میں آج کل جس محلے میں رہتا ہوں وہ محلہ بہت زرخیز
ہے۔مجھے اندازہ ہے کہ اس ملک کے بہت سے گوہر نایاب یہاں اس محلے میں مقیم
ہیں۔ بس کسی دیدہ بینا کی ضرورت ہے۔ویسے وہ نظر کہیں بھی ہو، یہ لوگ اس نظر
کو ڈھونڈھ لیتے ہیں اور اسے اپنی طرف متوجہ کرانے کے بہت سے حربے بھی جانتے
ہیں۔ یہ اتنے بڑے لوگ ہیں کہ میرے جیسے عام استاد سے بغیر ضرورت ملنا یا اس
کے سلام کا جواب دینا بھی پسند نہیں کرتے ۔اگر کہیں مجبوری میں ہاتھ ملانا
پڑ جائے تو آدھا ہاتھ آگے کرتے ہیں جو میرے یا عوامی اخلاقی معیار کے مطابق
نہیں اور عمومی خیال میں بگڑی اور گھٹیا تہذیب میں بڑے پن کی علامت ہے۔مگر
یہ میری ذاتی رائے ہے ۔ بڑے لوگوں کو مجھ سے یا میری اور میرے جیسے عام
آدمی کی اخلاقی قدروں سے نہ پہلے کوئی سروکار تھا اور نہ اب ہے۔بلکہ تاریخ
اٹھا کر دیکھ لیں ہر دور میں کسی بھی ملک کی اخلاقی قدریں کچھ ہوں ،وہاں کی
نام نہاد اشرافیہ جو حکمرانی کی دعوے دار ہوتی ہے کی اخلاقی قدریں بڑی
مختلف ہوتی ہیں جن کے مطابق ان بڑے لوگوں کو نہ تو ملک کی اخلاقی قدروں سے
اور نہ ہی ملک سے کوئی سروکار ہوتا ہے۔ان کے اپنے مفاد ہوتے ہیں جن کا حصول
ان کا اولیں مقصد ہوتا ہے۔
حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وائس چانسلر کے طور پر جس شخص کو تعینات کیا جائے
گا۔اس کے لئے پی ایچ ڈی کی شرط ختم کر دی جائے اور اب اس کا استاد ہونا بھی
کوئی شرط نہیں ہے ۔اس فیصلے کے نتیجے میں اب کوئی بھی شخص وائس چانسلر لگ
سکتا ہے۔ اس فیصلے کا فوری اثر میرے محلے میں تو بہت ہوا ہے ۔ بہت سے لوگ
مجھے آ کر ملے اور اس بارے مزید جاننے کی خواہش کی ہے۔ مجھے اس بارے زیادہ
معلومات تو نہیں تھیں مگر ان لوگوں سے گفتگو کے بعد انہی کے بارے مجھے
تفصیلی جانکاری ضرور ہو گئی ہے۔میں حیران ہوں اس قدر نایاب لوگ اور مزید یہ
کہ سیاسی طور پر با اثر ، پھر بھی ابھی تک کوئی ایسی جگہ حاصل نہیں کر سکے
جو بقول ان کے ان کے شان شایان ہو۔ میرے محلے کے چوہدری صاحب ایک لمبے چوڑے
اور اونچے قد کے جوان ہیں۔ سیاست میں ان کا بہت عمل دخل ہے۔آپ سے ملتے ہوئے
آدھا ہاتھ ملاتے ہیں، آپ سے گفتگو کرتے ہوئے تھوڑا منہ پھیر کر بات کرتے
ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ سامنے والے کو پتہ چلے کہ کسی بہت بڑے آدمی سے
بات ہو رہی ہے۔
چوہدری صاحب بڑی گھن گرج والے آدمی ہیں۔ ان کا ایک شاندار سکول ہے۔بڑی شان
سے سکول میں آتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں فارن کوالیفائیڈ ہیں۔بڑے جچے تلے انداز
میں گفتگو کرتے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں مجھے ان کی گفتگو ہمیشہ سطحی سی لگتی
