اِنسانوں کے معاشرے میں جنگل کا قانون . .. . !!

آج یہ بات تسلیم کرنی پڑی گی کہ ہمیں بیرونی دُشمنوں اور بدمعاشوں سے نہیں بلکہ اپنے مُلک کے بیوقوفوں سے زیادہ خطرات لاحق رہتے ہیں اَب اِسی کو ہی دیکھ لیجئے کہ ایک خبرکے مطابق اِس کا قوی امکان ہے کہ سندھ حکومت نے جامعات کے بعد پولیس کو بھی اپنے کنٹرول میں لینے کے لئے منصوبہ بنالیاہے۔

جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ سندھ حکومت نے نیا پولیس ایکٹ 2018ء لانے کافیصلہ کرتے ہوئے پہلے مسودے کی منظوری دے دی ہے جبکہ حتمی مسودہ رواں ہفتے میں تیار کیاجاسکتاہے اور مجوزہ مسودہ کسی بھی وقت سندھ اسمبلی میں پیش کیا جاسکتاہے سندھ حکومت کے اِس اقدام کے برعکس اہلِ دانش اور تجزیہ کاروں کا یہ کہنا اصل حقائق سے پردے اُٹھاتاہے کہ سندھ حکومت ہر ادارے کو تباہ کرکے ہوجمالو کی دھمال ڈالنے پر تلی ہوئی ہے یعنی کہ اگر ایسا ہوگیاتوپھر آنے والے وقتوں میں صوبہ سندھ میں سیاستدان پولیس نظام چلا ئیں گے یقینا تو پھراِن پر یہ مثل صادق آئے گی کہ’’ جب سائیاں ہوئیں کوتوال تو ڈرکاہے گا‘‘ اور پولیس سیاستدانوں کی ہوکر رہ جائے گی سیاستدان پولیس کو اپنے مخالفین کے خلاف جس طرح چاہیں گے استعمال کریں گے پھر تو لا محالہ حقیقی معنوں میں صوبہ سندھ میں جنگل کا قانون چلے گا یا شائدیہاں اِس سے بھی بُری حالت رونما ہو جائے، یہ تو سندھ حکومت کی بیماری ہے کہ یہ ٹاپ ٹو باٹم ہر ادارے کو اپنے زیراثر اور کنٹرول میں رکھنے کی عادی ہے اپنی اِس خصلت کے ہاتھوں مجبور سندھ حکومت کو اِس سے کو ئی مطلب نہیں ہے کہ ادارے تباہ ہوں تو ہوں مگر اِس کی اداروں پر اجارہ داری ہرصورت میں قائم رہے آج کو نسا ایسا ادارہ نہیں ہے جس پر صوبہ سندھ میں سندھ حکومت نے اپنی مرضی چلاکر اِسے تباہی کے دہانے پر نہ پہنچادیاہو۔

الغرض یہ کہ آج سندھ میں کرپشن کو بے لگام کرنے سے لے کر جنگل کا قانون لانے تک سندھ حکومت نے اپنے حصے کا کام بڑھ چڑہ کر کیا ہے اور اِس حوالے سے مزید سندھ حکومت سارے ریکارڈ توڑنے کے لئے پرعزم ہے سندھ حکومت اپنے جابرانہ طرزعمل سے عام شہری کو غلام بنا کر رکھنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے یہ اپنے اِس عمل سے یہ سمجھتی ہے کہ اہلیت اور قابلیت کی کوئی اہمیت نہیں ہے اِن کی جگہہ تو ردی کی ٹوکری ہے اہلیت اور قابلیت کو کچرے کی کنڈی میں ڈالو، مگر من پسند اور خوشامدی افراد کواداروں میں تعینات کرکے اپنا کام نکالو، یہی حکومت کا انداز ہے اور یہی عمل اقتدار کی کامیابی کا زینہ ہے اور آج سندھ حکومت اِس پر پوری کاربند ہے اِس پر ہماری تو اﷲ سے بس یہی ایک دُعا ہے کہ اﷲ سندھ حکومت کو ہدایت دے اور اِسے ایسا کو ئی کام کرنے سے روکے جو بعد میں خود اِس کے اپنے ہی پیروں کی بیڑی بن جائے ۔

