ایک زما نہ تھا جب ڈاکو جنگلوں اور ویرانوں سے آباد ی
کا رخ کر تے تھے ‘وہ لو گوں کو لو ٹتے ‘ خز انے اور تجو ریا ں خا لی کر تے
اور پھر اپنے انہی مسکن میں دوبارہ چلے جاتے جہاں سے وہ آتے تھے ۔ ڈاکو
کامیاب ڈکیٹی اور بڑا مال ہاتھ آنے پر اس کو خو ب عیاشی میں اڑاتے تھے ‘
ڈاکو اور لٹیرے کی فطر ہی یہی ہو تی ہے دوسروں کا جو ما ل اس کے ہاتھ لگتا
ہے وہ اسے بے دردی سے اڑاتا ہے ۔ ڈاکو جنگلوں ‘پہاڑوں اور ویر انوں سے آتے
‘جاتے اکتا گئے کہ کیا مصیبت ہے ‘ ایک ایک ڈاکے کے لئے کتنی مشقت کر نی
پڑتی ہے طویل سفر کے بعد بعض اوقات ما ل بھی اتنا ہاتھ نہیں آتا ‘ اس سے
اچھا ہے کہ شہر میں رہا ئش اختیار کی جا ئے اور لو گوں کے سامنے شریف بن کر
رہا جائے جب مو قع ملے تو دوسروں کے مال پر ہاتھ صاف گیا جائے ۔شریف پن اور
شر فت کے لبادے کی وجہ سے کسی کو شک بھی نہیں ہو گا کہ یہ تو شریف آدمی ہے
‘ اسی طر ح ڈاکو نے اپنی مستقبل کی حکمت عملی تیار کی اور ایک ڈاکو عام
لوگوں کے سامنینیک اور پاک صاف بن گیا‘ لیکن اصل میں وہ آدمی ڈاکو تھا اور
ڈاکو رہا ۔ یوں ایک ڈاکو ارتقاء کی منازل اپنی ضروریات کو مدے نظر رکھتے ہو
ئے طے کر تاہے جب وہ جنگل اور ویر انے میں تھا تو تب وہ صرف ایک ڈاکو تھا
کیو نکہ اس کا پیشہ لو گوں کو لوٹنا تھا جب وہ آبادی اور شہر میں آیا تو وہ
ایک ڈاکو بھی تھا ساتھ ہی وہ نیک پاک صاف اور شریف آدمی بھیبن گیا ۔
یہ تو ایک انسان کا روپ تھا جواپنے اندر سے اس میں تبدیلی لاتا ہے حالانکہ
کہ ایک ڈاکو اور نیک آدمی میں تب تک فر ق نہیں کیا جاسکتا جب تک وہ شریف
آدمی ڈاکا مارتا رنگے ہاتھوں نہ پکڑا جا ئے ۔ اس لئے بچارے عام لو گ
دھوکاکھا جاتے ہیں ۔لیکن اس ساری صورت حال میں اس کی جسمانی ہیت میں کو ئی
تبدیلی نہیں ہو تی اگر ارتقائی تبدیلی کسی جاند ار میں ہو ئی ہے تو وہ ہے
زرافہ ‘ جس کے بارے میں سا ئنس دان کہتے ہیں اس کی گردن صدیوں پہلے چھو ٹی
تھی ‘ یہ زمین کی سطح پر مو جو دہ تمام چارہ اور سبزہ کھا گیا ‘جب اس نے
سارا کچھ چٹ کر دیا تو یہ او نچے پودوں اور درختوں میں اپنے منہ کو لے جانے
کی کو شش کرتارہا ‘ ایسے گردن اونچی کرتے کر تے ایک دن اس کا منہ اس سبزے
تک پہنچ گیا جس کے لئے وہ کوشش کر رہا تھا تب اس کی ضرورت بھی پوری ہو نے
لگی اور گردن کے سا ئز میں بھی تبدیلی ہو نے لگی ‘ حالانکہ کہ یہ جانور عام
جانوروں جیسا تھا پر گردن بڑی ہو نے کی وجہ سے اس کا ایک تو قد اونچا ہو
گیا جس کا اسے فا ئد ہ یہ ہو ا یہ زمین پے اگے گھاس پر بھی منہ مارتا رہا
اوراونچے درختوں کے پتے بھی کھا جاتا ‘ گردن بڑی ہو نے کا اس کو فا ئدیہ ہو
ا ہے کہ اس کی خوراک کے دو ذریعے بن گئے ‘ ‘ اور ان دونوں ذریعے سے
خوبخوراک کھا کر طاقت ور بن گیا۔ پھر ایک تو وہ طاقتور‘ دوسرا اس کی گردن
اونچی تو ایسا جانور سب کی پہنچ سے دور ‘ ہم میں سے وہ لوگ جو ٹاٹ والے
سکول میں پڑھے ہیں تو انہیں اپنی پرائمر ی کلاس کی اردب کی کتاب میں ایک
سبق زرافے کے بارے میں سبق ہو گا ۔ جس میں اس جانور کے بارے میں بتایا گیا
تھا کہ زرافے کو شر یف جانور کہتے ہیں ‘یہ ایسا جانور ہے جو اپنے کام سے
