چھینک کے آداب
قرآن میں ارشاد باری تعالی ہے کہ
”ان اللہ علی کل شي قدیر“
”بیشک اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے“(1)
اللہ نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ہے اور ہمیں کاٸنات کی ہر چیز پر
غوروفکر کرنے کی دعوت دی ہے تاکہ ہم اللہ کی نعمتوں کو دیکھ کر شکریہ ادا
کریں اور ہمارا ایمان اور پختہ ہو جاۓکہ واقعی کوٸ ہے جو اس نظام ہستی کو
چلارہا ہے۔
چھینک ہمارے لیے اللہ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔جو ہمارے لیے
صحت و تندرستی کی علامت ہے۔اس لیے چھینک آنے پر الحمدللہ کے ذریعہ اللہ کا
شکر ادا کرنے کو مستقل عبادت قرار دیا گیا ہے۔حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
میں ہےکہ
” اذا عطس احدکم فلیقل الحمدللہ “(2)
سب سے پہلے اس جہاں فانی میں حضرت آدم علیہ سلام کو چھینک آٸ جب حضرت آدم
علیہ سلام کو چھینک آٸ تو اللہ نے آپ کی زبان سے الحمدللہ کو جاری فرماکر
ساری انسانیت کے لیے ایک ادب قرار دیا اور شریعت اسلامیہ نے بھی اس کو ادب
بلکہ مستقل سنت قرار دیا ہے۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے
”عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال:اذا عطس احدکم
فلیقل : الحمدللہ ولیقل لہ اخوہ اوصا حبہ یرحمک اللہ فإِذا قال لہ : یرحمک
اللہ فلیقل یھدیکم اللہ و یصلح با لکم“
”حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایاجب تم میں سے کوٸ چھنکے تو اسے چاہۓ کہ وہ کہے ”الحمد للہ“ اور اس کا
بھاٸ یا صاحب اس کو کہے (جواب دے)”یرحمک اللہ“ (اس کو یرحمک اللہ کہا جاۓ)
چاہیے کہ وہ کہے” یھدیکم اللہ ویصلح با لکم “ (3)
اس حدیث نبوی صلی االلہ علیہ وآلہ وسلم میں چھینکنے کے آداب بتاۓ گۓ ہیں جس
سے ہمیں ذندگی گزارنے کے اصول معلوم ہوتے ہیں کہ ہم لوگ ایک بہترین ذندگی
کس طرح گزار سکتے ہیں اگر ہم لوگ اپنی روز مرہ کی ذندگی کی چیزوں کو درست
انداز میں کریں جس کا ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیثوں سے پتا
چلتا ہے تو ہم ایک بہترین ذندگی گزار سکتے ہیں۔
چھنکتے وقت ہمیں اپنے منہ پر ہاتھ رکھنا چاہیے اور جس کو چھینک آۓ وہ
الحمدللہ کہے اور جو لوگ وہاں موجود ہوں وہ یرحمک اللہ کہیں اور پھر
چھینکنے والایھدیکم اللہ ویصلح بالکم کہے۔
ایک اور جگہ حدیث مبارکہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہے کہ
”عن ھلال بن یساف، قال:کنا مع سالم بن عبید،فعطس رجل من القوم،فقال: السلام
علیکم، فقال سالم:وعلیک وعلی امک،ثم قال بعد:لعلک و جدت مما قلت لک،
قال:لوددت انک لم تذکر امی بخیرولا بشر،قال:انما قلت لک کما قال رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم انا بینا نحن عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم”اذعطس
رجل من القوم،فقال:السلام علیکم،فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:وعلیک
وعلی امک،ثم قال:اذا عطس احدکم فلیحمد اللہ،قال:فذکر بعض المحامد،ولیقل لہ
من عندہ:یرحمک اللہ،ولیرد یعنی علیھم یغفراللہ لناولکم“
” ہلال بن یساف کہتے ہیں کہ ہم سالم بن عبید کے ساتھ تھے کہ ایک شخص کو
چھینک آٸ تو اس نے کہا ”السلام و علیکم ،(تم پر سلامتی ہو ) تو سالم نے کہا
:”علیک وعلی امک “(تم پر بھی اور تمھاری ماں پر بھی)پھر تھوڑی دیر بعد
بولے:شاید جو بات میں نے تم سے کہی تمھیں ناگوار لگی،اس نے کہا:میری خواہش
تھی کہ آپ میری ماں کا ذکر نہ کرتے ،نہ خیر کے ساتھ نہ شر کے ساتھ،وہ
بولے،میں نے تم سے اسی طرح کہا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
کہا،اسی دوران کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھےاچانک لوگوں
میں سے ایک شخص کو چھینک آٸ تو اس نے کہا” السلام وعلیکم “ رسول صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:”علیک وعلی امک“پھر آپ نے فرمایا :جب تم میں کسی کو
چھینک آۓ تو”الحمدللہ“کہے اللہ کی تعریف کرےپھر آپ نے حمد کےبعض کلمات کا
تذکرہ کیا اور جو اس کے پاس ہو اس کو کہنا چاہیے ”یرحمک اللہ“ اور یہ ان کو
جو جواب دے ”یغفراللہ لنا ولکم“(4)
