اک سو موٹو اس قتل عام پر بھی

ہماری سینئر عدلیہ کے لوگ ہفتے میں پانچ دن پیر سے لے کر جمعہ تک کام کرتے تھے۔ ہفتے کے دن ماسوائے کسی ایمر جنسی کے کوئی عدالتی کام نہیں ہوتاتھا۔ جج حضرات ہفتے کے دن فیصلے لکھاتے تھے ، اکھٹے چائے پیتے تھے اور ہفتے کا باقی دن اور اتوار اپنے بچوں کے ساتھ گزارتے تھے۔ عزیزوں ،دوستوں کو وقت دیتے تھے۔ خاندان سے ملتے جلتے تھے۔گوان کی زندگی میل جول کے حساب سے بڑی محدود ہوتی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ سینئر عدلیہ کے موجودہ ججوں نے اپنی یہ محدو د زندگی بھی ختم کرلی ہے۔ عزیزوں دوستوں کو یہ بھول چکے، خاندان کے لوگوں اور اپنے بھائی بندوں کو ملنے کو انہیں وقت ہی نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ یہ بچوں کو بھی وقت نہیں دیتے۔پانچ دن اسی طرح کام کرتے ہیں جیسے ان سے پہلے سب جج ہمیشہ کرتے تھے ۔ ہفتے اور اتوار کو یہ عوامی مسائل کے حل کے لئے کوشاں ہوتے ہیں جس کے لئے سارا دن عدالت میں گزارتے ہیں۔ صاف پانی، ہسپتالوں کی صورت حال کی بہتری، بہت سے ایسے قتل کہ جن کی تفتیش میں پولیس تساہل سے کام لیتی ہے اور بہت سے دیگر معاملات جن سے عوام کی بہتری مقصود ہو سپریم کورٹ میں ہفتہ اور اتوار کو ہمارے محترم جج اپنے ذاتی وقت میں سنتے اور بھر پور فیصلے دے رہے ہیں۔ قوم کو ان کا ممنون ہونا چاہیے کہ یہ ان کی بہت بڑی قربانی ہے۔ان کے دل میں قومی درد، ان کی قوم کی اصلاح کی کوششیں اور سب سے بڑھ کر ان کی استقامت اور جرآت ، کوئی دباؤ قبول نہ کرنا ایسی خوبیاں ہیں کہ جس کا کوئی بدل نہیں۔ مخالف کچھ بھی کہیں، تاریخ انہیں عزت اور وقار دے گی۔

قتل کی بات چلی تو مجھے وہ قتل عام یاد آیا جسے معاشی قتل عام کہا جاتا ہے یعنی بے روز گاری۔ کسی روز گار شخص کو بے روزگار کرنابھی اک قتل ہے گو معاشی سہی۔وہ شخص جو بے روز گار ہوتا ہے وہ اکیلا قتل نہیں ہوتا۔اس کی بے روز گاری کے سبب اس کے سارے خاندان کا قتل ہوتا ہے۔ اس کی بیوی اس کے بچے اس کے والدین جو اس کے ساتھ رہتے ہیں سب کا برا حال ہوتا ہے۔ سب قتل ہو جاتے ہیں ۔سبھی روز جیتے اور روز مرتے ہیں۔مگر اہل اقتدار کو احساس ہی نہیں ہوتا۔یہ کسی ایک محکمے کا نہیں ہر محکمے کا مسئلہ ہے۔ میں ایک یونیورسٹی میں آج کل پڑھا رہا ہوں۔ایک ڈیپارٹمنٹ میں جا رہا تھا۔ سامنے سے ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے والی دو بچیاں رفعت اور تاشفین آ رہی تھیں۔ روزانہ جب بھی سامنا ہو، پاس سے گزرتے بڑے احترام سے سلام دعا کے بعد آگے بڑھتی تھیں ۔ آج گم سم پاس سے گزریں تو پوچھ بیٹھا کہ بیٹا ناراض ہو جو یوں گزر گئی ہو۔ معذرت کرنے لگیں کہ پریشانی میں آپ کے گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ پریشانی کا پوچھا تو پتہ چلا پچھلے بارہ سال سے یونیورسٹی میں ملازم ہیں، آج یونیورسٹی کہہ رہی ہے کہ پیسے نہیں اس لئے تم فارغ ہو۔ حقےْت تو یہ ہے کہ اب نئے آنے والے اپنی پسند کے نئے بندوں کو لائیں گے ۔ باقی تو پیسے کا نہ ہونا بہانہ ہے۔سمجھ نہیں آتی ہمارا کیا بنے گا۔بارہ سال تک ہم مستقل ہونے کی خوشخبریاں سنتے رہے ہیں۔ آج خوشخبری کی بجائے یہ نئی خبر آ گئی ہے۔ اپنی داستان الم کس کو سنائیں۔کوئی سننے کو تیار ہی نہیں۔ میں سوچ رہا ہوں بارہ سال تو زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ ہوتا ہے۔ آپ زندگی کا ایک بہت بڑا اور خوبصورت تریں حصہ ایک ادارے پر نچھاور کر دیں پھر بھی وہ ادارہ آپ سے بے وفائی کرے ، یہ انصاف تو نہیں۔