رہی ہے۔ وہ اپنے علاوہ پورے محلے کے لوگوں کو معمولی سمجھ کر اول تو بات ہی
نہیں کرتے اور اگر کریں بھی تو ان کے لہجے سے تکبر جھومتا چلا آتا ہے۔چند
دن پہلے وہ میرے غریب خانے پر اچانک آ پہنچے اور مجھے کھانے کی دعوت دی کہ
اس بہانے گپ شپ بھی ہو جائے گی۔اس دن ان کے لہجے میں بہت عاجزی تھی۔ میں نے
معذرت کی کہ میرا آنا کچھ مشکل ہے آپ اندرتشریف لائیں ابھی گپ شپ ہو
جائے۔وہ فوراً آ گئے۔کہنے لگے کہ آپ سے مشورہ کرنا ہے کہ وائس چانسلر کی
آسامی آئی ہے۔ میرا تعلیم کے شعبے میں طویل تجربہ ہے۔ امریکہ سے Phd اور
M.Sc کی ڈگریاں بھی حاصل کی ہوئی ہیں۔سیاسی اثر رسوخ بھی کافی ہے۔
یونیورسٹیوں کے حالات بارے سن کر دل بہت کڑھتا ہے ،اس لئے میں چاہتا ہوں
کہایسے تعلیمی ادارے کی اصلاح کے لئے اپنی خدمات پیش کروں ۔ آپ کا کیا خیال
ہے۔بڑی اچھی بات ہے، میں نے کہا۔اب تو Phd کی شرط بھی ختم ہو گئی ہے ، جب
کہ ماشا اﷲ آپ تو فارن Phd ہیں۔ تھوڑی دیر کچھ سوچتے رہے پھر گویا ہوئے۔لوگ
کہتے ہیں ڈاکٹر سے کوئی چیز چھپائی جائے تو وہ صحیح علاج نہیں کر سکتا۔میں
آپ سے کھل کر بات کروں گا۔ آپ اچھے آدمی ہیں مجھے امید ہے میری بات کسی سے
نہیں کریں گے۔ اور میری پوری طرح رہنمائی کریں گے۔انشا اﷲ، آپ پورے اطمینان
اور بھروسے سے بات کریں ۔میں نے کہا۔
کچھ دیر سوچنے کے بعد کہنے لگے باقی تو سب ٹھیک ہے ۔ مگر میرے پاس بی اے کی
ڈگری نہیں۔تھوڑے وقفے کے بعد پھر بولے ، میٹرک اور ایف اے کے سرٹیفیکیٹ بھی
نہیں ہیں۔
آپ سیاسی طور پر با اثر آدمی ہیں۔ Phd کی ڈگری کے ہوتے یہ گم بھی ہو گئیں
ہیں تو نکلوائی جا سکتی ہیں۔ویسے آپ امریکہ کتنا عرصہ رہے اور کونسی
یونیورسٹی سے ڈگری لی۔ مسکرائے اور کہنے لگے ۔ کسی سے ذکر نہ کریں۔ آپ کو
سچ بتا رہا ہوں۔ میں امریکہ کبھی نہیں گیا۔ ڈگری یاد نہیں کس یونیورسٹی کی
ہے۔ آپ کو دکھا دوں گا۔ خود ہی پڑھ لیں۔ دراصل ایک دوست ،جو امریکہ میں
مقیم تھا، سے کہا تھا وہ پاکستان آتی دفعہ میرے لئے M.Sc اور Phd دونوں
ڈگریاں لے آیا۔ بس چند سو ڈالر خرچ آیا تھا۔میری انگریزی بہت اچھی نہیں۔ آپ
وائس چانسلر بننے جا رہے ہیں اور انگریزی میں پیدل۔ سر ہلا کر کہنے لگے ۔
یہ فکر نہ کریں ، ضروری بات میں کسی حد تک انگریزی میں کر ہی لیتا ہوں۔باقی
کام تو سٹاف کو کرنا ہوتا ہے۔میں آ پ سے فقط یہ پتہ کرنے آیا ہوں کہ وہاں
کام کیا کرنا ہو گا، اور کیسے کرنا ہو گابس اس کے بارے کچھ بتا دیں، باقی
وزیر تعلیم سے دوستی کا یہی تو فائدہ لینا ہے ۔ وزیر اعلیٰ سے بھی بہت اچھے
تعلقات ہیں۔ ان کے جلسے جلوسوں پر بھی بے دریغ کرچ کرتا ہوں اس لئے کوئی
