گزشتہ روز ایک پوسٹ نظر سے گزری پوسٹ کےبیک گراونڈ میں
چند حوّا کی باپردہ بیٹیاں تنگ ہو کر رکشہ کی عقبی سیٹ پر بیٹھی تھیں کسی
منچلے نے اپنی تربیت کے زیراثر انکی اس مجبوری و بے بسی کو اپنے موبائل کے
کیمرہ میں محفوظ کیا اور پھر انٹرنیٹ کی نظر کردیا جہاں سےاسی قماش کے ایک
اور نوجوان نےاس تصویر کو ڈاونلوڈ کیااور اس پر جلی حروف میں ایک تحریر
لکھی جو ہمارے معاشرے کے منہ پر ایک طمانچہ اور ہمارے لیے ایک سوالیہ نشان
ہے وہ تحریر چیخ چیخ کر حوّا کی بیٹیوں کے اس طرح تماشا بننے پر بین کررہی
تھی افسوس صد افسوس کہ سوشل میڈیا پر ایسی ہی تحریریں اور تصویریں وائرل
ہوا کرتی ہیں ایک فیملی گروپ میں ایک نوجوان نے اس تصویر کو شئیر کیا جس پر
تحریر تھا۔۔۔
رکشے پر تو پھنس پھنس کر بیٹھ جاتی ہو۔۔۔
ہمارے ساتھ پھنستے موت پڑتی ہے۔۔۔۔۔
تحریر پر کمنٹس دیے جارہے تھے کوئی اپنی ہی بہنوں کے اس طرح مذاق بننے پر
ہنس رہا ہے تو کوئی نوجوان کو نصیحت کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ فیملی گروپ
میں ایسی پوسٹ نہیں کرنی چاہیئے گویا فیملی گروپس کے علاوہ جہاں دل چاہے ان
بہنوں کی اس مجبوری و بے بسی کا مذاق اڑاتے ہوئے ان کی عزتوں کو تار تار
کرو۔نوجوان بھی تمام لائکس اور کمنٹس اپنا آبائی حق سمجھ کر بہت فخر کے
ساتھ وصول کررہا تھامیں نے کمینٹ میں صرف اتنا لکھا کہ بھائی اپنی بہنوں کے
بارے میں کیا خیال ہے میرا یہ کمنٹ دیکھتے ہی نوجوان کو ساری تہذیب ، اخلاق
اور غیرت سب کچھ ایک ساتھ یاد آیا جوابی کمینٹ غصّے سے بھرپور اور پوسٹ
لگانے کی وجہ کے ساتھ یہ تھا اپنی حد میں رہ کر بات کرو یہ پوسٹ صرف مذاق
کیلئے تھی اور اس میں لڑکیوں کے چہرے بھی نظر نہیں آرہے۔۔۔
اور اس کے ساتھ ہی پوسٹ بھی ڈیلیٹ ہوگئی کیوں کہ اس پوسٹ کے نیچے کسی گمنام
سے کمینٹ میں اس کی بہن کا صرف ذکر آیا تھا۔
اور میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ یہاں بھی تو چہرہ نہیں تھا تو غیرت صرف
یہاں کیوں۔۔؟ |