درود و
سلام پڑھنے والے نے ادھر پڑھا ادھر قبول ہو گیاکیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں
درود بھیجنے کا حکم دیا مگر خود بھیجنے بھی نہ دیا ہم کہتے ہیں اللھمہ صلی
علی محمدوعلی ٓل محمد اے اللہ درود بھیج حضورپراور ان کی آل پر گویا ہمیں
درود بھیجنے کا حکم بھی دیا مگر بھیجنے بھی نہ دیا کیوں کہ انسان جتنا بھی
نیک کیوں نہ ہو جائے عیب سے پاک نہیں ہوسکتا ہماری زبان اس قابل کہا کہ ہم
حضور پر درود بھیجیں ہماری کیا مجال ہم کہیں حضور میں آپ پر درود بھیجتا
ہمیں کیا معلوم اللہ کے حبیب کی شان کیا ہے ان کا مقا م کیا ہے ہم اللہ سے
در خواست کرتے ہیں اے اللہ تو درود بھیج حضور پر بھیجے گا پھربھی وہ مگر
ہمارا بن جائیگاگویا درود پاک ایسی عبادت ہےںیہاں زبان سے نکلی وہاں قبول
ہوئی ۔
حدیث پاک میں ارشاد ہوتا ہیں"لوگوں جب تم مجھ پردرود پڑھو تو بڑے اچھے
طریقے سے پڑھا کرو شاید تم یہ نہیں جانتے تمہارا یہ پڑھا جانے والا درود
خود میری بارگاہ میں پیش کیا جاتا ہے"۔ جب فرشتے آقا ﷺ کی خدمت میں درودپیش
کرتے ہیں تو پڑھنے والے کا نام اس کے والد کا نام اس کے حسب و قبیلے کانام
بتاکر پیش کرتے ہیں۔لہٰذا ہمیں چاہیئے ہم خشوع و خضوع کے ساتھ محبت اور لگن
کے ساتھ درودو سلام پڑھیں۔ حدیث پاک میں ہیں ایک مرتبہ درود پڑھنے سے۰ ۱
گناہ معاف ہوتے ہیں ۰۱ نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۰۱ رحمتیں نازل ہوتی ہیں
۰۱درجات بلند ہوتے ہیں۔آپﷺنے فرمایاجس شخص نے دنیا میںمجھ پر جتنا درود
پڑھا ہوگا ہو قیامت کے دن وہ میرے اتنا ہی قریب ہوگا۔درود پاک کے عظیم
موضوع پربے شمار تصانیف لکھیں گئی جن میں درود پاک کی اہمیت و فضیلت پر
احادیث اور بزگانِ دین کے واقعات نقل کئے گئے ہیں جن میں مشہور المعروف
حضرت شمس الدین سخاودیؒکی "القول البدیع"حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلویؒ
کی"جذب االقلوب" جبکہ درود پاک کے اوراد پر مشتعمل حضرت سلیمان الجزولی ؒ
کی "دلائل الخیارات "شامل ہیں۔
امام قسطلانی ؒنے اپنی کتاب میں درود پاک کی برکت کایہ واقعہ روایت کیاہے
کہ قیامت کے دن کئی مومن ایسے ہونگے جب اعمال تولیں جائینگے میزان پر تو
انکی نیکیاں کم پڑ جائیں گی نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہوجائیگا اورگناہوں کا
بھاری جس کے باعث وہ مومن پریشان کھڑا ہوگا تو اتنے میںآقاﷺتشریف لائیں گے
میزان پر اور اپنی جیب مبارک سے ایک کاغزکا ٹکڑا نکالیں گے اور میزان پر
رکھ دیں گے جس سے نیکیوں کا پلڑا بھا ری ہو جائیگا اللہ کے حبیبﷺ پردے میں
ہوں گے تو وہ مومن پہچان نہیں پائیگا وہ کہے گا آپ پر میرے ماں باپ قربان
آپ کتنے خوبصورت ہیں اتنے سخی ہیں مجھے دوزخ سے بچا لیا آپ ہیں کون اور اس
پرچے میں کیا تھا جو میرے نامہ اعمال میں رکھا تو آقاﷺ جواب دیں گے میں
تمہارا نبی ہوں اور وہ پرچہ وہ درور تھا جو تم مجھ پڑھا کرتے تھے اس درود
کا بدلہ تمہیںاس وقت ملا جب تمہیں اس کی بڑی ضروت تھی اور اللہ نے تمہیں اس
کی برکت سے جنت عطا فرمادی۔
لہٰذا ہمیں چاہیئے کہ ہم کثرت کے ساتھ اللہ کے حبیب ﷺ پر دروو و سلام پڑھا
کریں کیوں کہ کثرت کے ساتھ درود و سلام پڑھنے سےحضور ﷺ کی قربت نصیب ہوتی
ہے ربط و تعلق نصیب ہوتاہے اورسب سے بڑھ کر زیات کا دروازہ کھلتا ہے د رود
پاک گناہوں کفارہ ہے درودپاک فتوحات کی چابی ہے درودپاک سے مصیبتیں ٹلتی
ہیں غم دور ہوتے ہیں،رزق میں برکت ہوتی ہے الغرض درودپاک دنیا اور مرنے کے
بات کے تمام مراحل میں نجات کا ذریعہ ہے جو جتنی کثرت سے درود پڑھے گا اسے
اتنا ہی فائدہ پہنچے گا اللہ تعالیٰ ہم سب کو کثرت کے ساتھ درودوسلام پڑھنے
کی توفیق عطا فرمائے۔ |