اپنی پرانی ساتھی ڈاکٹر فوزیہ تبسم صاحبہ سے ملاقات ہوئی۔آپ معروف شاعر صوفی تبسم کی پوتی ہیں۔ انہیں سات سال ہو گئے ایک ہی جگہ کام کرتے۔ پتہ نہیں کیا مصلحت ہے مستقل کرنے کی بجائے کنٹریکٹ پر ملازمت دی گئی ہے ۔ ہر سال اس معاہدے کی تجدید ہوتی ہے ۔ پریشان تھیں کہ ا ب سنا ہے کہ معاہدے کی تجدید نہیں ہو رہی۔کہنے لگیں،گھر میں معقول رقم جو آ رہی ہو اس کا رک جانا پورے گھر اور گرہستی کو تباہ کر دیتا ہے۔ سمجھ نہیں آتی کیا کروں۔ میں فقط حوصلہ دے سکتا تھا سو حوصلہ دے کر آگے چل دیا۔ میرے ایک پرانے دوست خالد خان کے بیٹے کو چار سال بعد یونیورسٹی کی ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ہے۔خالد خان اپنی زندہ لاش اٹھائے یونیورسٹی میں چلاتا پھر رہا تھاکہ میرے بیٹے اور میرے خاندان کا یہ معاشی قتل کیوں کیا گیا ہے۔ وہ پلاننگ ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتا تھا۔ اس کے بہت سے ساتھی جن کے پاس حوالے تھے، جو کسی کے رشتہ دار تھے، ان سب کو کہیں نہ کہیں کھپا دیا گیا ہے۔میرے بیٹے کا حوالہ اس کا پروفیسر باپ یعنی فقط میں تھاجو ریٹائر پروفیسر ہے اورسیاسی تعلقات کے حوالے سے بہت کمزور ہے اور یہاں کوئی کمزور حوالوں کو نہیں مانتا۔سوچتا ہوں کہ اپنی جوانی کے بہترین اتنے سال اداروں کو دینے والے لوگوں کا معاشی قتل کرنے والے خود سزا کے مستحق ہیں کاش چیف جسٹس اس کا بھی سو موٹو لیں تا کہ اس معاشی قتل عام کے ذمہ دار بھی کسی انجام سے دو چار ہوں۔

کسی شخص کی کارکردگی معاہدے کے پہلے سال ہی کھل کو سامنے آ جاتی ہے۔ اگر اس کی کارکردگی اچھی نہ ہو تو وہ فوری فارغ ہو جاتا ہے۔ کسی شخص کا چار سال یا آٹھ سال یا بارہ سال کام کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کی کارکردگی میں کوئی خامی یا کمی نہیں۔کمی ہے تو صرف اس کے حوالے میں۔ یونیورسٹی میں ،میں نے دیکھا ہے کہ ایک ہی خاندان کے کئی کئی لوگ کام کر رہے ہیں۔ حوالوں کا یہ عالم ہے کہ بیوی میاں کی سلیکشن کے لئے اور میاں بیوی کی سلیکشن کے لئے زبردستی سلیکشن بورڈ کے ممبر بن جاتے ہیں۔ بیٹے ، بیٹیوں، بہوؤں،اور دامادوں کے لئے بھی ایسا ہی کھیل کھیلا جاتا ہے۔ زیادتی صرف اس کے ساتھ ہوتی ہے جس کا حوالہ کوئی نہیں ہوتا یا بہت کمزور ہوتا ہے۔

