پرائیوٹ اکیڈمیوں کا راج

پرائیوٹ اکیڈمیوں کی سرپرستی کرنے کے لیے کوئی ادارہ کوئی انتظامیہ نہیں ہے اس لئے انہوں نے اپنا راج قائم کیا ہوا ہے۔

آج کل ہمارے معاشرے میں تعلیم ایک ایسا شعبہ بن چکاہے جہاں پیسہ کمانے والے معصوم اور سادہ لوح لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے لُوٹ رہے ہیں۔ہماراالمیہ تو یہ ہے کہ زیادہ تر والدین کا طبقہ کم پڑھا لکھا ہے ، وہ تعلیم کی اہمیت سےبھی واقف ہیں اور اپنی اس کمی کو اپنی اولاد کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے سے پورا کرنا چاہتے ہیں۔ بیچارے سادہ لوح والدین، ان نام نہاد تعلیمی اداروں (جہاں فیس واجبات کے نام پرلوٹ مار اوردھوکہ دہی جاری ہے)کی مکاریوں کے جال میں ایسا پھنستے ہیں کہ پھر دامن چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے۔

یہ ادارے پرائیوٹ اکیڈمیوں کے نام سےگلی و محلے میں اپنا کاروبار چمکائے ہوئے ہیں۔ جہاں حفظانِ صحت کے علاوہ بنیادی سہولیات کا بھی فقدان ہوتا ہے۔ان اداروں میں جنریٹر چارجز، اے سی/ائیر کولر چارجز،ٹیسٹ سیشن فیس اور واٹر ڈسپنسر چارجز علاوہ ٹیوشن فیس وصول کیے جاتے ہیں۔جبکہ ان تمام لگثرری سہولیات کی فیس وصول کرنے کے باوجوداکیڈمیوں میں ایک بھی سہولت عنقا ہے۔ والدین اپنے بچوں کو گورنمنٹ اداروں میں پڑھانے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ پیسے کی بچت بھی ہو سکے مگر جب بچوں کی ضد کے آگے مجبور ہوکر وہ انہیں اکیڈمیز میں بھیج دیتے ہیں تو اصل میں ان کے پیسے کی بربادی شروع ہو جاتی ہے۔

کچھ عرصہ پہلے میرا ایک اکیڈمی میں جانے کا اتفاق ہوا ، وہاں کے حالات دیکھ کر ہی میں قلم اُٹھانے پر مجبور ہوگئی۔چونکہ میں وہاں پڑھانے کی غرض سے انٹرویو دینے گئی تھی اس لیے مجھےوہاں کے معائنے کا موقع مل گیا۔ اکیڈمی کا فیس شیڈول دیکھ کر تو میں چکرا ہی گئی۔ تمام سہولیات کی لمبی فہرست کے ساتھ ساتھ واجبات کی تفصیل کا نوٹس پڑھ کر مجھے تجسس ہوا کہ آیا اس ادارے میں اتنی لگثرری سہولیات بھی ہیں تو اساتذہ کی تنخواہ اتنی کم کیوں ؟

بس یہی سوچ کر میں آگے بڑھی اور لگی جائزہ لینے! مگر یہ کیا ؟ یہاں تو ہر چیز ایسے غائب تھی جیسے گدھے کے سر سے سینگ!

عام طور پر اکیڈمی میں والدین کا بچوں کی کلاس میں جانا ممنوع ہوتا ہے۔کیونکہ جن سہولیات کی بھاری قیمت وہ وصول کر رہے ہیں اگر اس پر سے پردہ اُٹھ جائے تو ان کا پول ہی نہ کھل جائے۔ ہم اپنے والدین کو دھوکہ کی زد میں رکھے ہوئے ہیں۔ ان پرائیوٹ اکیڈمیوں کی سرپرستی کرنے کے لیے کوئی ادارہ کوئی انتظامیہ نہیں ہے اس لئے انہوں نے اپنا راج قائم کیا ہوا ہے۔حکومت توجہ دے!

Nabiha Arshad
About the Author: Nabiha Arshad Read More Articles by Nabiha Arshad: 16 Articles with 28990 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.