صحافت سے وابسطہ افراد کے مسائل

صحافت کو ریاست کو چوتھا ستون کہنے اور لکھنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضاٖفہ تو دیکھنے کو ملتا ہے لیکن کیا اِن میں سے کسی ایک نے بھی اس شعبہ سے وابسطہ افراد کے مسائل کو جاننے کی کو شش کی ؟چھوٹے شہروں خاص طور پر دوردراز کے دیہاتوں میں کسی بھی ادارے کی رپورٹنگ کرنے والا شخص جسکو عرف عام میں صحافی کہا جاتا ہے کس طرح اپنے معاشی مسائل سے لڑتا ہوا شعبہ صحافت سے انصاف کرتا ہے وطن عزیز پاکستان میں چھوٹے شہروں کے صحافی معاشرے میں پھیلی ہوئی نا انصافیوں ،ظلم ،کرپشن کے خلاف تو اپنا قلم اُٹھاتے ہیں لیکن اپنے گھر کو چلانے کے لیے اس کے پاس کوئی جادو کا چراغ نہیں ہوتا جو اُن کے معاشی مسائل جن میں صحت ،بچوں کی تعلیم ،روزمرہ کی بنیادی چیزوں کی فراہمی کو ممکن بنائے سننے اور دیکھنے کو ملتا ہے کہ یہاں صحافی بننے کے لیے کسی خاص مہارت کی ضرورت نہیں بس ایک قلم اور کاغذ لیں اور کسی بھی ادارے کا کارڈ چند ہزار میں خریدیں اور اپنے آپ کو صحافی کہنا اور کہلانا شروع کردیں یہ بات حقیقت ہے کہ کسی بھی شعبہ کو اختیار کرنے والوں کے لیے کچھ نا کچھ تعلیمی معیار مقرر ہوتا ہے جیسے ڈاکٹر کے لیے ایم بی بی ایس ،انجینئرکے لیے بی ایس سی انجینئرنگ،وکالت کے لیے ایل ایل بی تک تعلیم اور بعد ازاں لائسنس کے لیے چند مزید امتحانی مراحل سے گزرنا ضروری ہوتا ہے جبکہ صحافی بننے کے لیے واجبی سا لکھنا اور پڑھنا ہی کافی سمجھا جاتا ہے موجودہ دور میں بھی بڑے بڑے میڈیا کے ادارے اپنے نمائندے کی تعلیمی صلاحیت کو دیکھنے کی بجائے اس بات کو مدنظر رکھتے ہیں کہ ہمارا نمائندہ ہمیں سال میں کتنا بزنس لے کر دے سکتا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ آج بہت سے صحافی کسی ادارے کا کارڈ گلے میں ڈالنے سے پہلے کسی ایسے کاروبار سے وابسطہ تھے جس کو چلانے میں اُنھیں خوف سارہتا تھا کہ کہیں کوئی قانونی کاروائی اُن کے کاروبار کو ختم نہ کر دے اِس پریشانی سے بچنے کے لیے کئی ایک کاروباری حضرات صحافت کے شعبہ سے منسلک ہو گئے صحافی سے عوام معاشرہ میں منفی سرگرمیوں کے خاتمہ اور اصلاح احوال کے لیے تجاویز اور اعلی احکام تک اپنے مسائل کی توقع تو رکھتے ہیں لیکن اس بات کو بھُول جاتے ہیں کہ ایسی صلاحیتوں کا مالک وہی صحافی ہو سکتا ہے جو صحافت کو اپنا اوڑھنا بچھوڑنا (پروفیشن)سمجھ کر اختیار کرے اور اپنا تمام وقت صحافتی امور کی انجام دہی میں صرف کرے جبکہ ایسے صحافی اُسی صورت میں مِل سکتے ہیں جب نیک نیتی سے یہ پروفیشن اختیار کرنے والے کو معاشی طور پر بھی صحافتی ادارے یا محکمہ تعلقات عامہ اور گورنمنٹ ادارے مکمل سپورٹ کریں تاکہ معاشی مجبوریوں سے تنگ آکر کوئی بھی اپنے قلم کی حرمت کو فروخت نہ کر سکے بڑے بڑے صحافتی ادارے ہوں یا چھوٹے ادارے علاقائی صحافیوں کو اعزازیہ دینے کی بجائے اُن سے بزنس کی توقع رکھتے ہیں جس کی وجہ سے علاقائی صحافی اپنے معاشی مسائل کا بوجھ اُٹھائے پھرنے کے ساتھ ساتھ ادارے کے لیے بزنس اکھٹا کرنے والے شخص کے روپ میں بھٹکتا پھرتا ہے ایسے شخص سے معاشرہ کیا توقع رکھے گا ؟