پیارو محبت فطری تقاضے ہیں ان سے کسی کو انکار نہیں ہے
لیکن اگر یہ جسمانی اور جنسی تشدد میں بدل جائیں تو یہ کسی طرح بھی تعریف
کے لائق نہیں رہتے گذشتہ دنوں دو معروف اداکارو گلو کار اور اداکارہ و
گلوکارہ کے درمیان ایک خبر شائع ہوئی جس میں میشا شفیع نے الزام عائد کیا
کہ گلوکار و اداکار علی ظفر اسے جنسی طور پر ہراساں کرتا ہے یقیناً اگر
ایسا کیا گیا ہے تو یہ قابل شرم بات ہے اور اگر یہ محض الزام ہے تو اس کی
بھی مکمل چھان بین ہوناضروری ہے تا کہ آئیندہ کوئی کسی کی عزت سے نہ کھیل
سکے شوبز میں خواتین کے ساتھ ایسا ہوتا چلا آیا ہے اس کے علاوہ بھی خواتین
کے ساتھ ڈیوٹی کے دوران بھی انہیں جنسی ہراساں کیا جاتا ہے اس کی شکایات
کئی بار خواتین کر چکی ہیں اور یہ خبریں اخبارات کی زینت بھی بن چکی ہیں
مرد کے طاقتور ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ جسے چاہے اپنی ہوس کا
نشانہ بنا لے اسلام ہمیں ہر عورت کی عزت کا درس دیتا ہے خواتین کو بھی
چاہیئے کہ وہ اپنی عزت کا خود خیال رکھیں اور مرد کے ساتھ اتنے ہی مراسم
بڑھائے جائیں جو ضرورت سے زیادہ نہ ہوں یعنی کام کے وقت کام اور کام کے بعد
واپس گھر کی راہ لیں اس کے ساتھ کھانا کھانا ،گھومنا پھرنا ،اس سے فری ہو
کر بات کرنا یہ تمام معاملات جنسی ہراسگی کا سبب بنتے ہیں ہمیں اپنے دائرہ
کار سے باہر ہر گز نہیں نکلنا چاہیئے ہر عورت کو جو باہر جا کر کام کرتی
ہیں انہیں اپنی اور اپنے گھر والوں کی عزت کا خیال رکھنا چاہیئے اس کے
علاوہ گھر سے باہر جانے والی خواتین اپنے لباس پر بھی خصوصی توجہ دیں ہر گز
ایسا لباس نہ پہنیں جس وہ نیم عریاں نظر آئیں کیونکہ ایسا لباس مردوں کے
جذبات کو ابھارتا ہے اس لئے ایسا لباس پہننے سے اجتناب کیا جائے تو بہتر ہے
آج کے دور میں خواتین کے علاوہ بچے بھی جنسی طور پر نہ صرف استعمال ہو رہے
ہیں بلکہ انہیں قتل بھی کر دیا جاتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے میں
بگاڑ پیدا ہو چکا ہے ہم سب کا فرض ہے کہ معاشرے کی بہتری کے لئے اپنی اپنی
جگہ مل کر کام کریں تا کہ معاشرے میں خواتین اور بچوں کی عزت کا بھرم رہ
سکے ہمیں ایسی فلمیں اور ڈرامے بنانے کی ضرورت ہے جس سے معاشرے کی اصلاح ہو
سکے نہ کہ ایسے ڈرامے بنائے جائیں جو معاشرے کے بگاڑ کا سبب بن جائیں ہم
یقیناً پیسے کی دوڑ میں اپنی پٹری سے اتر چکے ہیں ہمیں واپس اپنی نسل نو کی
تربیت کرنی ہو گی ہمیں مادر پدر آزادی سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا ورنہ
ہماری مائیں ،بہنیں اور بیٹیاں یوں ہی سر عام رسوا ہوتی رہیں گی والدین کے
فرض میں شامل ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اسلام کے مطابق تربیت کریں اور جب وہ
گھر سے باہر جائیں تو ان پرنظر رکھیں اور ضرور دیکھیں کہ وہ کس سے ملتے ہیں
