گھر لٹا نا جان دینا کوئی تجھ سے سیکھ جائے
جان عالم ہو فدا اے خاندان اہل بیت
واقعہ کربلا اکسٹھ ہجری میں پیش آیا ہے مگر اس واقعے کی گونچ آج تک سنائی
دیتی ہے اور رہتی دنیا تک اس کو مختلف حوالوں سے یاد رکھا جائے گا۔اس واقعے
کی وجہ سے اسلام کا پیغام بہت تیزی سے پوری دنیا میں پھیلا ہے جس نے کئی
دلوں کو موم کر دیا اور وہ مشرف بہ اسلام ہو گئے۔مختلف کتابوں میں اس کے
حوالے سے مختلف حقائق ملتے ہیں مگر ہم یہاں اہمیت اُجاگر کرنے اور پس منظر
سے آگاہی دیں گے تاکہ آج کی نوجوان نسل کو اس کی اہمیت کا اندازہ ہو
سکے۔کیونکہ یہ واقعہ بکھری ہوئی مسلمان قوم کو متحد کر سکتا ہے اور اس سے
یہ بھی سبق ملتا ہے کہ جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا بھی جہاد
ہے۔اگرچہ آج محض ایک ہی جہاد کی قسم کی طرف ہماری نظر ہے مگر زبانی طور پر
بھی اور قلمی طور پر بھی جہاد کیا جاسکتا ہے اورروحانی و اخلاقی اعتبار سے
انسان کو بدلنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
آج ہمارے جسم کے کسی حصہ میں معمولی سا درد ہو تو ہم تڑپ جاتے ہیں مگر کما
ل حوصلہ دیکھئے حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ نے سب کچھ محض اﷲ تعالیٰ کی
خوشنودی کی خاطر برداشت کرلیا تھا اور ایسی قربانی دے دی جس کی کوئی اور
مثال تا قیامت نہیں مل سکے گی۔یہ واحد جنگ تھی جس میں لڑنے والے زیادہ تر
ایک ہی خاندان کے تھے اورکربلا کے میدان میں لازوال قربانی دے کر اسلام کو
زندہ و جاوید کر دیا ۔
قتل حسین ؓ اصل میں مرگ یزہد ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
کربلا کے واقعے کے بارے میں روایات تو یہ کہتی ہیں کہ یہ تو حضرت امام حسین
کی ولادت کے وقت ہی حضور ﷺ کو آگاہ کر دیا گیا تھا ۔ابن سعد و طبرانی نے
حضرت اُم المومین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہ سے روایت کی حضور انور ﷺ نے
فرمایا: مجھے جبریل علیہ السلام نے خبر دی کہ میرے بعد میرا فرزند حسین رضی
اﷲ عنہ زمین طف میں قتل کر دیا جائے گا اور جبر یل علیہ السلام میرے پاس یہ
مٹی لائے،انہوں نے یہ حسین رضی اﷲ عنہ کی خوابگاہ (مقتل) کی خاک ہے۔طف قریب
کوفہ اس مقام کا نام ہے جو کو کربلا کہتے ہیں۔
(بحوالہ: سوانح کربلا: حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی)
حضرت محمد ﷺ کے وصال کے بعد پہلے خلیفہ جو مقر ر ہوئے وہ حضر ت ابوبکر صدیق
ؓ تھے ۔حضر ت ابوبکر صدیق ؓ ،حضرت عمر الفاروق ؓ اور حضرت عثمان غنی ؓ کے
بعد حضرت علی ؓ خلیفہ مقرر کیا گیا تھا۔اگرچہ اس دوران بھی خلافت کے حوالے
سے اختلافات نے جنم لیا تھا مگر باہمی اتفاق رائے سے ایک دوسرے کا احترام
کرتے ہوئے خلافت کو تسلیم کر لیا جاتا رہا تھا۔مگر بعد میں اس اختلاف نے
سنگین حالات پیدا کر دیئے تھے جس کی وجہ سے کربلا کا واقعہ ہوا۔مگر اس میں
چند دیگر اہم وجوہات بھی شامل ہیں۔مگر واقعہ کرب و بلا کے اثرات ایسے ہیں
