داد دینے کا فن

ہر پیدا ہونے والا انسان کچھ خوبیاں رکھتاہے ضروری نہیں ان خوبیوں کا اس کو پتہ بھی ہو ۔ کہ میرے اندر کیا کیا خوبیاں موجود ہیں؟ بہرحال خوبیوں سے خالی کوئی انسان نہیں ہوتا۔بات صرف ان کو جاننے کی ہے۔اگرانسان کو ان خوبیوں کا ادراک ہوگا توہی وہ ان سے فائدہ اٹھا سکتاہے۔اسی طرح انسا ن میں خامیاں بھی پائی جاتی ہیں۔انسا ن اچھاتب ہوتاہے جب اس کی خوبیاں ظاہر ہونے لگتی ہیں۔اور برا تب بنتاہے جب اس کی خامیاں ظاہرہونے لگتی ہیں۔اس قانون کو پتہ نہیں کون سا نام دیا جائے کہ برائی میلوں دور سے ہی ظاہر ہوجاتی ہے یا اپنا آپ دیکھانا شروع ہوجاتی ہے جبکہ اچھائی پاس سے بھی مشکل سے نظر آتی ہے۔ ممکن ہے اچھائی کو چھپ کے رہنا اچھا لگتاہو۔ لیکن اثر اسی شے کا زیادہ ہوتاہے جو نظر زیادہ آتی ہے۔

بعض لوگوں ہر چیز میں سے اچھائی ڈھونڈلیتے ہیں۔اور کچھ اچھائی میں سے برائی کشیدکر لاتے ہیں۔بات تو ظرف کی ہے ۔جس کا ظرف جتنا بلند ہوگا۔اس کی اچھائی محسوس کرنے یا دیکھنے کی صلاحیت اتنی کمال کی ہوگی۔اور اس کے برعکس جس کا ظرف کم ہو گا اسے اچھائی دیکھنے میں دقت پیش آسکتی ہے۔جبکہ برائی بہت جلد دیکھ سکتاہے۔یا بعض اوقات اچھائی بھی اس کے لئے برائی کی صورت ظاہر ہونے لگتی ہے۔ جیسے مجنوں کو ہر طرف لیلیٰ ہی لیلیٰ نظر آتی تھی۔وجہ کہ اس نے لیلیٰ کو اتنا اپنے دل ودماغ پر حاوی کر لیا کہ اس کی یہ کیفیت ہوگئی کہ ہر طرف بس لیلیٰ ہی لیلیٰ۔۔

انسان دوسروں کو دے وہی کچھ سکتاہے جو اس کے پاس ہوگا۔اگر انسان محبت کا سفیر ہے تو محبت اورہمدردی ہی وہ دوسروں میں تقسیم کرے گا۔ کسی کو صرف مسکراہٹ کا تحفہ دینے کو بھی صدقہ کہا گیا ہے۔کسی راستے سے کانٹے یاپتھر کو ہٹا دینا بھی صدقہ اور نیکی بن جاتی ہے۔با ت آجاتی ہے سو چ اور تربیت کی۔ جس ماحول سے ہم آتے ہیں اس کہ اظہار نہ چاہتے ہوئے بھی ہوہی جاتاہے۔ کسی بزرگ سے پوچھا گیا حسد کیاہے؟ بڑا خوبصورت جواب ملا۔ کسی کی خیر وخوبی کا انکار حسد بن جاتاہے جبکہ اس کو تسلیم کر لینا رشک اور کشف بن جاتاہے۔ کسی کی خوبی کو دیکھ لینا ایک کمال کی خوبی ہے اور اس کا اظہار کردینا اس سے بھی بڑی کما ل کی خوبی ہے۔ کسی کو داد دینا ایک خوبی ہے جس سے اس شخص کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جس سے وہ شخص مزید اچھا کرنے کی کوشش کرتاہے۔ لیکن یہ خوبی نجانے کیوں کم ہوتی جارہی ہے۔ ہم لوگوں کی حوصلہ افزائی اس انداز میں نہیں کرسکتے ۔جس اند از میں کرنی چاہیے ۔ کبھی شرم آڑے آجاتی ہے تو کبھی ہمارے اندر کا حسد ہمارا بازو پکڑ لیتاہے کہ خبر دار جو حوصلہ افزائی کی۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کسی کی حوصلہ افزائی سے کہیں ہماری بے عزتی نہ ہوجائے کہ اس کے اند ر فن یہ ہے میرے اند ر کیوں نہیں۔ بھئی کسی کی حوصلہ افزائی بذات خود ایک خوبی اور فن کا نام ہے۔ کرکٹ کے کھلاڑی کو داد دینے کے کرکٹ کی سمجھ ضروری ہے یا کھلاڑی ہونا ضروری ہے ۔

ہمیں چاہیے کچھ اچھا ہوتا دیکھیں تو اس کی تعریف ضرور کریں اور اس انداز میں کریں کہ اچھائی کرنے والے کو اور زیادہ حوصلہ ملے ۔ اس کے اند ر ایک نیا جذبہ پید ا ہو اس کا م کو مزید اچھاکرنے کا اس کام کودوسرں کوسکھانے کا دوسروں تک پھیلانے کا۔کسی کی حوصلہ افزائی کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کی بہت ضرورت ہے اس سے ہمارا کچھ جائے گا نہیں لیکن اس سے اچھائی ضرور پھیلے گی۔اس کے ثمرات ضرور ہمارے معاشرے ظاہر ہونگے۔انشاء اﷲ۔ لیکن حوصلہ افزائی اور خوشا مد میں فر ق ضرو ر ہونا چاہیے۔جہاں حوصلہ افزائی ضروری وہاں خوشامد سے اپنا دامن بچانا بھی ضروری ہے کیونکہ خوشامد سے کئی بگاڑ بھی پید ا ہوسکتے ہیں۔

اس امید کے ساتھ اختتام کرتے ہیں کہ دوسروں کی حوصلہ افزائی اور داد دینے کا جذ بہ اور فن اپنے اندر ضرور پیدا کرنے کی کوشش کریں گے انشاء اﷲ۔ اور ان کرنوں کو دوسروں تک پہچانے کی کوشش بھی ضرور کریں گے۔ آج جہاں صرف اور صرف تنقید اور نفرتوں کے شعلے ہمارے معاشرے کو نگل رہے ۔ وہاں چند بوندیں ایسی بھی تو ہونی چاہیں جو اس کی حدت اور شدت کو کچھ کم کر سکیں۔ ہم اپنے حصے کی شمع تو جلائیں۔اﷲ کریم ہماری چھوٹی چھوٹی کاوشوں کو قبول فرمائے۔اﷲ کریم آسانیاں عطا کرے اور آسانیاں تقسیم کرنے کاشرف عطا فرمائے۔ امین

MUHAMMAD IMRAN ZAFAR
About the Author: MUHAMMAD IMRAN ZAFAR Read More Articles by MUHAMMAD IMRAN ZAFAR: 29 Articles with 38076 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.