عام وکیل کا شکوہ

اس کی عمر لگ بھگ چالیس سال کے کے قریب ہوگی، سر کے بال کافی سارے اڑے ہوئے اور چاندی بھرے، تھوڑی سی بڑی ہوئی شیو اور اس میں بھی سفیدی، سخت گرمی میں بھی سیاہ پینٹ، سفید شرٹ اور اس پر سیاہ کوٹ پہنے ہوئے، ہاتھوں میں چند فائلیں اور ماتھے پر سوچ کی گہری لکیریں، یہ حلیہ اس عام پاکستانی وکیل کا ہے جسے میں کافی عرصہ سے جانتا ہوں، بےحد محنت و مشقت کے بعد جب کبھی واپسی کا کرایہ بھی اس کی جیب میں نہیں ہوتا تو اللہ توکل پیدل ہی گھر کو روانہ ہوجاتا ہے اور اکثر کوئی جاننے والا اور گاڑی رکھنے والا وکیل اسے لفٹ بھی دے دیتا ہے اور وہ اکثر یہی کہتا ہے کہ میں نے سوچا ذرا گھر تک جاتے جاتے ”واک“ بھی ہوجائے گی کیونکہ پیٹ کافی نکلتا جا رہا ہے اور کام کی زیادتی کی وجہ سے باقاعدہ واک کا وقت ہی نہیں مل پاتا۔ دوستوں کی ایک محفل میں کافی عرصہ بعد جب ان وکیل صاحب سے ملاقات ہوئی تو ٹی وی بھی چل رہا تھا اور اس پر ایک خبر بھی وکیلوں کے حوالہ سے چل رہی تھی کہ آج فلاں عدالت کے باہر وکلاء نے ایک پولیس والے کی پٹائی کردی، نیوز ریڈر بار بار ”وکلاء گردی“، ”غنڈہ گردی“ اور ”کالی بھیڑوں“ جیسے الفاظ ادا کررہا تھا، ایک ہیجان انگیز انداز لئے جب بار بار یہ خبر نشر ہوئی تو سبھی دوست اس وکیل کے سر ہوگئے اور کہنے لگے کہ بھائی آجکل تو وکیلوں سے ڈر لگتا ہے کہ کب یہ قلم چھوڑ کر ڈنڈے اٹھالیں یا ہاتھوں سے ہی پٹائی کرنا شروع کردیں، اگر ان کے ہاتھوں پولیس والے اور ان کی عزت محفوظ نہیں تو ایک عام آدمی کا کیا حال ہوگا، ایک دوست کہنے لگا، ہم نے اپنا مکان کرائے پر دینا تھا، ساری باتیں ایک پراپرٹی ڈیلر کے توسط سے طے ہوگئیں لیکن جس دن کرایہ دار نے شفٹ ہونا تھا اس سے ایک دن پہلے ہمیں معلوم ہوا کہ وہ کوئی وکیل ہے، میرے والد صاحب نے تو فوراً معذرت کرلی اور ان کا ٹوکن واپس کردیا کہ کل کلاں کو یہ وکیل صاحب قبضہ ہی نہ کرلیں، دوسرا دوست جو کہ ایک بنک میں اچھے عہدے پر فائز ہے، کہنے لگا”بھائی لوگ! ہمارے بنک سے کسی وکیل کو قرضہ یا کریڈٹ کارڈ جاری نہیں ہوسکتا“ تیسرا دوست بولا، یار یہ باتیں تو عام سی ہیں، اب تو کوئی وکیل کو رشتہ دینے کو بھی تیار نہیں ہوتا....! ایک اور دوست نے لقمہ دیا کہ جب سے وکلاء تحریک کامیاب ہوئی ہے، وکیلوں نے بدمعاشی شروع کررکھی ہے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ محفل میں بیٹھے وکیل صاحب بڑی اذیت اور کرب کے ساتھ ساری باتیں سن رہے تھے لیکن خلاف توقع کچھ بول نہیں رہے تھے حالانکہ پہلے وہ کسی کو بولنے کا موقع کم ہی دیتے تھے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ ایک وکیل تو فیس ہی بولنے کی لیتا ہے۔

جب بہت ساری باتیں ہوچکیں اور تقریباً سارے دوستوں نے وکیلوں کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکال لی اور نیوز ریڈر بھی کسی اور بریکنگ نیوز کی طرف چلا گیا تو میں نے ان وکیل صاحب سے کہا کہ بھائی آپ اتنے خاموش کیوں ہیں، کچھ جواب تو دیجئے۔ پہلے تو وہ کچھ دیر میری طرف دیکھتے رہے پھر بالآخر انہوں نے چپ کا روزہ توڑ ہی دیا اور کہنے لگے”آپ سب کی باتیں اپنی جگہ شائد درست ہوں لیکن آپ تصویر کا صرف ایک رخ دیکھ کر اپنے رائے قائم کررہے ہیں، آپ لوگوں کے ذہنوں میں صرف وہی کچھ ہے جو آپکو میڈیا یکطرفہ طور پر دکھا رہا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض وکلا یا وکلاء کے گروپس ایسی کاروائیاں کرتے ہیں لیکن وہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں، ان کی ایسی ہی کاروائیوں اور حرکتوں سے وکلاء کی اکثریت پریشان بھی ہے اور خائف بھی“ میں نے کہا تو اگر اکثر وکلاء آپکی نظر میں ایسے نہیں ہیں تو آپ ان کو روکتے کیوں نہیں تاکہ آپکی بدنامی نہ ہو ان کا جواب تھا ”بھائی ہم وکیل بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں، اگر ہمارے عوام کی اکثریت شریف بھی ہے اور ایماندار بھی تو وہ کیوں بے ایمان لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں، اگر سر راہ کوئی کسی کو مارپیٹ رہا ہو تو کیا آپ وہاں کھڑے ہوکر وہ لڑائی اپنے سر لیتے ہیں، حالانکہ عوام ہی آپس میں لڑ رہے ہوتے ہیں“ پھر دوبارہ گویا ہوئے ”یار دیکھیں، بات اصل میں یہ ہے کہ ہم لوگ بحیثیت مجموعی تماشہ دیکھنے والے لوگ ہیں، اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی بجائے صرف اپنے حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں، دوسروں کی جیبیں کاٹ کر اپنی جیبیں بھرنے کی تگ و دو کرتے ہیں، آپ لوگوں نے کبھی ایک عام وکیل کی حالت زار پر غور کیا ہے کہ وہ آجکل کے دور میں کس طرح زندگی کی گاڑی کو کھینچ رہا ہے، وہ گاڑی جو دھکا سٹارٹ ہے، بیٹری جواب دے چکی ہے، جس کی سٹپنی بھی نہیں ہے، بریکیں بھی فیل ہوچکی ہیں اور سی این جی، ایل پی جی اور پٹرول بھی نہیں ہے، صرف دھکا ہے صرف دھکا....! سب لوگ پریشانی سے ان کے چہرے کو دیکھ رہے تھے جس پر شدید اذیت کے آثار صاف دیکھے جاسکتے تھے۔ پانی کا ایک گلاس پی کر جب وہ دوبارہ بولے تو ہمیں محسوس ہوا کہ جیسے ان کی آواز کہیں دور سے آرہی ہے، وہ کہہ رہے تھے ”ہم عام وکیل جب صبح گھر سے نکلتے ہیں تو ایک آس اور ایک امید لے کر نکلتے ہیں کہ آج ”دیہاڑی“ لگ جائے گی اور ہم بھی جیب میں کچھ نہ کچھ لےکر گھر واپس جائیں گے، اللہ کی مہربانی سے اکثر اوقات کوئی نہ کوئی کام مل ہی جاتا ہے اور گھر کا چولہا جلتا رہتا ہے لیکن کبھی کبھار کام نہ ملنے سے یا فیس میں دیر سویر ہونے سے جب خالی جیب گھر جانا پڑتا ہے تو عجیب سی حالت ہوتی ہے کہ قدم کہیں رکھتے ہیں اور پڑتا کہیں اور ہے، یہ جو آپ بڑی بڑی فیسوں والے وکیلوں کا نام سنتے ہیں، یہ گنتی کے چند لوگ ہیں، یہ تو شائد دس فیصد بھی نہیں ہوں گے، عام وکیل تو عام پاکستانی جیسی ہی زندگی گذارتا ہے، جب تک اس کے دم میں دم ہوتا ہے، محنت مزدوری کرتا ہے، جب قویٰ جواب دے جاتے ہیں تو فارغ.... وکیلوں کو تو کہیں سے پنشن بھی نہیں ملتی، کونسی سہولت ہے جو ریاست یا حکومت وکلاء کو فراہم کرتی ہے،رہی بات وکلاء تحریک کی کامیابی کے بعد بدمعاشی کے الزام کی تو اس کا جواب بھی سن لیں۔

جب وکلاء تحریک اپنے عروج پر تھی تو اعتزاز احسن سمیت وکلاء کی قیادت کی اکثریت یہ سمجھتی تھی اور بعض مواقع پر نجی محفلوں میں انہوں نے اس کا اظہار بھی کیا کہ ہمیں یقین نہیں کہ تحریک کامیاب ہوگی لیکن ہمیں بہرحال اپنا فرض ادا کرنا چاہئے تب یہ عام اور نوجوان وکلاء ہی تھے جن کو یقین تھا کہ ہماری تحریک ضرور کامیاب ہوگی کیونکہ ان کی اکثریت یہی چاہتی تھی کہ اس ملک میں قانون کی حکمرانی ہو، عام آدمی کو انصاف ملے اور اس عام آدمی میں عام وکیل بھی یقیناً شامل ہیں، میں اس لئے اس تحریک میں شامل رہا، پولیس کی ماریں کھائیں، تشدد برداشت کیا، جیل یاترا بھی کی کہ میں ایک عام