بہر حال ،ہرزمانے کی ہرتہذیب سے معاشرے تشکیل پاتے ہیں اور معاشرے اِنسانی اقتدار کا نمونہ ہوتے ہیں جس طرح ہر تہذیب اہمیت کی حامل ہوتی ہے اِسی طرح معاشرے اور اِنسان بھی تاریخی اہمیت اختیار کرتے ہیں اِس سے اِنکار نہیں کہ معاشرے اور اِنسانوں کی اہمیت اچھی یا بُری دوطرح کی ہوتی ہیں آج دنیا میں جو معاشرے اپنی اہمیت کے اعتبار سے اچھی شہرت کے حامل ہیں وہ دوسروں کے لئے مشعل راہ کادرجہ پاتے ہیں اور جس معاشرے کے حصے میں بدنامی آئی ہے اَب یہ رہتی دنیا تک اِس کلنک کے ٹیکے سے چھٹکارہ نہیں پاسکتے ہیں ۔

بیشک، آج جہاں 21 ویں صدی میں دنیا نے سائنسی ترقی میں بڑے بڑے جھنڈے گاڑے ہیں تو وہیں افسوس ہے کہ اِسی صدی میں دنیا کے بہت سے ممالک میں اِنسانوں کے معاشرے میں جیسے جنگل کا قانون رائج ہے جدید ترقی ایک طرف ہے مگردوسری جانب آسائشوں کے مارے اِنسانوں کے ہاتھوں اِنسانوں کا ہی قتلِ عام بھی ہورہاہے چاردانگِ عالم میں طاقتورکمزور کو کچل رہاہے اِنسان کا مقدس خون پانی کی طرح بہایا جارہاہے مگر کوئی اِس پررونے والانہیں ہے ذاتی ، سیاسی اور معاشی مفادات میں بٹے اِنسان نما طاقتور آدمخورکمزوروں پر ظلم کئے جارہے ہیں اور کمزور اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر ظلم سہے جارہے ہیں آخر ایسا کب تک ہوتارہے گا؟ کسی کو کچھ نہیں پتہ ہے کہ طاقتور وں کا کمزوروں پر ڈھایاجانے والا ظلم کون کب اور کیسے روکے گا؟سب طاقتور لوٹ کھسوٹ کرنے اور اِنسانوں کے ایک ایک قطرے خون کو نچور کرپینے میں مگن ہیں سب اپنے حصے کا یہ کام ثوابِ دارین سمجھ کر کرہے ہیں۔

آج میں حیران ہوں کے جس معاشرے میں ، میں سانس لے رہاہوں بظاہر تو یہ اِنسانوں کا معاشرہ نظرآتاہے مگر افسوس کی بات ہے کہ اِس میں اِنسانیت کا فقدان ہے اِس لئے کہ یہاں اِنسانوں کا قانون توقال قال ہے مگر جنگل کے قانون پر جا بجاعمل ہوتا دکھائی دیتاہے یہاں طاقتور فاسق وفاجر اپنی مرضی کے قانون کا اطلاق ڈنڈے کی زور پر کرواتاہے اور اپنے آگے پیچھے جانوروں کی طرح خوشامدیوں کے ریوڑوں اور جھنڈ کو لے کرچلتاہے اِس کا جو جی چاہتاہے کرتاپھرتاہے یوں معصوم اور مجبوروبے کس عوام جنگل کے قانون میں ایسے جکڑے جا چکے ہیں کہ اَب اِنہیں یہی اِنسانوں کا قانون لگتاہے تب ہی طاقتور اپنی مرضی سے اپنے ہم خیال گروپ سے اپنا قانون بناتااوربگاڑتارہتاہے۔

Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 887173 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.