ان حدیثوں سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ جب ہمیں چھنک آۓ تو ہمیں اپنے منہ
پر ہاتھ رکھ لینا چاہیے اور چھنکتے وقت اللہ کی حمد بیان کرنی چاہیے تاکہ
وہ جراثیم جو چھینکنے والے کے منہ سے نکلیں اس سے دوسرا فرد محفوظ رہ سکے
اسی طرح اگر کوٸ شخص مسلسل تین مرتبہ سے ذاٸد چھینکے تو پھر اس کا جواب
دینا سنت نہیں ہے بلکہ اسے زکام ہے اس کی عافیت کے لۓ دعا کی جاۓ۔ اور اگر
کوٸ فرد چھینکنے پر الحمد للہ نہ کہے تو اس کی چھینک پر خود جواب نہ دیا
جاۓ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس یہود آکر جان بوجھ کر چھینکتے تو
آپ ان کے جواب میں صرف کہتے ” یھدیکم اللہ ویصلح بالکم“ اور جو شخص چھینکنے
والے سے پہلے ہی کہے وہ دانت اور کان درد سے محفوظ رہے گا۔
ٕحدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ
” وعن ابی موسی قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول اذا عطس
احدکم فحمداللہ فشمتوہ وان لم بحمد اللہ فلا تشمتوہ“
”آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوٸ چھینکے اور الحمد
للہ کہےتو تم یرحمک اللہ کہو اور اگر وہ الحمد للہ نہ کہےتو اس کا جواب نہ
دو(5)
ایک اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ
” آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ
حق ہیں۔ جب تم اس سے ملو تو سلام کرو،جب تمھیں دعوت دے تو قبول کرو ،جب
نصیحت طلب کرےتو نصیحت کرو،جب چھینکے اور الحمدللہ کہے تو یرحمک اللہ
کہو،جب مرجاۓ تو جنازہ میں شریک کرو اور جب بیمار ہو جاۓ تو عیادت کرو“(6)
آج کے دور میں ساٸنس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ روز بہ روز نت نۓ تجربات کۓ
جارہے ہیں مگر جو بات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت بتاٸ اور
ہمیں سکھاٸ ان چیزوں کے فواٸد آج بتاۓ جارہے ہیں جیسےکہ(قدرت روزنامہ 5
دسمبر 2017) پرنس چالس کی تحقیق میں یہ با ت بتاٸ گٸ کہ جو جراثیم چھینک یا
کھانسی کی وجہ سے ہمارے منہ سے باہر نکلتے ہیں وہ اتنی تیزی سے باہر آتے
ہیں کہ جو بارہ فٹ دور تک جاسکتے ہیں اور وہ جراثیم 45 منٹ تک ہوا میں رہ
سکتے ہیں اس لۓ جب چھینک یا کھانسی آۓ تو منہ پر کوٸ کپڑا یا ہاتھ رکھ لینا
چاہیے تاکہ ان جراثیموں سے بچا جاسکے اور دوسرے لوگ ان جراثیموں سے محفوظ
رہ سکیں ۔ انسانی جسم اللہ تعالی کی امانت ہے اور امانت میں خیانت منافقوں
کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے اور ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ ہماری
وجہ سے کسی کو کوٸ تکلیف نہ ہو۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ تمام باتیں ہمیں کٸ سالوں پہلے ہی بتا
دی تھیں اب وہ باتیں تحقیق سے ثابت ہو چکی ہیں تو اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی باتوں کو ساٸنس نے بھی تسلیم کر لیا۔ ایک چھینک بہت طاقتور ہوتی ہے
اگر کوٸ کیڑا ناک کے ذریعہ بدن میں داخل ہو جاتا ہے تو جسم اس سے فوری نجات
حاصل کرنے کے لۓ چھینک کا سہارا لیتا ہے اور اندر کے نظام کو درست رکھنے کے
لۓ چھینک کے ذریعہ اس جراثیم کو باہر نکال دیتا ہے ۔اس لۓ ڈاکٹروں کا کہنا
ہے کہ اگر چھینک آۓ تو اسے نہں روکنا چاہیے اگر چھینک روکی گٸ تو اندر
خرابی پیدا ہو سکتی ہے اور اس سے انسان کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے اور
ڈاکٹروں کے مطا بق ایک چھینک ہوا میں ڈیڑھ سو میل فی گھنٹہ رفتار سے خارج
ہوتی ہے اگر اس کے دباو کو روکا گیا تو بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔
آج ہم اس صدی میں ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو بھول کر اسلام
سے دور ہو رہے ہیں اگر ہم اس طرح ذندگی گزاریں جس طرح ہمیں ذندگی گزارنے کا
سبق دیا گیا ہے ہمیں اٹھنے، بیٹھنے،سونے،جاگنے،کھانسنے اور چھینکنے وغیرہ
کے طریقے بتاۓ ہیں اگر ہم ان چیزوں کو اپناٸیں تو ہماری دنیا و آخرت سنور
سکتی ہے۔
حولہ جات
1. پارہ نمبر 1 آیت نمبر 20
2. رواہ البخاری عن ابی ھریرہ 224
3. صحیح بخاری 6224
4. سنن ابی داود 5031،سنن کبری نساٸ9982
5. صحیح مسلم ُ رواہ البخاری 919
6. صحیح مسلم
ثمیرہ صدیقی |