مملکت سعودی عرب جزیرہ نمائے عرب میں سب سے بڑا ملک ہے ۔
شمال مغرب میں اس کی سرحد اردن، شمال میں عراق اور شمال مشرق میں کویت، قطر
اور بحرین اور مشرق میں متحدہ عرب امارات، جنوب مشرق میں اومان، جنوب میں
یمن سے ملی ہوئی ہے۔یہ حرمین شریفین کی سرزمین کہلاتی ہے کیونکہ یہاں اسلام
کے دو مقدس ترین مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ موجود ہیں۔
سعودی عرب کی حکومت کا بنیادی ادارہ آل سعود کی بادشاہت ہے ۔ 1992ء میں
اختیار کئے گئے بنیادی قوانین کے مطابق سعودی عرب پر پہلے بادشاہ عبدالعزیز
ابن سعود کی اولاد حکمرانی کرے گی اور قرآن ملک کا آئین اورشریعت حکومت کی
بنیاد ہے ۔ ملک میں کوئی تسلیم شدہ سیاسی جماعت ہے نہ ہی انتخابات ہوتے ہیں
البتہ 2005ء میں مقامی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ بادشاہ کے اختیارات شرعی
قوانین اور سعودی روایات کے اندر محدود ہیں۔ علاوہ ازیں اسے سعودی شاہی
خاندان، علماء اور سعودی معاشرے کے دیگر اہم عناصر کا اتفاق بھی چاہیے ۔
سعودی عرب دنیا بھر میں مساجد اور قرآن اسکولوں کے قیام کے ذریعے اسلام کی
ترویج کرتی ہے ۔ شاہی خاندان کے اہم ارکان علماء کی منظوری سے شاہی خاندان
میں کسی ایک شخص کو بادشاہ منتخب کرتے ہیں۔موجودہ وقت کے سعودی فرمانروا
سلمان بن عبدالعزیز نے چند ماہ قبل اپنے ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت
میں انسدادِ بدعنوانی کے لیے مجلس قائم کی تھی ۔ ناقدین کا تاہم خیال ہے کہ
یہ حکومتی اقدام بدعنوانی کا قلع قمع کرنے کے لیے نہیں بلکہ سیاسی باگ ڈور
کو مکمل طور پر شہزادہ محمد بن سلمان کے وفاداروں کے حوالے کرنے کے لیے کیا
گیا ہے۔ سعودی ذرائع ابلاغ میں ان تمام شکوک و شبہات کی تردید کی گئی اور
کہا گیا کہ تحقیقات جاری ہیں جن کے نتیجے میں مزید گرفتاریاں اور نظربندیاں
بھی ہوسکتی ہیں۔ اسی تناظر میں آٹھ نومبر کو شاہی خاندان کے بعض دیگر افراد
اور انتظامیہ کے ارکان سمیت مزید رفتاریاں بھی عمل میں آئیں۔ سعودی عرب کی
موجودہ صورتحال ساری دنیا کی توجہ کا مرکز ہے۔ سعودی حکومت نے شاہی خاندان
کے ارکان سمیت تقریباً 50 اہم ترین افراد کو گرفتار کیا تھا۔ حال ہی میں
سعودی عرب گزشتہ برس اور رواں سال بڑے پیمانے پر سماجی تبدلیاں رو نماں
ہوئیں 2017میں سعودی عرب نے بنیادی سماجی اور معاشی تبدیلیوں کی بنیاد ڈال
دی ہے۔ رواں سال کے دوران خواتین کو گاڑیاں ڈرائیو کرنے کی اجازت دی گئی‘
خواتین کو موٹر سائیکل چلانے اور ملک میں سینما گھر تعمیر کرنے پر پابندی
بھی ختم کی۔ شاہ سلمان اور ان کے فرزند محمد بن سلمان نے سیاحوں کو سعودی
عرب کی سیرو سیاحت کے لئے ویزے جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ اخبار سعودی گزٹ
میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں سال 2017 کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے
کہ سعودی عرب اب نئی نسل کی خواہشات اور ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے
تبدیلیاں برپا کر رہا ہے کیونکہ نئی نسل حکومت کے پرانے انداز‘ فیصلوں میں
تاخیر اور بیوروکریسی کے رویہ سے نالاں ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2018
میں سعودی خواتین کو کھیلوں میں بھی حصہ لینے کی اجازت ہو گی۔ خواتین کے
کھیلوں کے مقابلے قومی سٹیڈیمز میں منعقد ہوں گے اس طرح کے مقابلوں میں
شرکت کی پہلے خواتین کو اجازت نہیں تھی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سعودی
عرب میں پہلا تھیٹر مارچ 2018 میں کھول دیا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق چند
سال پہلے سعودی عرب میں صورتحال یہ تھی کہ اگر کسی شاپنگ سنٹر میں کسی
خاتون کو چمکدار نیل پالش کے ساتھ دیکھ لیا جاتا تو مذہبی پولیس ایسی خاتون
کو گرفتار کر لیتی تھی۔ رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اگلے سال غیر ملکی سیاحوں
کے لئے ویزے جاری کرنا شروع کر دے گا۔ سیاحوں کے لئے خصوصی مراکز بنائے
جائیں گے۔
سعودی عرب میں اقتصادی اور ترقیاتی امور کی کونسل نے تزویراتی اہمیت کے
حامل 10 سرکاری پروگراموں کا آغاز کیا ہے۔ ان کا مقصد "سعودی ویژن 2030" کو
کامیاب بنانا ہے۔ سعودی کابینہ نے ویژن 2030 کی منظوری 25 اپریل 2016 کو
خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے زیر صدارت اجلاس میں دی
تھی۔ان تمام پروگراموں کا مقصد "سعودی ویژن 2030" کے منصوبے کی تکمیل کو
سپورٹ کرنا ہے تاکہ اسلامی اقدار اور قومی تشخص کو مضبوطی سے تھامے رہتے
ہوئے مملکت کی معیشت کو مزید خوش حال اور سعودی معاشرے کو زیادہ متحرک
بنایا جا سکے۔
اس ویژن میں عمومی مقاصد اور مخصوص اہداف شامل ہیں۔خواتین کو بااختیار
بنانے سے متعلق بیان واضح نہیں ہے اور صرف یہ کہا گیا ہے کہ ''ویژن سے وہ
اپنے مستبقل کو مضبوط بنانے کے قابل ہوسکیں گی اور ہمارے معاشرے اور معیشت
کی ترقی میں کردار ادا کریں گی''۔ دوسرے شعبوں کے لیے ویژن 2030ء کے اہداف
بالکل واضح اور مخصوص ہیں۔مثال کے طور پر تفریحی سرگرمیوں کے حوالے سے کہا
گیا ہے کہ ورزش ،کسرت کرنے والے افراد کی شرح کو بڑھایا جائے گا اور ایک
ہفتے میں ورزش کرنے والوں کی شرح 13 فی صد سے بڑھا کر 40 کردی جائے گی۔
مختلف اہداف وضع کرنے کے علاوہ ویژن 2030ء میں ایک نئی حکمت عملی اختیار کی
گئی ہے اور وہ یہ کہ اس پر انفرادی وزراء کے بجائے سیڈا عمل درآمد کرائے
گی۔اس کا اعلان ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب آبادی کی اکثریت تبدیلی کے عمل
کی حامی ہے جبکہ ملک کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔تاہم قدامت پرست حلقوں کی
جانب سے اس کی مزاحمت ہوگی۔
|