جو کہ رہتی دنیا تک قائم و دائم رہیں گے اور اس بات کو ہر زمانے میں اُجاگر
کرتے رہیں گے کہ شرو باطل وبدی کی طاقتیں کبھی بھی خیر وحق سے جیت نہیں
سکتی ہیں۔مگر واقعہ کرب و بلا دوسری طرف یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ مقصد حیات
جب اعلیٰ ہو تو کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے۔حضرت امام
حسین علیہ السلام نے جو کہ جنت کے سرداروں میں بھی شامل ہیں انہوں نے اپنے
نانا حضرت محمد ﷺ کے دین کی سلامتی کی خاطر اپنے خاندان کے افراد جن میں کم
سن بچے بھی شامل تھے ایسی قربانی دی کہ آج بھی جب واقعہ کرب و بلا کا بیان
ہوتاہے تو سننے والے سینہ کوبی کرتے ہیں اور اشک بار ہو جاتے ہیں کہ کون
کون سا ایسا ظلم تھا جو خاندان نبوت ﷺ سے تعلق رکھنے والی عظیم ہستی اور
اسکے جگر گوشوں نے نہیں دی ہے۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ پر عبدالرحمن بن ملجم خارجی نے کوفہ کی جامع مسجد میں
نماز فجر کے وقت حملہ کیا تو آپ رضی اﷲ عنہ شدید زخمی ہوگئے۔ تو حضرت علی ؓ
سے کوفیوں نے دریافت کیا کہ آپ ؓکے بعد حضرت امام حسن ؓ کے ہاتھ پر بیعت کی
جائے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا ــ’’ تم جس کو پسند کرتے ہو،اس کے ہاتھ پر بیعت
کر لو‘‘۔چنانچہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی خلافت کے بعد کوفیوں نے حضرت امام
حسن رضی اﷲ عنہ کو اپنا خلیفہ منتخب کرلیا۔
(تاریخ اسلام :ص 455 ج:1،اسدالغابہ ص :14 ج:2،تاریخ الخلفا ء ص:146)
یہاں یہ بات مدنظر رکھی جائے کہ خلافت پر فائز ہستی نے اپنی اولاد کو
اقتدار کی مسند پر بیٹھانے کی بجائے یہ اختیار دوسروں کو تفویض کر دیا کہ
جو بھی اس اہل ہوکہ وہ حکومت میں آ سکے تو وہ آ جائے۔یہ بات آج کل کے
حکمرانوں کے لئے ایک ایسی مثال ہے جو کو اگر اپنا لیا جائے تو بے شمار
مسائل سے بچاؤ ممکن ہے۔مگر مولاء کائنات حضرت علی ؓ نے نہ صرف اقتدار کے
حوالے سے بلکہ انہوں نے اپنی شہادت سے قبل بھی اپنے قاتل کے حوالے سے
ہدایات جاری کر دی تھی جس پر بعدازں من و عن عمل کیاگیا تھاجس کی وجہ سے جب
حضرت امام حسن ؓ خلافت میں آتے ہیں تو قدرے کم ان کو فتنوں سے نبرد آزما
ہونا پڑتا ہے۔
حضرت امام حسن رضی اﷲ عنہ پر خلافت راشدہ کا تیس سالہ دور ختم ہو جاتا ہے
جوکہ حضرت ابو بکررضی اﷲ عنہ سے آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد شروع ہوتا ہے۔حضرت
امام حسن رضی اﷲ عنہ 40ہجری میں کافیوں سے تنگ آکر حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ
سے صلح کرلتے ہیں، جس کی بنا ء پر اس سال کو امت مسلمہ کے لئے صلح کا سال
قرار دیا جاتا ہے۔اس سے آنحضرت ﷺ کا فرمان بھی پورا ہوتا ہیـ’’کہ میرا بیٹا
(حسن رضی اﷲ عنہ) دو مسلمانوں جماعتوں میں صلح کرائے گا‘‘۔ چنانچہ امیر
معاویہ رضی اﷲ عنہ نے صلح کے لئے ایک سادہ کاغذ پر اپنی مہر اور دستخط کر
کے حضرت امام حسن رضی اﷲ عنہ کے پاس بھیج دیا۔آپؓ نے تمام شرائط کو منظور