آدمی ہوں، میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، جب میں ان کے مستقبل کی طرف نگاہ دوڑاتا ہوں تو دل ڈر سا جاتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہاں میرٹ ہوگا، قانون کی حکمرانی ہوگی تبھی میرے بچے ترقی کرسکیں گے کیونکہ میں نہ تو انہیں ایچیسن کالج میں داخل کرواسکتا ہوں، نہ سیلف فنانس سکیم کے تحت پڑھا سکتا ہوں اور نہ میرے پاس رشوت کے پیسے ہیں کہ پہلے رشوت دے کر کسی اچھے ادارے میں داخلہ لیکر دوں اور پھر رشوت دے کر انہیں اچھی نوکری پر لگوا دوں، میں تو اس لئے تحریک کے ہر اول دستے کا ایک گمنام سپاہی تھا کہ میں ایمانداری سے زندہ رہنا چاہتا ہوں، میں جھوٹ بول کر اور لوگوں کو گمراہ کر کے اپنی جیبیں نہیں بھرنا چاہتا، میں ہی نہیں بلکہ عام وکلاء کی اکثریت اسی لئے اپنی جان ہتھیلی پر لئے پھرتی تھی لیکن ابھی ہمیں منزل نہیں ملی، ابھی تو ہمارے اندر سے ہی بعض لوگ، جو بوجوہ اس تحریک کے مخالف تھے، جو ذاتی مفاد کے تحت ”دو نومبر“ کی عدلیہ کی بجائے ”دو نمبر“ عدلیہ کے حامی تھے اپنی ایسی کاروائیاں ڈالتے رہتے ہیں جن کا تذکرہ آپ لوگ کر کے میرے زخمی دل کو اور مجروح کر رہے تھے اور ان چند لوگوں اور مخصوص ٹولوں کی ان حرکات کو میڈیا سارے وکلاء پر تھوپ دیتا ہے اور آپ لوگ بھی چونکہ چٹ پٹی خبروں کے رسیا بن چکے ہیں اس لئے آپ بھی سارے وکیلوں کے خلاف دل میں عناد بٹھا لیتے ہیں۔ ابھی تحریک کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا ہے، ابھی منزل ملی نہیں بلکہ کافی دور ہے لیکن اتنا ضرور ہوا کہ پہلا زینہ عبور کرلیا گیا، انشاءاللہ وہ دن دور نہیں جب اس ملک کے عام وکیلوں اور عوام کو ان کے حقوق مل جائیں گے، ہم عام وکیل مایوس ہرگز نہیں لیکن پریشان ضرور ہوجاتے ہیں کہ وہ عزت جو ہم نے دو سال کی تحریک سے کمائی تھی اس کو ایک خاص سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بدنامی میں تبدیل کیا جارہا ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے اندر کالے کرتوتوں والے لوگ موجود ہیں، ہم ان کی نشاندہی کی کوشش بھی کر رہے ہیں اور اپنی اصلاح کی بھی اور ہماری نیتیں ٹھیک ہیں اس لئے انشاءاللہ ہم اس میں کامیاب بھی ہوں گے، شائد اس میں تھوڑا وقت لگے لیکن ناکامی بہرحال نہیں ہوگی، اس کا مجھے پورا یقین ہے۔ مجھے بس آپ لوگوں سے شکوہ ہے کہ جس طرح ہمارے معاشرے کے ہر حصے میں برے اور کم ظرف لوگ موجود ہیں اور ان کے انفرادی فعل کو ایک انسان کا فعل ہی سمجھا جاتا ہے، پوری کمیونٹی پر لاگو نہیں کیا جاتا، جس طرح سارے ڈاکٹر قصائی نہیں ہوتے، جس طرح سارے انجینئر حرام کھانے کے لئے ایسے پل تعمیر نہیں کرتے جو کچھ ہی عرصہ بعد زمیں بوس ہوجائیں، جس طرح سارے ٹیچرز بے ایمان نہیں ہوتے، جس طرح سارے سیاستدان بدعنوان نہیں ہوتے، جس طرح سارے پراپرٹی ڈیلر اور ٹاﺅن پلانر قبضہ گروپ نہیں ہوتے، اسی طرح سارے وکیل بھی برے نہیں ہوتے، اگر باقی کمیونٹیز کے لوگوں کے انفرادی فعل کو پوری کمیونٹی کا فعل نہیں سمجھا جاتا اسی طرح وکلاء کے بارے میں بھی ہونا چاہئے، ہم سب نے وکیل صاحب سے اتفاق کرنا بہتر سمجھا کیونکہ اصل بات تھی بھی ایسی ہی!....ان کا شکوہ بجا ہے، ہمیں بھی کچھ تو سوچنا چاہئے، خصوصاً میڈیا کو....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207319 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.