کہ وہ معاشرے میں منفی سرگرمیوں میں مصروف عمل افراد کی نشاندہی کر سکے محکمہ تعلقات عامہ حکومت پنجاب کی ہی بات کر لیتے ہیں کیا یہ سو فیصد ایسے افراد کو ایکریڈیشن کارڈ فراہم کرتا ہے جو واقعی ہی صحافت کے شعبہ سے نیک نیتی سے منسلک ہیں ؟اگر ہاں تو پھر حکومت کو چاہیے کہ وہ ان صحافیوں کو وہ تمام سہولیات فراہم کرنے کا بندوبست کرے جو دیگر گورنمنٹ کے ملازمین کو فراہم کی جارہی ہیں اور جو شخص کسی اور کاروبار سے منسلک ہو اور صحافت کی آڑ میں اپنے اچھے بُرے کاروبار کو فروغ دے رہا ہواور معاشرہ میں مثبت سرگرمیوں کے فروغ کا سبب نہ بن رہا ہو ایسے شخص کو صحافت کے شعبہ میں بین کر دینا چاہیے تاکہ ایسے افراد جو شعبہ صحافت میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو معاشرہ میں بہتری لانے کے لیے استعمال کر رہے ہوں انکی حوصلہ افزائی ہو سکے جبکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی صحافتی ادارے کا کارڈ گلے میں ڈال کر لوگوں کوڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور بعض پولیس کے ٹاؤٹ بن کرتھانوں میں ایف آئی آر اپنے مخالفین یا جن سے رقم بٹورنی ہو کے خلاف درج کرواتے اور اپنا حصہ بانٹتے نظر آتے ہیں قارئین کرام !یہ ہمارے معاشرے کا ایک بڑا المیہ ہے جبکہ سینئر صحافی جو بڑے شہروں میں معروف اداروں سے منسلک ہوجاتے ہیں اُنکی معلومات کا زریعہ بھی اکثر علاقائی صحافی جو کہ چھوٹے شہروں ،دیہاتوں،چکوک میں ہوتے ہیں بنتے ہیں لیکن اِن علاقائی صحافیوں کے لیے یہ سینئر کبھی بھی ٹھوس اقدامات اُٹھاتے نظر نہیں آتے وطن عزیز میں سینکڑوں صحافتی تنظیمیں وجود میں آچکی ہیں جنھوں نے صحافیوں کے حقوق کے لیے اپنے اپنے آئین میں نمایاں ذکر کر رکھا ہے لیکن معذرت کے ساتھ اِتنی زیادہ تنظیموں کے ہوتے ہوئے بھی علاقائی صحافی بے یارومدد گار ہی نہیں ہیں بلکہ اُن کے ساتھ معاشرہ کے چند افراد نہ صرف ہتک آمیز رویہ رکھتے ہیں بلکہ بعض کو اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران اپنی جانوں سے بھی جانا پڑتا ہے سانچ کے قارئین کرام !آج آپ کو اوکاڑہ میں منعقدہ ایک ایسی صحافتی تقریب کا احوال بتانے جارہا ہوں جس نے علاقائی صحافیوں کے لیے حقیقی طور پر نا صرف آواز اُٹھائی بلکہ عملی طور پر حکومت کے ایوانوں میں بیٹھے اعلی احکام کو یہ بات باور کروائی کہ علاقائی صحافی ایک حقیقی طاقت ہیں اِنکے حقوق کے لیے حکومت کو ٹھوس اقدامات کرنا ہونگے جی ہاں بات ہورہی ہے ریجنل یونین آف جرنلسٹس پاکستان،ڈسٹرکٹ یونین آف جرنلسٹس اوکاڑہ کی جسکے نوجوان عہدیداران کی تقریب حلف برداری گزشتہ دنوں مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی ۔