آزاد جموں وکشمیر خصوصاً مظفر آباد اور پونچھ ڈویژن اپریل
کے پہلے اور دوسرے عشرے کے وسط میں بارشوں کے ثمرات نے ایک بار پھر سرد
موسم کے اثرات قائم کیے اس بار بڑھتی لوڈشیڈنگ اورمہنگائی کے دباؤ کا شکار
ہوتے عوام گرمی کی تپش کے باعث خاصی جھنجھلاہٹ سے دوچار ہوگئے تھے مگرقدرت
کی فیاضی کے ثمرات سے بارشوں کے برستے پانی نے سب کو ایک بار پھر خوشگوار
موسم کی رتوں سے خوش کر دیا ، ورنہ یہاں جس طرح جنگلات سے لے کر آبادیوں تک
درختوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر نئی نسلوں کے ساتھ دشمنی کی گئی ہے ‘ اس
کے بعد بارشوں سے لے کر خوشگوار موسموں کی اُمید رکھنا بے وقوفی ہے جس کے
ذمہ داربطور معاشرہ سب ہی ہیں تاہم شاید بے زبان مخلوق کے ذکر اللہ کی
برکات ہیں ‘ باران رحمت کا نزول ہو جاتا ہے ان بارشون نے سرد سماء پیدا کیا
اور پھر گرمی شروع ہونے کے باوجود تاحال شامیں اور راتیں سرد احساس برقرار
رکھے ہوئے ہیں ان بارشوں کے شروع ہونے پر سڑکات کیلئے دشواریوں کا باعث
بننے والی لینڈ سلائیڈنگ ہوں یا شہر مظفر آباد کے اندر اُبلتے گٹروں سے
پھیلی غلاظت ہو یہ ہمیشہ سائز کے اعتبار سے بہت چھوٹے انتظامی یونٹ میں بہت
بڑے بجٹ کی حامل سرکاری مشینری کا ماتم ہوتے ہیں جس کے ذمہ دار حکومت یا
ادارے نہیں بلکہ خود عوام ہیں ‘ جو ووٹ دے کر ساری ذمہ داری حکومت کی ہی
سمجھ لیتے ہیں اور خود اصل سرکاری مشینری آفیسرز سے ماتحت عملہ تک کے ساتھ
اپنی سلام دُعا تعلق کو متاثر نہ ہونے دینے کیلئے دوغلا پن سے کام لیتے ہیں
از خود نام اور نشاندہی کی جرات کرتے ہوئے اخلاقیات کے اندر جمہوری انداز
میں احتجاج سے بھی گھبراتے ہیں ‘ شاہد اس لیے کوئی سچ بولنے کی جسارت کرے ‘
قدم اُٹھائے تو نشان عبرت بنتے ہوئے پاگل قرار پاتا ہے پھر اچھائی کی توقع
رکھنا خود پر ظلم نہیں تو کیا ہے ‘ کوہالہ سڑک پر آئی لینڈ سلائیڈنگ اگر
کوہالہ پار آئی ہوتی تو ساتھ ساتھ صاف ہو رہی ہوتی مگر کیوں کہ اس طرف ہے
لہٰذا یہاں کے معاشرے کا مزاج اس کا ذمہ دار ہے ، بس قدرت کے رحم و کرم پر
شکر الحمد للہ کرتے رہنا چاہیے موسم نے کروٹ لے کر گرمی کی شدت کو کچھ دِن
کم کیا تو لینڈ سلائیڈنگ بھی ختم ہو جائے گی بالکل موسم کے ان رنگوں اور
لینڈ سلائیڈنگ کے باوجود ٹریفک چلتے رہنے کی طرح ن لیگی حکومت کی بھی یہی
صورتحال ہے جس کو پھر سے راحت سکون میسر آیا ہے مگر گرمی کے بڑھنے اور لینڈ
سلائیڈنگ کے چلتے رہنے سے انکار مجموعی مزاج و عمل کے تضاد ختم ہوئے بغیر
ممکن نہیں ہے اس کے بغیر اُترانا اور سختی و دھمکی کے اثرات کا تاثر قرار
دلوانا خوش فہمی نہیں تو کیا ہے ‘ محکمہ اطلاعات سے وزراء ‘ ممبران اسمبلی
کے حکومت کے حق میں خیالات شائع کرانا جن کا خود وزراء ممبران اسمبلی اور
میڈیا کو پتہ نہیں ہوتا ان کے مابین کہاں بات چیت ہوئی ہے یہ خود کو دھوکہ
اور دوسروں کو مجبور سمجھنا نہیں تو کیا ہے ‘ شاید تحریک انصاف کے سربراہ
بیرسٹر سلطان محمود چوہدری ‘ جے کے پیپلز پارٹی کے سربراہ خالد ابراہیم کی
طرح مثبت سیاسی نقطہ نظر سب ہی کرتے تو قابل فخر کہلاتی اور کابینہ
پارلیمانی پارٹی کے ارکان خود میڈیا کے سامنے آ کر بات کر تے سب کو یقین
آتا ممکن اب ایسا ہو موسٹ سینئر پارلیمنٹرین راجہ عبدالقیوم خان ‘ راجہ
نصیر خان جرات ہمت کے ساتھ مخالف کو کرارہ جواب دینا جانتے ہیں تو مسعود
خالد چوہدری ‘ یٰسین گلشن ‘ کرنل وقار نور ‘ چوہدری اسحاق ‘ جاوید اختر ‘
احمد رضا قادری کو بطور وزیر کابینہ میں شامل کر کے حکومتی حفاظتی بندھ تو
باندھ دیا ہے اب اعتماد بھی قائم کرنا ہو گا ‘ کشمیر کونسل کا خاتمہ ‘
بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ‘ توانائی منصوبہ جات کے معاہدے ‘ لوڈشیڈنگ میں
نمایاں کمی ‘ میرٹ ‘ انصاف ‘ مساوات یہ سب بہت مشکل کام ہیں جس کا ذمہ دار
خود معاشرہ ہے مگر حکومت کو برطانیہ کے انصاف والے معاشرے میں جا کر واپس
آنے کے بعد ایک کام تو کرنا چاہیے اگرسکندریہ راج میں مقبوضہ کشمیر سے
پارلیمنٹرین کو پنشن دینے کی مثال کو اختیار کیا جا سکتا ہے تو پھر ایک
نظام تعلیم لا کر آزاد خطہ کے بچوں کو بھاری بستوں سے ہی نجات دلا دیں ‘
اسمبلی اجلاس بلا کر دو تین دِن بحث کرائیں ‘ آل پارٹیز ایجوکیشن کانفرنس
بلا کر سو طرح کے نصابوں اور نصف صدی پرانے طرز تعلیم سمیت بانگ بانگ کی
بولی والے ظلم جبر سے موجودہ آئندہ نسلوں کو بچائیں ‘ یہ کتنا بڑا ظلم
ناانصافی ہے بچوں پر گدھوں کی طرح بستوں کا بوجھ ‘ بھاری فیسوں ‘ مہنگے
نصاب کیلئے دونمبریوں ‘ حرام کمائی پر مجبور ہو جانا اور پھر بچوں سے اچھا
انسان بننے کی اُمید رکھنا منافقت نہیں تو کیا ہے ایک بچے کے ساتھ دوسرا ہم
عمر بچہ اس کا بھاری بستہ اُٹھائے نوکر کی طرح چلتا نظر آئے تو سارے معاشرے
کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے ۔؟ |