کام رکھتا ہے جس کے گھاس کھانے کے دوذریعے ہیں یعنی زمین پر اگی گھاس اور
اونچائی پر مو جود پتے ‘اور اسی سبق میں یہ بھی بتایا گیا تھا ‘میں ڈاکو
اور رافے میں مماثلت محسوس کر رہا ہوں کہ دونوں کی نے اپنی فطرت کو نہ بدلہ
اور اپنی عادت کی وجہ سے فرضی تبدیلی گوار کی لیکن پھر بھی زرافہ پتے اور
سبزہ کھاتا رہا پر ڈاکو تو سب کچھ لوٹ کر کھا گئے ہیں ‘ اگر ہم اپنے ارگرد
نظر دوڑا یں تو مسائل کیوں بڑھتے جارہے ہیں ہم ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف
کیوں جارہے ہیں ‘ ملک کو لو ٹنے والے ڈاکوں کو عام آدمی کیوں نہیں پہچان
سکتا ‘ کیونکہ ان سب ڈاکوں نے شرافت کا لبادا اوڑھ رکھا ہے ۔
لیکن یہ صرف ہمارے ملک میں مسئلہ نہیں ایسے اونچی گردنوں والے زرافے ہر
معاشرے اور ملک میں مو جودہ ہیں لیکن یہ اونچی گردن والے کر پٹ زرافے
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کچھ زیادہ ہیں ‘ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں ایک
تو ہم ان کے جھو ٹے لبادے کو پہچان نہیں سکتے یا پھر ان کی گردن اتنی او
نچی ہو چکی ہے کہ ان کی گردن تک کسی کا ہاتھ جا ہی نہیں سکتا ‘ملکی معیشت
قرضوں کے پلستر سے کچھ دیر کے لئے تازہ کی جاتی ہے پر یہ زرافے اسے بھی
اکھاڑ کر کھا جاتے ہیں ہم پھر اس سوراخ کو پر کرنے کے لئے اور قرض لے لیتے
ہیں ۔ہم ملکی نظام کو چلانے کے لئے جی ڈی پی کے 68 فیصد پر قرض لے رہے ہیں
ہم مقر ر ہ حد سے 8 فیصد زیادہ قرض لے چکے ہیں ہمارے اوپر قرض کا بوجھ 80
ارب سے زیادہ ہو چکا ہے ہم ایک طر ف قرض لے کر ملک کا نظام چلا رہے ہیں تو
دوسری طر ف اونچی گردنوں والے کرپٹ عناصر ملکی وسائل کو لو ٹ رہے ہیں یہ
اونچی گردنوں والے اربوں ڈالر ملک سے لو ٹ کر باہر لے گئے ہیں ۔ یہاں حز
انے خالی ہو گئے ہیں اور دوسری طرف ان کو خز انہ رکھنے کی جگہ نہیں مل رہی
‘ ملک کی اکیس کروڑ کے لگ بھگ آبادی میں سے 60 ساٹھ فیصد نو جوانوں پر
مشتمل ہے اور اسی 60 میں سے 37 فیصد بے روز گار ہیں ۔
سعودی عرب کی مثا ل ہمارے سامنے ہے وہاں ایسے کرپٹ لمبی گردنوں والوں کے
گلے میں قانون کارسہ ڈال کر الٹا لٹکا دیا گیا تو ان کی جیبوں سے سارے لو
ٹے ہو ئے سکے ایسے گرے جسیے آسمان سے بارش برستی ہے اور سعودی حکومت نے ان
کو تب تک ان کو لٹکائے رکھا جب تک ملک سے لو ٹی ہو ٹی پا ئی پا ئی وصول
نہیں کر لی گئی ‘ سعودی عرب میں اینٹی کر پشن مہیم کی کے دوران چارسو شہز
دوں کو گرفتار کیا گیا ۔ ان سب کو تب تک نہیں رہا کیا گیا جب تک ملکی
سرمایہ وصول نہیں کیا گیا ‘ ایک اند ازے کے مطابق ان افراد سے 130 ارب ڈالر
وصول کیے گئے ‘ سعودی عرب دنیا کے امیر ترین شخص جو کہ ان کا شہزادہ اور شا
ہی خاند ان کا فرد تھا اسے بھی قید کیا گیا تو کیا ہمارے ملک کے لٹیرے ان
سے زیادہ پاور فل ہیں ‘اب ملک مو جودہ عدالتی فصلوں اور کاروائیوں سیلگتا
ہے وہ وقت آگیا ہے جب جلد ہی اونچی گردنوں والے کرپٹ لوگوں کے گلے میں
قانون کا رسہ ہو گا ‘ ڈاکوں جتنے روپ بدل لے اورزرافہ اپنی گردن جتنی لمبی
کر لے قانون کے ہاتھ سے زیادہ دور نہیں جاسکتے ۔ |