انکار نہیں کرے گا۔
میں حیران اس کی احمقانہ جسارت کے بارے سوچ رہا تھا۔ میں نے اسے کہا کہ آپ
نے میٹرک بھی کیا ہے یا نہیں۔کہنے لگے ۔ میری ماں کی دعائیں میرے ساتھ ہیں۔
بڑی بھلی عورت تھی۔ میں پڑھائی سے بھاگ جاتا تھا۔ میرا باپ کہتا یہ آوارہ
ہے۔ ساری عمر روئے گا۔ میری ماں کہتی کہ میرا بیٹا پڑھے نہ پڑھے مگر
بڑاآدمی ضروربنے گا۔دیکھ لیں اس کی دعاؤں کے سبب میں ایک بڑا اور باعزت
آدمی ہوں۔
اب بھی میں یقیناً کامیاب ہوں گا کیونکہ ماں کی دعائیں اب بھی میرے ساتھ
ہیں۔بس انٹرویو ہونے کی دیر ہے ،آپ کو نظر آ جائے گا کہ اگلا وائس چانسلر
آپ کا یہ بھائی ہے۔
بتانے لگے کہ میرا پڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا۔ سمجھیں کوئی نو جماعتیں
پڑھی ہیں۔ سب سے پہلے میرے ایک دوست اور میں نے مل کر ایک ویگن بنائی۔ صبح
اور دوپہر بچوں کو سکول چھوڑنے اور سکول سے لانے کا کام کرتے۔ باقی وقت روٹ
پر چلاتے۔ ہم نے کبھی کوئی ملازم نہیں رکھا۔ہم دونوں دوست خود ہی ڈرائیور
اور خود ہی کنڈکٹر تھے۔محنت کرنے کا اپنا ہی مزہ ہے اور پھر اس میں برکت
بھی بہت ہے۔ویسے سکول میں ویگن پر بچے چھوڑنے کا فائدہ یہ ہوا کہ میں سکول
کے بزنس کو سمجھنے لگا۔پھر میں نے ویگن بیچ دی اور ایک سکول بنا لیا۔ ایک
زبردست قسم کی ہیڈ مسٹرس رکھی۔ وہ کام بھی جانتی تھی اور لوگوں پر سکول کا
شاندار تاثر دینا بھی۔ میں دو تین سال اس کے انداز پر غور کرتا رہا۔اس
دوران مزید دو برانچز بھی بنا لیں۔ اب میں خود پرنسپل کے طور پر کام کر رہا
ہوں۔ بہت سال ہوگئے اب دل چاہتا ہے کہ کسی بہتر جگہ کام کروں جہاں ملک کی
خدمت بھی انجام دے سکوں۔ میں نے کہا، ڈگری دیکھ لیں۔ جواب ملا، پلیز آپ کسی
سے بات نہ کریں۔ بس سمجھ لیں میرے پاس سب کچھ ہے۔ سیاست کرنے کا کیا فائدہ۔
میرے جیسے بہت سے لوگ آ جکل مختلف اداروں کے چیئر مین اور مینجنگ ڈائریکٹر
کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ بس اوپر سے اشارے کی ضرورت ہے، نیچے تو سب ہر
حال میں واہ واہ کرتے ہیں۔بس مجھے وائس چانسلر لگنے دیں، کوئی نہیں بولے گا۔
میری Phd کی ڈگری سب کو نظر آ رہی ہے، مجھ سے زیادہ پڑھا لکھا کون؟میں آپ
سے صرف یہ چاہوں گا کہ اگر مجھے کوئی مشکل پیش آئے تو آپ اس میں کس حد تک
میری مدد کر سکیں گے۔ میں نے پوری مدد کا وعدہ کیا اور اپنے نئے وائس
چانسلر صاحب کو بڑے اہتمام سے رخصت کرکے واپس آیا۔ اب میں انٹرویو اور
حکومتی فیصلے کا منتظر ہونے کے ساتھ ساتھ چوہدری صاحب کے لئے دعاگو بھی
ہوں۔اگر ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے تو ہمارے الو میں کیا برائی ہے۔ |