کرلیا۔اس کے ساتھ حضرت امام حسن رضی اﷲ عنہ اور آپ کے تمام ساتھوں نے حضرت
امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔جس سے پورے ملک میں امن و
امان قائم ہو گیا۔حضر ت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے 40ہجری سے لے کر 60ہجری
تک تقریباََ بیس سال حکومت کی۔
(تاریخ اسلام :ص 458 ج:1،تاریخ الخلفا ء ص:150)
حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے کوفہ کے گورنر حضرت مغیرہ بن شعیہ رضی اﷲ
عنہ کے مشورہ پر اپنے بیٹے یزید کو اپنی زندگی میں خلیفہ نامز د کیا اور اس
کے لئے بیعت خلافت لی۔حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی وفات کے بعد 60ہجری
میں یز ید کے ہاتھ پر شامیوں نے اہل مدینہ اور دوسرے صوبہ جات نے یزید کی
بیعت خلافت کی۔یزید کے دور خلافت میں عظیم سانحہ کربلا حضرت امام حسین رضی
اﷲ عنہ کی شہادت کا رونما ہوا۔
(تاریخ الخلفا ء ص158،تاریخ اسلام ص27 ج:2)
سید الشہدا ء حضرت سیدنا امام حسین ؓ کی ولادت مبارک 5شعبان المعظم 4ہجری
کو مدینہ طیبہ میں ہوئی۔ بنی کریم ﷺ نے آپ کے کان میں اذان دی منہ میں لعاب
دہن ڈالا اور آپ کے لیے دعا فرمائی۔ پھر ساتویں دن آپ کا نام’’ حسین ‘‘
رکھا اور عقیقہ کیا ۔ حضرت سیدنا امام حسین ؓ کی کنیت ابو عبداﷲ اور لقب’’
سبط رسول‘‘و ’’ ریحان رسول ‘‘ ہے۔ حدیث میں ہے رسول کائنات نے فرمایا کہ
حضرت ہارون ؓ نے اپنے بیٹوں کانام شیر و شبیر رکھا اور میں نے اپنے بیٹوں
کانام انہیں کے نام پر حسن و حسین رکھا۔حضرت علیؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں
جب (سیّدنا ) حسن پیدا ہوئے تو آپ تشریف لائے اور فرمایا میرا بیٹا مجھے
دکھاؤ ، آپ نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟حضرت علی فرماتے ہیں میں نے عرض کیا
ـ’’ حرب ‘‘ نام رکھا ہے ۔ آپ نے فرمایا ’’حرب ‘‘نہیں بلکہ ا س کانام
’’حسن‘‘ہے پھر جب سیدنا امام حسین پیدا ہوئے تو آپ نے فرمایا مجھے میرا
بیٹا دکھاؤ آپ نے اسکا کیا نام رکھا ہے میں نے عرض کیا ’’حرب‘‘نام رکھا ہے
آپ نے فرمایا نہیں اس کانام ’’حسین‘‘ رکھو۔ جب تیسرے شہزادے پیدا تو آپ نے
فرمایا مجھے میرا بیٹا دکھاؤ آپ نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا
’’حرب ‘‘ نام رکھا ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’حرب‘‘ نہیں بلکہ اس کا نام
’’محسن‘‘ ہے۔ پھر آپ نے فرمایا میں نے ان کے نام (حضرت) ہارون کے بیٹوں کے
نام پر رکھے ہیں ۔ ان کے نام شبر، شبیراور مبشر تھے اسی لیے حسنین و کریمین
کو شیر و شبیر سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ سریانی زبان میں شبر و شبیراور عربی
زبان میں حسن و حسین دونوں کے معنی ایک ہی ہیں ۔ حدیث میں ہے کہ’’ حسن اور
حسین پنجتنی ناموں میں سے دونام ہیں ‘‘ عرب کے زمانہ جاہلیت میں یہ دونوں
نام نہیں تھے۔حضور نبی کریم ﷺ نے واشگاف الفاظ میں خبر غیب سے امت کو حضرات
حسنین کریمینؓکی جنت کے جوانوں کی سرداری کی نوید سے نوازا۔حضرت عبداﷲ بن
عمرؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایا بے شک (حضرت ) حسن اور
(حضرت )حسین دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیں ۔ (بخاری ، فتح الباری، عمدۃ
القاری، مشکوۃ، مسند احمد)
حضرت انس ؓ روایت ہے فرماتے ہیں رسول کریمﷺسے عرض کیا گیاکہ اہل بیت میں سے
آپ کو سب سے زیادہ پیارا کون ہے؟ توحضور ﷺنے فرمایا حسن ؓو حسینؓ َ۔ رسول
کریم ﷺ خاتون جنت بی بی فاطمتہ الزہرا ؓ سے فرماتے تے میرے پاس بچوں کو لاؤ
پھر انہیں پھر انہیں سونگھتے تھے اور ساتھ لپٹاتے تھے۔ ( مشکوۃ ، ترمذی،
منشور، فتح الباری)
اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ سے روایت ہے فرماتی ہیں نبی کریم ﷺنے
فرمایا’’مجھے (حضرت) جبرائیل نے خبر دی ہے کہ میر ا بیٹا حسین میرے بعد ارض
طف میں شہید کیا جائے ( حضرت ) جبرائیل نے مجھے اس مقام کی یہ مٹی لاکر دی
ہیاور بتا یا ہے کہ یہ زمین (امام حسین کی) شہادت گاہ بنے گی۔ (طبرانی ،
کنزالعمال) ۔ احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ حضور شہادت کی جگہ کربلا کے چپہ
چپہ کو پہچانتے تھے اور انہیں خوب معلوم تھا کہ شہدا ء کربلا کے اونٹ کہاں
باندھے جائیں گے ان کا سامان کہاں رکھا جائے گااور ان کے خون کہاں بہائے
جائیں گے نبی کریم ﷺ اگر چاہتے تو دعا فرما کر تقدیرمیں تبدیلی کروا سکتے
تھے مگر آپ رضائے حق پر راضی تھے۔ کیونکہ کربلا میں یزیدی فوجوں کے مقابلے
میں امام حسین ؓ کا ڈٹ جانا سچائی ، تقوے اور حقانیت کی دلیل ہے اور یہ
فرمان خدا وندی ہے کہ ــ’’اور نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی مدد
کرو۔ ( المائدۃ )
شہادت حضرت سیدنا امام حسین:حضرت امام حسین ؓ کی شہادت کا ذکر بذریعہ وحی
حضرت جبرائیل اور دیگر فرشتوں کے ذریعے نازل ہوا۔ اس کا وقت اور زمانہ بھی
بتا دیا گیا۔ 60ھ کے آخر اور 61ھ کے شروع میں واقعہ کربلا پیش آیاجب سید نا
امام حسین کو اس مقام پر شہید کیا گیا۔ حضرت امام حسین ؓ کے ساتھ 16اہل بیت
شہید ہوئے جبکہ قل 72افراد شہید ہوئے۔ آپ کی شہادت کے واقعہ کے بعد سات دن
تک اندھیرا چھایا رھا۔ دیواروں پر دھوپ کا رنگ ذرد پڑگیاتھا اور بہت سے
ستارے بھی ٹوٹے۔ آپ کی شہادت 10محرم 61ہجری کو واقع ہوئی۔ آپ کی شہادت کے
دن سورج گہن میں آگیاتھا۔ مسلسل چھ ماہ تک آسمان کے کنارے سرخ رھے، بعد میں
رفتہ رفتہ وہ سرخی جاتی رہی۔ البتہ افق کی سرخی آج تک موجود ہے یہ سرخی
شہادت حسین ؓ سے پہلے موجود نہیں تھی۔
عبدالملک بن عمر اللیلی سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے کوفہ کے دارالامارات
میں دیکھا کہ امام حسین ؓ کا سر عبیداﷲ بن زیاد کے سامنے ایک ڈھال میں رکھا
ہوا تھا۔ پھر اسی قصرامارت میں کچھ دنوں کے بعد عبید اﷲ بن زیاد کا سر
مختار بن عبید کے سامنے رکھا ہوا دیکھا پھر کچھ عرصہ بعد مختار بن عبید کا
سر مصعب بن زبیر کے اسی قصر میں رکھا ہوا دیکھا اور کچھ مدت کے بعد مصعب بن
زبیر کا کٹا ہوا سر عبد الملک کے سامنے رکھا ہوا پایا۔ جب میں نے یہ قصہ
عبد الملک کو سنایا تو انہوں نے اس دارالامارت کو نخس سمجھ کر چھوڑ
دیا۔حضرت امام حسین کی شہادت پر جنات بھی روئے جب حضرت سیدنا امام حسین ؓ
اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ شہید ہو چکے تو ابن زیاد نے ان تمام شہدا کے سرو
ں کو یزید کے پاس دارالسلطنت میں بھیج دیا یزید ان سرہائے بریدہ کو دیکھ کر
بہت خوش ہوا۔
یزید بن معاویہ ابو خالد اموی وہ بدنصیب شخص ہے جس کی پیشانی پر اہل بیت
کرام علیہم الرضوان کے بے گناہ قتل کا سیاہ داغ ہے اور جس پر ہر قران میں
دنیا اسلام ملامت کرتی رہی ہے اور قیامت تک اس کا نام تحقیر کے ساتھ لیا
جائے گا۔
(بحوالہ: سوانح کربلا: حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی)
جس طرح سے کرب و بلا کے میدان میں پانی بند کیا گیا۔معصوم شیر خوار بچوں
اور امام حسین ؓ کے خاندان کے افراد کی شہادت رونما ہوئی ۔وہ ایک ایسا دن
تھا جس پر نہ صرف زمین بلکہ فلک بھی رویا تھا کہ نواسہ رسول ﷺ پر جتنی بھی
آزمائش آئی ،انہوں نے وہ سب محض اپنے نانا کی دین کی بقا کی خاطر دی اور
ایسی دی کہ آج یزید نام مٹ گیا ہے اوردین اسلام زندہ و جاوید ہو گیاہے ۔
ظلم کی طرح مٹ گیا نام یزید حق کی پہچان بن گیا نام حسینؓ
(ذوالفقارؔبخاری)
اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد ہی یزید پلید کو اﷲ تعالیٰ نے ہلاک فرمایا اوروہ
بد نصیب تین برس سات مہینے تخت حکومت میں شیطنت کرکے 64ہجری جس روز اس پلید
کے حکم سے کعبہ معظمہ کی بے حرمتی ہوئی تھی،شہر حمص ملک شام میں انتالیس
برس کی عمر میں ہلاک ہوا۔ہنوز قتال جاری تھا کہ یید ناپاک کی ہلاکت کی خبر
پہنچی،حضرت ابن زبیر ؓ نے ندا فرمائی کہ اہل شام! تمہارا ظاغوت ہلاک ہو
گیا۔یہ سن کر وہ لوگ ذلیل و خوار ہوئے اور لوگ ان پر ٹوٹ پڑے اور وہ گروہ
ناھق پثردہ خائب و خاسرا ہوا۔اہل مکہ کو ان کے شر سے نجات ملی۔اہل حجاز،
یمن و عراق و خراسان نے حضرت عبداﷲ ؓ کے دست مبارک پر بیعت کی اور اہل مصر
و شام نے معاویہ بن یزید کے ہاتھ پر ربیع الاول 64ہجری میں۔یہ معاویہ اگرچہ
یزید پلید کی اولاد سے تھا مگر آدمی نیک تھا اور صالح تھا، باپ کے ناپاک
افعال کو برا جانتا تھا، عنان حکومت ہاتھ میں لیتے وقت سے تا دم مرگ بیمار
رہا اور کسی کام کی طرف نظر نہ ڈالی اور چالیس دن یا دو تین ماہ کی حکومت
کے بعد اکیس سال کی عمر میں مر گیا۔آخر وقت میں اس سے کہا گیا کہ کسی کو
خلیفہ کرے ،اس کا جواب اس نے یہ دیا کہ میں نے خلافت میں کوئی حلاوت نہیں
پائی تو میں اس تلخی میں کسی دوسرے کو کیوں مبتلا کروں۔
(تاریخ الطبری،سنۃ اربع و سین،ذکر وفاۃ یزید بن معاویۃ،خلافۃ معاویۃ بن
یزید ج4ص90-87وتاریخ الخلفا ء،یزید بن معاویۃ ابو خالد
الاموی،ص167168ملتفطاََ) |