کراچی جیسے شہر میں شاید ہی کوئی ایسا شہر ی ہو جس کے پاس
موٹرسائیکل کی سواری نہ ہو ، اور ساتھ ہی شہر قائد میں جرائم کی وردا ت کا
ہو نا ایک عام فیل سمجھا جانے لگا ہے ، ایک عام موٹرسائیکل چائنا بائیک 30
سے 40 ہزار تک میں بازار میں دستیاب ہے ، جس میں اس کی رجسٹریشن فیس بھی
شامل ہوتی ہے ، رواں برس کراچی کے شہری اب تک ایک ارب 10 کروڑ روپے سے زائد
کی اشیاء سے محروم کیے جاچکے ہیں جبکہ انہیں پہنچنے والی جسمانی اور ذہنی
اذیتیں الگ ہیں۔ مالی طور پر انسان اگر بوجھ برداشت کربھی لے تو ذہنی طور
پر اٹھائی جانے والی اذیت کا کوئی ازالہ نہیں ہوسکتا۔ کراچی جیسے شہر میں
جہاں اسٹریٹ کرائم کی واردتوں کا ہونا عام بات ہو گیا ہے وہیں پر دن دہاڑے
موٹر بائکس کا چھن جانا بہت چھوٹا جرم ما نے جانے لگا ہے ، کراچی میں گزشتہ
10 ماہ کے دوران ایک ہزار 7 سو 64 افراد سے موٹرسائکلیں چھینی گئیں، اگر
ایک موٹرسائیکل کی قیمت اوسطاً 25ہزار روپے لگائی جائے تو اب تک 4 کروڑ 41
لاکھ روپے مالیت کی موٹرسائیکلیں چھینی جاچکی ہیں۔ اس کے علاوہ شہر سے 20
ہزار 428 موٹر سائکلیں مختلف علاقوں سے چوری بھی کی جاچکی ہیں، اگر چوری
ہونے والی ایک موٹرسائیکل کی اوسط قیمت 20ہزار روپے لگائی جائے تو اس حساب
سے 40 کروڑ 85 لاکھ روپے سے زائد رقم بنتی ہے۔ایسے ہی واقعات کی روک تھام
کے لیے سندھ حکومت نے گزشتہ برس یہ لائہ عمل کا اعلان کیا کہ صوبے میں تمام
موٹر سائیکلوں پر ٹریکنگ ڈیوائس لگائی جائیں ، بغیر ٹریکنگ ڈیوائسز والی
پرانی موٹر سائیکلیں آئندہ 6 ماہ میں قانونی طور پر قبضے میں لے لی جائیں،
کراچی میں رجسٹرڈ 25لاکھ موٹر سائیکلوں میں ڈیو ائسز لگوانے میں شہریوں کے
6 ارب روپے ان کو لگانے والی کمپنیوں کی جیب میں جائیں گے، وزیر داخلہ سندھ
سہیل انور سیال کی زیر صدارت اس معاملے پر اجلاس ہوا جس میں موٹر سائیکل
مینوفیکچررز ایسوسی ایشن، ٹریکنگ کمپنیوں، سندھ پولیس، محکمہ ایکسائز،
رینجرز اور سی پی ایل اسی کے نمائندوں نے شرکت کی اور اجلاس میں یہ فیصلہ
کیا گیا کہ موٹر سائیکلوں میں ٹریکنگ ڈیوائسزڈیلرز نصب کرائیں گے، جبکہ
موٹر سائیکلوں کے سڑکوں پر آنے سے قبل ہی اس کی رجسٹریشن بھی کی جائے گی۔
اجلاس کے شرکا کو بتایا گیا کہ صوبائی حکومت ڈیوائسز نصب کرنے والی ٹریکنگ
کمپنیوں کے ناموں کا جلد اعلان کرے گی۔ سندھ میں ہر سال تقریباً 6 لاکھ
موٹر سائیکلیں سڑکوں پر آتی ہیں۔ صوبائی حکومت نے یہ موقف اپنایا کہ یہ
اقدام موٹر سائیکلوں کی چوری اور ڈکیتی و دیگر جرائم کی وارداتوں میں اس کے
استعمال کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لیے کیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ
سندھ نے سیکرٹری داخلہ سندھ کو ہدایت کی کہ تمام متعلقہ اداروں اور اسٹیک
ہولڈرز کی باہمی مشاورت سے قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ابتدائی
مسودہ تیار کیا جائے اور موٹر سائیکلوں میں ٹریکنگ ڈیوائسز کی تنصیب کے عمل
میں مزید تاخیر سے کام نہ لیا جائے۔واضح رہے کہ صرف کراچی میں تقریباً 25
لاکھ موٹر سائیکلیں رجسٹرڈ ہیں، جبکہ ایک موٹر سائیکل میں کم از کم ڈھائی
ہزار کی ٹریکنگ ڈیوائس نصب ہوتی ہے۔ اس طرح موٹر سائیکلوں میں ٹریکنگ
ڈیوائس لگانے سے کمپنیوں کو صرف کراچی میں 6 ارب روپے کا بزنس ملے گا۔
اجلاس میں اس بات پر بھی غور کیاگیاکہ شہر میں چلنے والے بیشتر چنگ چی
رکشوں کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ موجود نہیں جس پر وزیر داخلہ سندھ نے حوالے
سے پالیسی وضع کرنے اور چنگ چی رکشوں کو باقاعدہ ضابطہ کار میں لانے کے
احکامات جاری کیے۔
لیکن افسوس حکام بالہ کے اقدامات صرف دستاویزات اور خبروں تک ہی محدود رہے
،ایک روپورٹ کے مطابق جنوری 2018 میں اسٹریٹ کرائم اپنے عروج پر رہا
1677موٹر سائیکلیں،2189موبائل فون چھیننے و چوری ہوئےجبکہ چھینی و چوری کی
جانے والی گاڑیوں کی مجموعی مالیت پانچ کروڑ ہے اور موٹر سائیکل کی مجموعی
مالیت ایک کروڑ نو لاکھ نوے ہزار ہے اگر حکومتی اقدا مات کو عملی اقدامات
کی شکل دی جا تی تو شاید کئی بے گناہ شہری اپنےموٹرسائیکلوں سے ہاتھ نہ دھو
بیٹھتے - |