پاک چین دوستی..... زندہ باد

چین پاکستان کا سب سے قابل ِ اعتماد دوست ہے یہ صرف ایک جملہ نہیں بلکہ دونوں ملکوں کے بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں سب سے زیادہ قابلِ بھروسہ رائے ہے۔ چین آنے والے وقت میں یقیناً ایک سپر پاور ہے اور اس وقت بھی دنیا میں سب سے زیادہ مضبوط اقتصادی قوت ہے جو کسی معاشی بحران کا شکار نہیں ہے جیسا کہ اس وقت سپر پاور امریکہ معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ دنیا کی تجارت پر چین مسلسل چھاتا جا رہا ہے اور اپنی اہمیت میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔ چین جیسے اہم ملک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات نصف صدی سے زیادہ کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں۔ یہ بات بالکل بجا ہے کہ دونوں ملکوں نے ہمیشہ اس کا حق ادا کیا ہے اور مصیبت میں ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔ چین نے اپنی مضبوط عالمی پوزیشن کی بنیاد پر جب بھی بین الاقوامی معاملات میں پاکستان کی مدد کی اس نے پاکستان کی ساکھ کو دنیا میں بہتر بنانے میں مدد دی اور چین نے کبھی پاکستان کے بارے میں نہ کسی ٹھنڈے رویے اور نہ کسی کنجوسی یا بخل کا ثبوت دیا۔ اس وقت جب پاکستان پر مغرب اور خاص کر امریکہ کی طرف سے دہشت گردی کی مکمل ذمہ داری ڈالی جا رہی ہے چین کے وزیرِاعظم نے پاکستان کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کھل کر کہا کہ دنیا کو دہشت گردی کے اصل اسباب جاننے کی ضرورت ہے اسے کسی مذہب اور قوم سے منسلک نہ کیا جائے۔ یعنی انہوں نے پاکستان کے مؤقف کی ترجمانی کی کہ دنیا اس بارے میں ضرور جاننے کی کوشش کرے کہ پاکستان جو خود دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثر ہوا ہے اگر اس کے کچھ علاقوں میں کچھ مخصوص گروہ ایسا کر رہے ہیں تو کیوں؟ اس کے اسباب یقیناً کچھ اور ہیں اور ان اسباب کے بارے میں تو میرے سمیت ہر پاکستانی جانتا ہے اب تو اس میں کسی کو ابہام بھی نہیں کہ یہ’’ اسباب‘‘ ہماری دشمن خفیہ ایجنسیاں پیدا کر رہی ہیں۔’’موساد‘‘اور ’’ را‘‘ کی مداخلت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں بلوچستان میں تو اس کے کافی ثبوت بھی موجود ہیں اور افغانستان میں بھارت کی موجودگی بھی ہمارے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہے۔ جہاں سے بڑی آسانی سے ’’را ‘‘کے یہ دہشت گرد فاٹا میں داخل ہوتے ہیں اور پاکستان میں موجود اپنے کارندوں کی مدد سے پورے ملک میں دہشت گرد کاروائیاں کرتے ہیں۔ اس کام میں ’’سی آئی اے‘‘ اور’’را‘‘ ان کو ہر قسم کی مدد فراہم کر رہی ہے اور پھر امریکہ جیسے دور پار کے دوست نما دشمن پاکستانیوں کو دہشت گرد قرار دے دیتے ہیں۔ انہیں دہشت گرد بھی صرف وہی لگتے ہے جو ان کے خلاف ہو ۔ پاکستان میں مسلسل ہونے والے خود کش دھماکوں پر مغرب کی آنکھ بھر بھی نہیں آتی جبکہ اپنے ملک میں کسی سازش کے عملی جامہ پہننے سے پہلے پکڑے جانے والے منصوبے پر بھی وہ پاکستان پر حملہ آور ہونے کو تیار ہو جاتے ہیں اور اگر ہمارے پاس ایٹمی قوت نہ ہوتی تو یقیناً وہ ایسا کر بھی چکے ہوتے۔ یہی وہ دوہرا معیار ہے جس کا چینی وزیرِاعظم وین جیا بائو نے ذکر کر کے پاکستان کا مغربی اور بھارتی الزامات سے دفاع کیا اور جس طرح وہ ہمیشہ دفاعِ پاکستان میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اس نے وہی اب بھی کیا۔ پاکستان اس وقت بین الا قوامی اور قومی دونوں سطح پر شدید مشکلات سے دوچار ہے اور چین جیسے دوست کی سپورٹ اس کیلئے یقیناً انتہائی اہم ہے۔ جس طرح چین کا ہر باشندہ اور حکمران پاکستان کیلئے خیر سگالی اور محبت کے جذبات رکھتا ہے وین جیا بائو نے اس کو مذید تقویت دی اور پاکستان سے دوستی کو اپنا عقیدہ قرار دیا اور کہا کہ یہ دوستی ہمارے خون میں شامل ہے اور ظاہر ہے عقیدہ اور خون بدلتا نہیں۔ لیکن انہوں نے اپنی تقریر میں ہمیں یہ بھی یاد دلایا کہ چینی کہاوت کے مطابق﴿جو پاکستانی کہاوت بھی ہے﴾ ’’دور کے دوست سے نزدیک کا پڑوسی بہتر ہے‘‘ اور حقیقت یہ ہے کہ پڑوسی اگر چین جیسا ہو تو دور کے امریکہ جیسے خود غرض اور مطلب کے دوست کے پاس جانے کی یقیناً کوئی ضرورت نہیں۔ اب تک کے پاک چین اور پاک امریکہ تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو دونوں میں واضح فرق نظر آتا ہے۔ امریکہ اگر ہمیں ہتھیار دیتا ہے تو صرف ہتھیار بیچتا ہے اور ٹیکنالوجی کی بات پر وہ ہمیں غبی سمجھ کر اسے ہماری سمجھ اور عقل سے بالاتر قرار دے دیتا ہے لیکن چین نے کبھی ٹیکنالوجی دینے سے انکار نہیں کیا۔ اس نے کسی میدان میں پاکستانیوں کو کند ذہن اور غبی نہ سمجھا وہ جانتا ہے کہ اس ملک کے لوگ ذہین بھی ہیں اور محنتی بھی۔ یہی وجہ ہے چینی صدر کے اس دورے کے دوران پاکستان اور چین کے درمیان دس ارب کے تجارتی معاہدوں کے ساتھ ساتھ یہ اعلان بھی کیا کہ پانچ سال میں 500طلبا کو وظائف دیئے جائیں گے تاکہ وہ چین میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکیں۔ ساتھ ہی چینی وزیرِاعظم نے کرنسی کے تبادلہ کا سلسلہ شروع کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے اور یہ معاہدے کسی ’’کیری لوگر بل‘‘ کے تحت نہیں ہوں گے بلکہ یہ دو دوست ممالک کے درمیاں معاملات ہیں جو انشائ اللہ خوش اسلوبی سے مکمل ہو جائیں گے۔ وین جیا بائو نے خود کہا کہ چین پاکستان سے کیے گئے تمام معاہدے پورے کرے گا اور ماضی میں بھی چین کا یہی ریکارڈ ہے کہ اس نے پاکستان سے کیے گئے معاہدے پورے کیے اور کئی انجینئرز کو جان سے ہاتھ دھونے پر بھی انہوں نے شاہراہِ ریشم مکمل کی اور بلوچستان میں ریکوڈک، سینڈک اور گوادر میں مکمل تندہی سے کام کر رہا ہے ۔ اگرچہ پاکستان کے چین سے تعلقات ہمیشہ مثالی رہے چاہے حکومت کسی جماعت کی ہو اس نے چین سے تعلقات کو اولیت اور اہمیت دی ۔ اب بھی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے چین کے وزیرِاعظم کا انتہائی گرمجوشی سے استقبال کیا۔ لیکن چین کے وزیرِ اعظم کی اس نصیحت پر حکومتِ پاکستان بلکہ اپوزیشن لیڈرز کو ضرور غور کرنا چاہیئے کہ دور کے دوست سے قریب کا پڑوسی بہتر ہے۔ اپنے ملک کے ماتھے سے دہشت گردی کا داغ دھونے کیلئے انہیں سخت رویہ اپنا کر دلیرانہ فیصلے کرنے ہونگے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ نے ہمیں ساری دنیا سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے ہماری تجارت اور معیشت تباہ حالی کا شکار ہے اب اس جنگ سے خود کو نکالیں۔ چین جیسے دوستوں سے تجارت ، تعلیم اور سائنس جیسے میدانوں میں معاہدے کر لینے چاہیئے اور امریکہ جیسے دور کے دوستوں کو اپنے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے پر مجبور کرنا چاہیئے اور انہیں اپنی مجبوری نہیں بنا لینا چاہیئے۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552518 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.