تقریب سے ڈسٹر کٹ پولیس آفیسر حسن اسد علوی ، مرکز ی صدر ریجنل یونین آف جرنلسٹس پاکستان سید شفقت حسین گیلانی ، وفاقی پارلیمانی سیکرٹری صنعت و تجارت راؤ محمد اجمل خاں، چیئرمین ضلع کونسل ملک علی قادرعباس ، صوبائی پارلیمانی سیکرٹری میاں محمد منیر ، سابق ایم این اے رائے غلام مجتبیٰ کھرل ، ڈسٹرکٹ چیئرمین زکوۃ وعشرسید زاہد گیلانی ،مرکزی سیکرٹری جنرل رائے سجاد حسین کھرل ، صوبائی صدر پنجاب ڈاکٹر محمد زکریا،عابد حسین مغل، محمد اشفاق چوہدری اور محمد مظہر رشید چوہدری نے خطاب کیا ۔ تقریب میں ریجنل یونین آف جرنلسٹس پاکستان کے مرکزی سینئر نائب صدر وزیر احمد مہر ، صدر آزاد کشمیر جاوید احمد چوہان ، سید طاہر شاہ ، رضوان الحسن قریشی ، تنویر اسلم خاں ، راؤ عابد علی خاں ، صدر ڈسٹر کٹ بار راؤ عباس عدیل ، سیکرٹری شکیل چوہدری ، سابق صدور بارسید زاہد بخاری ، مقبول حسین شاکر،پی آر او ٹو ڈی پی او خالد جٹ ، علی اکبر ، راہنما مسلم لیگ ( ن) عمار اجمل چوہدری ،جاوید شیر لودھی ، وسیم احمد چوہدری ، راہنما پی ٹی آئی مرزا ذولفقار علی ایڈووکیٹ ،ضلعی انتظامی افسران میں خورشید جیلانی ، چودھری طاہر امین ، خالدجاوید بھٹی ،چودھری ظفر اقبال ، شمس الحق ، عارف جج،اشتیاق احمد خاں ،ملک محمد ریحان ، پرنسپل گورنمنٹ کالج پروفیسر ظفر علی ٹیپو ،سینئر پروفیسر راؤ سلیم طاہر، صدر مرکزی انجمن تاجران چوہدری سلیم صادق ، صدر سبز ی منڈی چوہدری محمد اشرف ،صدر غلہ منڈی چوہدری حبیب الحق ، سیکرٹری جے یوپی حبیب اﷲ چوراہی،سماجی شخصیت سید ندیم مقصود جعفری ،معروف کمپیئرپروفیسر ریاض خان ، کسان اتحاد کے سینئر نائب صدر ملک یاسین جھجھ،موٹیویٹراعجاز علی،کالم نویس صابر مغل ،سابق صدر اوکاڑہ پریس کلب شہباز ساجد ،نوجوان کالم نویس سلمان قریشی ،الیکٹرانک میڈیا ضلع اوکاڑہ کی ٹیم کامران سکندر کی سرکردگی میں خصوصی طور پر تقریب میں شریک ہوئی اس کے علاوہ منڈی احمد آباد ، بصیرپور ، راجووال ، حجرہ شاہ مقیم ، ہیڈسلیمانکی ، حویلی لکھا، دیپالپور، شاہبھور ، اوکاڑہ کینٹ ، صدر گوگیرہ ، ستگھرہ ، چوچک ، اختر آباد، شیر گڑھ ، رینالہ خورد ، نول پلاٹ اور اوکاڑہ سٹی کے عہدیداران وممبران پر یس کلبز اور آر یوجے و ڈی یو جے کی بڑی تعداد سمیت شہر بھر کی سیاسی سماجی ،مذہبی ،کاروباری شخصیات اور ضلعی انتظامیہ کے افسران نے شرکت کی یہاں پر بھی مقررین نے یہ بات دہرائی کہ ملکی مسائل کاحل آزاد اور غیرجانبدار میڈیا میں ہے اورعام آدمی کو انصاف کی فراہمی کے لیے علاقائی صحافیوں کا کردارانتہائی اہم ہے جس کی وجہ سے علاقائی صحافیوں کو انکے حقوق ملنا چاہیں لیکن یہ کون اور کب دے گا ؟یہ سوال اہم ہے کہ سالہا سال سے حکومتی حلقے اور سرکردہ سینئر صحافی یہ بات کرتے چلے آرہے ہیں لیکن صحافیوں کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی تو دور کی بات اُنکی جانیں بھی محفوظ نہیں ہیں ٭
 

Muhammad Mazhar Rasheed
About the Author: Muhammad Mazhar Rasheed Read More Articles by Muhammad Mazhar Rasheed: 129 Articles with 133574 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.