آئیں آج کے اس گئے گزرے دور میں کہ جب ہر طرف معاشرے کے
اخلاقی دیوالیہ پن کا رونا رویا جاتا ہے ، جھوٹ فراڈ ، دھوکہ دہی ،لوٹ مار
،کرپٹ سیاسی نظام،بیروز گاری کی پھیلتی وبا ،اپنے اخلاقی اقدار کو بھولتی
نئی نسل ،دوسروں کے لئے منصف مزاج جج اور اپنے لئے ایک اچھا وکیل بننے کے
بڑھتے رجحان کی ظلمتوں میں سے وہ روشن چراغ اور شب ظلمت میں ٹمٹماتے دیے
تلاش کریں جو ناصرف اہل پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک نمونہ اور مشعل
راہ ہیں ۔
جی ہاں آج ہم نے اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے کہ کیا ہمارا معاشرہ اخلاقی
شکستگی ،نظریاتی گراوٹ اور اپنے اقدار کی تباہی کے دھانے پر ہے اور اب کوئی
واپسی کا راستہ نہی ؟کہیں کوئی ایسااجتماعی یاانفرادی عمل نہیں جس پر ہم
فخر کرسکیں ؟۔
تو آئیں میں آپ کو ملک عزیز پاکستان کے ان اچھے، ہوپ فل ،آئیڈیل پہلووں کی
سیر کرواؤں تاکہ ہم یاسیت اور بے یقینی کے گرداب سے نکلیں ،تاکہ صحراؤں کی
تشنگی لئے سوالات کے جواب ملیں ،تاکہ بنتی ٹوٹتی امید کی کرنوں کے خدوخال
واضح ہوں ، تاکہ حوصلوں کو جلا ملے ،عزموں کو پختگی اورارادوں کو بالیدگی
کی دولت نصیب ہو۔
دوستو! سب سے پہلے ہم پاکستان کا فخر اور غرور افواج پاکستان کا ذکر کریں
گے میجر عزیز بھٹی شہیدؒ اورایم ایم عالمؒ جیسے بہادر سپوت کہاں ہر قوم کے
حصے میں آتے ہیں یہ چند ایک وہ لوگ ہیں جنہیں قوم جانتی ہے ورنہ نجانے کتنے
ملک کی نظریاتی و جغرفیائی سرحدوں کے محافظ اس وطن کی خاطر دوردراز علاقوں
میں شہید ہوئے بلکہ ان کا لہو وہاں گرا ،جہاں کے پہاڑ ،مٹی اور فضائیں بھی
اجنبی تھیں ،پتا نہیں کتنے شہدوں کو اپنوں کے کندھے بھی نصیب نہ ہوئے اور
پتہ نہیں کتنے شہید وں کو کفنایا اور دفنایا نہ جاسکا اور لاکھوں سپوت اب
بھی اپنی جان ہتھیلی پر لئے اس ملک وقوم کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں پر
شہادت کی آرزو لئے پہرہ دے رہے ہیں یہ کون لوگ ہیں یہ ہمارے معاشرے کاحصہ
اور ہمارے معاشرے کا جھومر ہیں۔
اسی طرح آپ باقی شعبوں کو لے لیں تعلیم ،صحت ، کھیل ،جدید ٹیکنالوجی ،سیاست
اور معاشرتی اصلاح کی فکر لئے لاکھوں لوگ اپنی صلاحیتوں اور وسائل کو
بروکار لائے اس ملک و قوم کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں اور اس ملک کا نام
پوری دنیامیں روشن کر رہے ہیں ، حکیم سعید شہید ؒ ،عبدالستار ایدھی ؒ ،ارفع
کریم رندھاواؒ،محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان وغیرہ جیسے ٹیلنٹڈ ،انتھک
اور انمول لوگوں سے یہ معاشرہ بھرا پڑا ہے ۔
الحمد ﷲ ہمارا معاشرہ دنیا کا دوسرے نمبر پر چیریٹی کرنے والا معاشرہ ہے
یعنی محض انسانیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اﷲ کی رضا کی خاطر ضرورت مندوں کی
مدد کرنے والا ہے اس گئے گزرے دور میں بھی آپ کو ہر جگہ کوئی نہ کوئی فرشتہ
صفت انسان ضرور ملے گا جو اپنی ہستی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شوق اور جذبے
سے انسانیت کی خدمت کر رہا ہوگا ، اسی طرح آپ تبلیغی جماعت کو دیکھیں کہ