ملک کی ہر یونیورسٹی میں جتنے ریگولر ٹیچر ہیں اتنے ہی جز وقتی اسا تذہ بھی کام کر رہے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں بھی ہزار کے قریب ریگولر اور اتنے ہی جز وقتی اساتذہ کام کر رہے ہیں۔جز وقتی اساتذہ کے مشاہرے میں آج سے سات سال پہلے 20-6-2011 کو معمولی اضافہ کیا گیا تھا۔ عام استاد کی تنخواہ میں ان سالوں میں تقریباً دو سو فیصد (200%)اضافہ ہو چکا۔یہ اضافہ بجٹ کے موقع پر دیا گیا اضافہ ہے اگر ان کی سالانہ انکریمنٹ اس میں شامل کی جائے تو یہ بہت بڑھ جاتا ہے۔جز وقتی اساتذہ ہر سال ددرخواست کرتے ہیں مگر بے سود۔ ڈاکٹر مجاہد کامران کہتے رہے کہ انہیں جز وقتی اساتذہ کے کم معاوضے کا پورا احساس ہے۔ مگر ایل ڈی اے کے پیسے ملنے کا منتظر ہوں، اتنا معقول اضافہ کروں گا کہ سب کسر پوری ہو جائے گی۔کسر وہیں ہے مجاہد کامران چلے گئے۔

نئے وائس چانسلر ظفر معین ناصر نے IER ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے والے سو کے قریب جز وقتی اساتذہ سے چائے پر ملاقات کی اور فرداً فرداًسب سے بات کی۔وہاں موجودجز وقتی اساتذہ میں M.Phil تو سبھی تھے۔ بہت بڑی تعداد پی ایچ ڈی حضرات کی بھی تھی اور بیشتر پوزیشن ہولڈر تھے۔پوچھنے پر انہیں بتایا گیا کہ ان لوگوں کو ایک سمسٹر یعنی پورے چار ماہ پڑھانے کے پچیس سے تیس ہزار روپے فی کورس ملتے ہیں اور وہاں موجود نوے فیصد لوگوں کے پاس فقط ایک کورس ہی تھا۔ظفر معین ناصر نے یہ سن کر کہا کہ ملک کے بہترین تعلیم یافتہ لوگوں کو فقط سات ہزار روپے مہینہ ملنا سن کر انہیں انتہائی شرمندگی ہو رہی ہے، وہ فوری طور پر کچھ نہ کچھ کریں گے۔ وہاں موجود IER کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رفاقت سے انہوں نے کہا کہ کوشش کرو کہ ان سب کو ایک کی بجائے دو کورس دو،تاکہ کچھ تو ان کے پلے پڑے۔ زبردستی دو کورس دینا ممکن ہی نہیں تھا،اس لئے وہ بات تو ختم ہو گئی مگر اس سے پہلے کہ ظفر معین ناصر کچھ کرتے وہ زمین اور دیگر مسائل کے حوالے پنجاب حکومت کی نظر ہو گئے۔

موجودہ وائس چانسلرجناب ڈاکٹر زکریا ذاکر کے بارے پتہ چلا ہے کہ وہ اس مسئلے پر پوری طرح ہمدردانہ غور کر رہے ہیں۔ جلد ہی کوئی نتیجہ متوقع ہے۔ بعض لوگ وائس چانسلر حضرات کو مالی معاملات سے بچنے کا مشورہ دیتے رہے ہیں جو غلط ہے۔ ہر وہ مالی معاملہ جو دیانتداری سے انجام دیا جائے اس میں کسی ڈر یا خوف کا سوچنا بھی کمزور گورننس کی نشانی ہے۔ مضبوط اور دیانتداروائس چانسلرہر خوف سے آزاد ہوتا ہے۔ شنید ہے کہ کچھ جز وقتی اساتذہ نے اپنے مسئلے کو سپریم کورٹ کے ہیومن رائٹ سیل میں بھی اٹھایا ہے۔ لیکن بہتر یہی ہے کہ یونیورسٹی کے مسائل یونیورسٹی ہی میں حل ہو جائیں ۔ یونیورسٹی ایک آزاد ادارہ ہے اور اس کی آزادی کی حفاظت ہم پر لازم ہے۔مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر ذکریا ذاکر ان تمام مسائل کو خوش اسلوبی سے جلد از جلد نمٹا لیں گے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500457 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More