اور ان کے دوستوں میں کس قسم کے لوگ شامل ہیں والدین کے لئے یہ جاننا
انتہائی ضروری ہے اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو پھر آپ اپنے بچوں کو الزام نہیں
دے سکتے اگر دیکھا جائے تو اس وقت ہمارے ملک کی نصف سے بھی زیادہ آبادی
خواتین پر مشتمل ہے جو مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں جو خوش آئیند
بات ہے لیکن افسوس کہ ان کی حوصلہ افزائی کی بجائے ہم انہیں جنسی ہراساں
کرتے ہیں جس سے کئی خواتین ذہنی کوفت کا شکار رہتی ہیں اور اپنی عزت کی
خاطر کسی سے بات بھی نہیں کرتیں لیکن اب ایسا ہر گز نہیں ہے اگر خواتین کے
ساتھ ان کے کام والی جگہ پر چاہے وہ دفاتر ہوں ،اسکول ہوں،فیکٹری ہو یا
ہسپتال ہوں قانون موجود ہے اس لئے خواتین اب ڈرنے کی بجائے اس قانون کا
سہارا ضرور لیں کیونکہ جب تک کسی کو سزا نہیں ہو گی تب تک یہ جنسی طور پر
ہراساں ہوتی رہیں گی ماہر قانون کے مطابق جنسی ہراساں کرنا جرم ہے اور
پاکستان میں اس جرم کی سزا بھی موجود ہے اس میں قید اور جرمانہ دونوں ہو
سکتے ہیں اس میں کم از کم تین سال قید اور پانچ لاکھ تک جرمانہ ہو سکتا ہے
اس قانون کے مطابق فحش حرکات کرنا،آوازیں کسنایا کسی طرح سے بھی خواتین کو
پریشان کرنا شامل ہے ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ قانون کی پاسداری نہیں ہے
قانون تو بن جاتے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد ممکن نہیں ہوتا یہاں طاقتور کے
لئے اور قانون ہے اور کمزور کے لئے اور قانون ہے شاید اسی لئے لوگ عدالتوں
کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتے ویسے بھی جس ملک میں انصاف دیر سے ملتا ہو اور
مہنگا ہو وہاں لوگ اس سے دور رہنا ہی پسند کرتے ہیں لیکن ایسا ہونا نہیں
چاہیئے آج کل ہمارے چیف جسٹس صاحب فل ایکشن میں ہیں اﷲ کرے کہ انہیں اس میں
کامیابی نصیب ہو اور ہمارے ملک میں بھی انصاف کا بول بالا ہو کیونکہ انصاف
سے ہی جرائم پر قابو پایا جا سکتا ہے اور انصاف سے ہی ملک میں امن و امان
قائم رہ سکتا ہے خواتین کی راہنمائی کے لئے جس اداراے میں وہ کام کرتی ہیں
وہاں ایک ایسا شعبہ بھی بنایا جا سکتا ہے جس میں خواتین اپنی شکایات درج
کروا سکیں تا کہ معاملہ زیادہ خرابی کی جانب نہ جائے اور اس کا حل فوری کر
لیا جائے اور اگر پھر بھی کوئی خواتین کو ہراساں کرتا ہے تو اس کے خلاف بھر
پور ایکشن لیا جائے تا کہ وہ اپنے انجام کو پہنچ جائے لیکن اس قانون کا ہر
گز غلط استعمال نہ کیا جائے اگر اس کا غلط استعمال ہوتا ہے تو وہی سزا اس
خاتون کو دی جائے جس نے غلط الزام لگایا ہو تا کہ انصاف کا بول بالا ہو اور
کوئی بھی قانون کی آڑ میں اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔ |