کشمیریوں کے لئے وقت نکالیں

عاصمہ پانچ سال کی ہے اور اس کے والد پیشے کے لحاظ سے ایک ہارٹ سپیشلسٹ ڈاکٹرہیں، مریضوں کو ان سے ملنے کے لیے کئی ماہ قبل اپوائنٹ منٹ لینا پڑتی تھی وہ بھی بھاری فیس ادا کرنے کے بعد ،عاصمہ سکول جاتی تو وہ دیکھتی کہ اس کی سہیلیوں کے باپ ان کو سکول چھوڑنے اور لینے کے لیے آتے ہیں اور یہ کہ اس کی سہیلیاں بھی اپنے والد کے ساتھ گزرے وقت کا تذکرہ کرتیں کہ کس طرح ان کے والد ان کے لاڈاور نخرہ اٹھاتے ہیں اس ساری صورتحال سے عاصمہ کو اپنے باپ کے پیار کی شدید کمی محسوس ہونے لگی وہ جب صبح سکول جاتی تب اس کا والدسویا ہوتا اور رات کو اس کے والد کے آنے سے پہلے وہ خود سو چکی ہوتی حتیٰ کہ چھٹی والے دن بھی باپ بیٹی کی ملاقات نہ ہو پاتی ایک دن عاصمہ نے اپنی ماں سے کہا کہ میرے والد کیا کام کرتے ہیں؟اس کی ماں نے بتایا کہ وہ ایک ڈاکٹر ہیں ہسپتال میں اور اس کے ساتھ ساتھ کلینک میں بھی مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔اس پر عاصمہ نے سوال کیا کہ وہ کیوں یہ سب کچھ کرتے ہیں ؟جس پر ما ں نے جواب دیا کہ وہ مریضوں کا علاج کر کے پیسے کماتے ہیں تاکہ ہماری ضرورتیں پوری ہو سکیں، ماں نے عاصمہ سے کہا کہ تم کیوں یہ سب باتیں پوچھ ر ہی ہو؟ عاصمہ نے جواب دیا کہ ویسے ہی، اگلے دن عاصمہ نے اپنے منی بکس سے سارے پیسے نکالے اور ماں سے کہا کہ مجھے والد کے کلینک پہ لے جائیں ماں نے بہت سمجھایامگر عاصمہ کی ضد کے آگے ہار گئی اور عاصمہ کو کلینک لے گئی جیسے ہی عاصمہ نے والدکو دیکھا تو دونوں ہاتھوں میں چھپے پیسے ان کے سامنے رکھ دیا اور کہا کہ آپ پیسے لے کر مریضوں کو وقت دیتے ہیں یہ پیسے لے لیں اور مجھے تھوڑا وقت دے دیں۔یہ ایک تلخ حقیت ہے جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا جن کے مستقبل کے لیے یا جن کی بہتری کے لیے ہم شب و روز ایک کر دیتے ہیں اگر وہی ناخوش، تکلیف ،دکھ،پریشانی اور ذہنی اذیت میں مبتلا ہو تو پھر ہماری ساری بھاگ دوڑ بے کار ہے ہماری ساری محنت پر پانی پھر جاتا ہے اور تب سوائے رونے اور پچھتاوے کے کچھ باقی نہیں رہتااور ایسے ہی کئی دہائیاں گزر جاتی ہیں جیساکہ انگریزوں کی ناچاکی اور نالائقی کی بدولت غیر منصفانہ تقسیم اور ادھورے فیصلوں سے کشمیرآج تک لہو لہو ہے بر صغیر پاک و ہندکی تقسیم ہونے کے بعد سے لیکر آج تک کشمیر جو دکھ،تکلیف اورذہنی اذیت سے گزر رہاہے وہ شاید الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں کشمیری لوگ ہر روز جیتے اور مرتے ہیں ہر روز ان کے لیے ایک نیا امتحان ہوتا ہے اور وہ یہ سوچ کے سب کچھ برداشت کرتے جا رہے ہیں کہ شاید یہ آخری امتحان ہو ہزاروں بیواؤں کے سہاگ اجڑ گئے ہیں،ہزاروں ماوئں کی کوک اجڑ گئی ہے ، بہنوں کے ہزاروں بھائی اور بیٹوں کے باپ اپنی جان قربان کر چکے ہیں ہزاروں عورتیں اپنی عصمت گنواہ چکی ہیں مگر یہ ایسی خون کی ہولی ہے جو ختم ہی نہیں ہو رہی ہے نہ ظلم کرنے والے تھک رہے ہیں نہ مظلوم ہمت ہاررہے ہیں اور بھارتی جارحیت کی وجہ سے جنت نظیر وادیاں کھنڈرات بنتی جا رہی ہیں ، بھارت چونکہ بیمار ذہنیت کا مالک ہے اس نے آج تک پاکستان اور کشمیر کے وجود کو تسلیم نہیں کیا جبکہ تصویر کا دوسرا رخ اس طرح سے ہے کہ ہماری گورنمنٹ انڈیاکے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے آئے روز انڈیا کی فوج پاکستان کے بارڈر پر نہتے شہریوں کو شہید کررہی ہے اور ہماری حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے یہاں واضح کرتا جاؤ ں کہ پاکستان کی فوج دنیا کی بہترین فوج ہے اس کے باوجود حکومت انڈیا کی کاروائیوں کا جواب نہیں دیتی جوکہ اک سوالیہ نشان ہے حکومت پاکستان اور دیگر سیاسی جماعتیں صرف مزامتی بیان اور قراداد کی حد تک محددو ہیں مگر عملی طور پر کوئی کردار نہیں 1948ء سے لیکر آج تک اقوام متحدہ نے پاکستان کو کوئی انصاف نہیں دیا اسی طرح عالمی انسانی حقوق کے اداروں کو کشمیر پر کوئی ظلم اور غیر انسانی رویہ نظر نہیں آتا یہاں تک کہ کشمیروں پر کیمیائی بارود اور پیلٹ گن کا استعمال کیاجارہاہے۔جبکہ دوسری جانب حکومت پاکستان کلبو ش یادو کی اُس کی فیملی کے ساتھ ملاقات کروانا اپنا فرض سمجھتی ہے جبکہ میر واعظ عمر فاروق ،یٰسین ملک اور دیگر کشمیریوں کی نظر بندی و قیدکے خلاف اپنا کردار ادا کرنا فرض نہیں سمجھتی۔اس کی اک بڑی وجہ یہ ہے کہ آج تک جتنی بھی حکومتیں پاکستان میں آئی ہیں ان کو کبھی فرصت ہی نہیں ملی اپنی ذات سے ،اپنی مصروفیت سے، اپنے نفع سے اور اپنے خود کے تحفظ سے ۔ حالانکہ پاکستان اور کشمیر ایک ہی ہیں لیکن یہی رویہ اگر برقرار رہا تو وہ دن زیادہ دور نہیں جب عاصمہ کی طرح کشمیری عوام جو کہ پاکستان کو اپنا سب کچھ مانتے ہیں یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ پاکستان کو ہماری محبت کی تڑپ محسوس نہیں ہوتی یا پھر وہ اپنا باقی لہو پیش کرکے یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ اے وقت کے حکمرانوں ہماری ماؤں بہنوں کے زیورات لے لو ، ہماری زندگی بھرکی تمام جمع پومجی لے لو مگر خدا کے لئے ہمیں وقت دے دو۔اس سے بیشتر نوبت یہاں تک آ پہنچے پاکستان کی ساری قوم کو بیدار ہو جانا چاہیے ، ہمیں دل وجان سے اپنے کشمیری بھائیوں کے لیے کھڑے ہونے کی ضرورت ہے خالی بیان بازی ،قرارداد ا ور ایک دن یک جہتی تک محدود نہ رہیں اب عملی طو ر پر کچھ کرکے دکھائیں بلکہ روزانہ کی بنیاد پر اپنے کشمیری بھائیوں کا ساتھ دیں اور ان کو کبھی بھی تنہائی محسوس نہ ہونے دیں۔انڈیا کے بھیانک چہرے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کریں۔اقوام متحدہ او ر عا لمی انسانی حقوق کے ادارہ کو دو ٹوک جواب دیں کہ اب کشمیر پر مزید ظلم وستم نہیں ہونے دیں گے چاہے اس کے لیے ہمیں کچھ بھی قیمت ادا کرنی پڑی تو دریغ نہیں کریں گے میر ا ایمان اور دعا ہے کہ کشمیراور پاکستان ایک تھے ایک ہیں اور ایک ہی رہیں گے انشاء اﷲ (آمین)!

Karamat Masih
About the Author: Karamat Masih Read More Articles by Karamat Masih: 36 Articles with 23716 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.