تحریر: اسامہ سعید (راولپنڈی)
’’تم ہمارے ملک سے دفع کیوں نہیں ہو جاتے‘‘ گوپال کے دل میں چھپی نفرت اس
کے چہرے سے ظاہر ہونے کے بعد اس کی زباں سے لپٹ گئی۔ یونس کا دل چاہا کہ
اسے جان سے ہی مار دے لیکن اس نے یہ بولنے پر ہی اکتفا کیا کہ ’’ اپنا منہ
بند کرو یہ میرا بھی ملک ہے تمہارے باپ کا نہیں ہے صرف‘‘ دونوں ایک دوسرے
کی طرف لپکے لیکن اس وقت لوگوں کو تماشا دیکھنے کی فرصت نہیں تھی بلکہ اکثر
یوں ہوتا کہ دو لوگ اکھٹے زمین پر کوئی چیز کھوج رہے ہون تو پورا محلہ
اکھٹا ہو جاتا ہے۔
یونس کلکتہ کا شہری تھا۔ کلکتہ کو عام طور پر ’’محلوں‘‘ کا شہر بھی کہا
جاتا ہے۔ مسلمان ہونے کی وجہ سے آئے روز اسے ایسی باتیں پڑتی۔ روز کہی نہ
کہیں فساد ہوتا۔ ہمیشہ کوئی مسلمان ہی مظلوم بنتا۔ اس ملک میں پیدا ہونے کے
باوجود کوئی بھی اسے اس ملک کو اپنا سمجھنے نہیں دیتا وہ باہر نکلتا تو
ایسا لگتا کہ جانتے ہوئے بھی لوگ اسے اجنبی سمجھ رہے ہیں۔ ہر طرف سے سوالات
آرہے ہوتے ہیں۔ تم کون ہو۔ کہاں سے آئے ہو۔ یہاں کیوں آئے ہو۔ کب جاؤگے۔
کیا کر رہے ہو۔
وہ اکثر اپنے والدین سے شکایت کرتا لیکن والدین کیا کر سکتے تھے۔ وہیں
تسلیاں اور وہی سب ٹھیک ہو جانے کی باتیں۔ آخر ماں پاب کیا کہتے۔ انہوں نے
بھی تو اسی ماحول میں زندگی گزاری تھی اور ان کے اباؤاجداد بھی تو یہیں دفن
تھے کون ان کی قبریں چھوڑ کر یہاں سے جاتا۔
گوپال سے جھگڑا ہونے کے بعد وہ سمجھا کہ یہ عام سا جھگڑا تھا کہ ایسے جھگڑے
تو روز ہوتے ہیں مگر نہیں گوپال کے دل میں میل اکھٹا ہو گیا تھا۔ انجان تھا
کہ تاریخ میں رقم ہونے والا فساد ہونے لگا ہے۔ ہوا یوں کہ یونس کے گھر
مہمان آئے اور وہ ان کے لئے گوشت لینے گیا۔ گوشت بکرے کا تھا گوپال نے جب
دیکھا تو اسے موقع مل گیا۔ اس نے چیخ کر کہا ’’گاؤ ماتا کا گوشت‘‘ پھر کیا
لوگوں نے آؤ دیکھا نہ تاو یونس پر پل پڑے ادھر سے مسلمان بھی آگئے۔ ایک
وسیع پیمانے پر فساد شروع ہو گیا اب جھگڑا صرف ہونس اور گوپال کا نہیں بلکہ
دو قوموں کا فساد تھا اور جب فساد شروع ہوتا ہے تو انسان ختم۔
میں بات کر رہا ہوں 1964 کلکتہ کی۔ جس میں 107 مسلمانوں کو شہید کر دیا
گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ476 لوگ زخمی ہوئے 7000 لوگوں کو گرفتار کیا
گیا۔7000 مسلمان اپنے گھروں سے الگ ہوئے جن میں سے 5500 کو بھارتی فوج نے
تحفظ دیا اور باقی 15 ہزار۔ ان کا کیا ہوا وہ کوئی نہیں جانتا۔ وہ مرے زخمی
ہوئے، گھروں کو واپس گئے یا پھر اغوا ہوگئے کوئی نہیں جانتا۔ کیا وہ لوگ
غیر محفوظ تھے۔ کیا وہ انسان نہیں تھے۔ کیا ہے آپ کے پاس اس کا جواب۔ ہاں
میرے پاس ہے۔ ان لوگوں کو نہ ہی انسان سمجھا جاتا نہ ہی انہیں جینے کا حق
ہے۔
بھارت میں 36 کروڑ مسلمانوں کو انسان سمجھا ہی نہیں جاتا۔ وہ ہر روز جیتے
ہیں اور ہر روز مرتے ہے۔ یہ صرف1946ء میں نہیں بلکہ 1875ء سے لیکر آج تک
ہوتا رہا ہے اور جب تک بھارت ہے یہ ہوتا رہے گا۔ 1938ء میں بسام کے گاؤں
میں تیواری قبیلے کے لوگوں نے 1800مسلمانوں کو قتل کر دیا اس کا حساب کون
دے گا۔ 1978ء کو اتر پردیس کے شہر میرت کے محلہ ہاسمپورہ میں 24مسلمان
نوجوانوں کو بغیر کسی وجہ کے گولی مار دی گئی۔ 1992ء میں ممبئی میں
مسلمانوں پر قیامت ڈھائی گئی بلکہ صرف یہی نہیں 2002ء میں دنیا کا بدترین
قتل عام گجرات میں ہوا۔ |