مذہبی بارود پر کھڑے معاشرے میں نہایت عاجزی و انکساری سے لوگوں کے دلوں کو
دوسروں کے لئے نرم اور زبان کی سختی سے منع کرنے، معاشرتی و اخلاقی برائیوں
کی روک تھام سمیت نیکی کے فروغ کی عملی جدو جہد کر رہی ہے اسی طرح بہت بڑی
این جی او یعنی مدارس دینیہ کو دیکھا جائے تو یہاں غریب معاشرے کے بچوں کو
فری تعلیم و تربیت فراہم کی جاتی ہے بلکہ رہائش ،میڈیکل ،تفریحی سرگرمیاں ،
لانڈری کی سہولت کے ساتھ ساتھ جیب خرچ اور آنے جانے کا کرایہ تک طالب علم
کو فراہم کیا جاتا ہے اور معاشرے میں شرح خواندگی کے اضافے کا یہ مدارس
دینیہ بہت بڑا سبب اور ذریعہ ہیں، اسی طرح فری تعلیم دیتے لاکھوں پرائیویٹ
اسکولز ،بے شمار پرائیویٹ ہسپتال ،لیبارٹریز ، بے آسرا خواتین اور لاوارث
بچوں کے لئے بے شمار چھت فراہم کرنے والے ادارے،مسنگ پرسنز سمیت مختلف
معاشرتی مسائل پر عوام کی آواز بننے اور اس کا حل بتلاتے ہوئے الیکٹرانک
اور پرنٹ میڈیا سے وابستہ اس معاشرے کے لوگ بھی قابل تعریف ہیں یعنی اگر ہم
برے پہلوؤں سے صرف نظر کرتے ہوئے معاشرے کے اچھے پہلوؤں کو دیکھیں تو یہ
بھی کم نہی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں اب بھی 80 فیصد لوگ اپنے بوڑھے والدین ،دادا ،دادی ،نانا
،نانی کو اپنے گھر پر رکھنا اور ان کی خدمت کرنا باعث برکت سمجھتے ہیں ،اسی
طرح ہمارے معاشرے میں یورپ سے کہیں زیادہ عورت کی عزت و تکریم بھی کی جاتی
ہے مگر بدقسمتی سے صرف چند ایک واقعات جس میں خواتین کی بے توقیری کی گئی
ہو ان کو میڈیا پر اتنا بڑھا چڑھا کر بیان کرکے یہ تاثر قائم کیاجاتا ہے کہ
ہمارے معاشرے میں عورت کو جانور سے بھی بد تر سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ صرف
اس معاشرے کا 20یا 30فیصد ہے باقی سارا معاشرہ عورت کو ماں ،بہن اور بیٹی
کے عزت واحترا م والے مناصب پر فائز کرتا ہے،اسی طرح ہسپتالوں میں خون دینے
والوں کی لمبی لمبی لائینیں بتلاتی ہیں کہ اس ملک کا نوجوان جتنا بھی گیا
گزرا کیوں نہ ہو اس کے اندر مجبور لوگوں کے لئے دل ضروردھڑکتا ہے ۔
کیسا لگا دوستو! یہ تو صرف ایک چھوٹی سی کوشش ہے کہ جہاں ہم سارا دن اور
ساری زندگی اپنے پیارے ملک پاکستان اور پاکستانی معاشرے کی برائیاں بیان
کرنے میں صرف کرتے ہیں اگر وہاں ہم اپنے معاشرے کی اچھا ئیاں بیان کریں ،
اچھائیوں کو فروغ دیں ،اچھائیوں کو ڈسکس کریں اور سب سے پہلے خود اچھا بننے
کی کوشش کریں تو میرے خیال میں اس معاشرے کی برائیوں کو ختم ہونے میں دیر
نہیں لگے گی ،دوستو !میرے اس کالم کومیرے تقریباایک سال پہلے لکھے گئے کالم
(پاکستان کی روشن کرنیں )کا دوسرا حصہ سمجھنا چاہئے جس میں راقم نے مطالبہ
کیا تھا کہ ہم سب کو چاہئے کہ سال میں ایک دن ـــ’’برائٹ پاکستان ڈے‘‘ کے
طور پر منایا کریں جس دن پورے میڈیا سمیت ہماری نجی محفلوں میں بھی پاکستان
کی اچھائیوں کو بیان کیا جائے اور مختلف تقریبات منعقد کرکے معاشرتی
اچھائیوں کو فروغ دیا جائے خصوصاً ان لوگوں کو خراج تحسین پیش کیا جائے جو
لوگ اس ملک اور قوم کی خدمت کرتے دنیا فانی سے کوچ کرگئے یا اپنے محدود
وسائل کے باوجود اس ملک و قوم کی خدمت کررہے ہیں ۔ |