شرارتی پھپھو اور شیدا ٹلی

محترم قارئین ہر محلے میں ایک آدھ کردار ایسا پایا جاتا ہے، جسے ہر چھوٹا بڑا پھپھو، خالہ، چاچی یا ماسی کے نام سے جانتا ہے۔ میں اس کردار کے مزید تعارف کے لئے پھپھو کی اصطلاح استعمال کرنا چاہوں گا۔ اس کردار کی خاص بات اس کا محلے کے تمام گھروں کے حالات و واقعات سے باخبر ہونا ہے، آج کس گھر میں مہمان آنے والے ہیں ، کس گھر میں ساس بہو کے معاملات کشیدہ ہیں، کس گھر میں میاں بیوی میں ان بن چل رہی ہے ، کس کے بچے کا کس کی بچی سے چکر چل رہا ہے ، ان تمام معاملات پر معصوفہ کی کایاں نظریں ہر وقت رہتی ہیں اور معصوفہ ان تمام معلومات کی نشر و اشاعت اپنا فرض منصبی سمجھتے ہوئے بلا تعطل سرانجام دیتی ہیں۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ اگر محلے کا کوئی گھر ان کی شہرت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کو اپنے شادی بیاہ کے کسی پروگرام میں شریک نہ بھی کرے تو محترمہ اس پروگرام میں شمولیت اپنا فریضہ اول سمجھتے ہوئے ادا کرنے نکل کھڑی ہوتی ہیں پھر چاہے شادی کے پنڈال کے باہر سے ہی خواتین خانہ کو کوسنے دینا ہو یا کج کجاہی کا احساس دلوانا، "ارے نگوڑی اس میز پر بھی نظر رکھو بیچاری رخسانہ کھانا کھائے بغیر ہی جارہی ہے، وہ رخشندہ اسے بھی دیکھو کیسے میز کے نیچے کھانے کی پرات چھپا کر بیٹھی ہے وغیرہ وغیرہ"۔ مقصد صرف اپنی موجودگی کا احساس دلوانا ہوتا ہے اور کچھ نہیں۔

آج کل ماشاءاللہ میڈیا آزاد ہے اور عوام الناس تک حق اور سچ کی آواز پہنچانے میں ہر لحظہ مستعدو تیار کھڑا ہے، پھر چاہے یہ ملک عزیز کی سرحدوں پر شہید ہونے والے مجاہدین کی داستانیں ہوں ، چور بازاری اور ملاوٹ مافیا ہو، کسی اداکار کی شادی یا موت یا پھر ہمارے معزز سیاستدانوں کے معزز فراڈ میڈیا سب دکھانے کے لئیے ہر لمحہ کمر بستہ ہے۔ سر شام لوگ اپنا ٹی وی سیٹ آن کرکے کسی خوشگوار خبر کے انتظار میں ٹی وی سکرین پر نظریں جمائے بیٹھے ہوتے ہیں، لیکن دیر رات تک مختلف چینلز بدلنے کے باوجود ان کے ہاتھ سوائے سیاستدانوں کی شعبدہ بازیوں، لچھے دار باتوں، گالم گلوچ، الزام تراشیوں، بے تکا تبصروں، مایوسی اور ڈپریشن کے سوا کچھ نہیں آتا۔ اس بات سے مجھے اپنے بچپن کے وہ بابا جی یاد آگئے جو روزانہ اپنے سا ئیکل پر دوربین کا تماشہ دکھانے آتے تھے اور تمام بچے اس امید پر روز یہ تماشہ دیکھنے آتے تھے کہ آج کچھ نیا دیکھنے کو ملے گا مگر سوائے امید کچھ ہاتھ نہ آتا۔

۔ ۔ ۔ ۔ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آج کل کسی بھی سیاسی پروگرام کی کامیابی کا معیار اس میں شامل سیاستدانوں کی آپسی نوک جھونک، بے تکی تکرار اور پیشینگوئیوں سے لگایا جاتا ہے۔ اس مقصد کی تکمیل کسی بھی محلے کی پھپھو سے بہتر کون کر سکتا ہے، سیاسی پھپھو کی تلاش تو شروع بھی شیدے سے ہوتی ہے اور ختم بھی۔ شیدے کے بارے میں کچھ زیادہ تو نہیں معلوم لیکن بندہ ہے بڑا باکمال،با خبر دنیا بھر کی سیاسی معلومات شیدے سے بہتر کہیں میسر نہیں محلے کی پھپھو کی طرح ، کسی بھی طرح کے سیاسی غیر سیاسی مشورے مفت میسر ، شیدے کی کوئی بھی سیاسی پیشینگوئی ، محکمہ موسمیات کی پیشینگوئی کی مانند کم و بیش ہی غلط ثابت ہوتی ہے، اتنا جواں مرد اور زیرک لڑاکا جو دشمن کو انتظار کا کرارا وار کرواکر اکتاہٹ سے چور واپس لوٹ جانے پر مجبور کر دے، جھوٹ اتنی ڈھٹائی سے بولتا ہے کہ کبھی کبھار جھوٹ خود ششدر رہ جائے، غیرت مردمی کا منہ بولتا شاہکار، مشہور ی کا یہ عالم کہ پاکستانی صدر کی شہرت بھی ماند پڑجائے ، تحقیق و تجزئیے ایسے کہ بڑے سے بڑا مدبر و مفکر بھی ششدر رہ جائے، شیدا بڑی با قاعدگی سے روز اپنا چورن بیچنے قومی میڈیا پر جلوہ افروز ہوتا ہےاور ہماری قوم روز سر شام شیدے کے تبصرے سننے کے لئیے اپنے ٹی وی سیٹ کے آگے اپنا قیمتی وقت کسی انہونی خوشخبری کے انتظار میں ایسے برباد کرتی ہے بالکل اسی طرح جیسے بچپن میں اور میرے دوست۔ ۔

بقول غالب

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاکستان پائندہ باد! ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Qasim Raza Naqvi
About the Author: Qasim Raza Naqvi Read More Articles by Qasim Raza Naqvi: 42 Articles with 49056 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.