"اور تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جهٹلاو گے."
سوره رحمان کی زینت اور خوبصورتی کے کیا کہنے. اللہ سبحان تعالٰی مخاطب ہے
ہم سے اپنی بے شمار عطا کردہ نعمتوں کا ذکر ہم سے فرمارہا ہے. کیا ہم کبھی
اس کی دی ہوئی نعمتوں کو شمار بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟
نہیں! ہم ہر وقت ایک عجلت پسندی کا شکار ہیں. اک ناامیدی اور کفران نعت کا
شکار ہیں. جونعمت موجود ہے اس سے نابلد ہیں اور جو میسرنہیں ہے اس کی آرزو
پریشان کیے ہوئے ہے. کل شب میرا خیال ایک اور بڑی نعمت خداوندی کی طرف مڑ
گیا اور پیشانی احسان مندی کے خیال سے عرق ریز ہوگئی. دنیا میں ہم میں سے
ہر شخص کتنے رشتوں کا سکه دیکھتا ہے. آنکھ کھولتے ہی ماں باپ، دادا،
دادی،نانا ،نانی غرض رشتوں کی ایک لمبی زنجیر میں ہم پروئے ہوتے ہیں. عمر
کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہمارے رشتے multiply ہو جاتے ہیں. ہم کسی کی بیوی،
میاں،بہو، داماد،نند،دیور پهر آخر کار ماں باپ بھی بن جاتے ہیں.
کیا ہم سب ان رشتوں کے لیے اپنے رب کا شکر ادا کرپاتے پیں. آج کل کی دنیا
میں ان رشتوں کے بیچ اک تناو سا آگیا ہے. ماں باپ اولاد سے نالاں ہیں تو
بچے والدین اور بزرگوں کی شکایات کرتے نظر آتے ہیں. ساس مرتے مر جاتی ہے
مگر بہو کو بیٹی تو دور بہو کا بھی درجہ نہیں دے پاتی. نندیں بهابهیوں سے
نالاں ہیں تو بهابهیوں کا دل بھی ان کی طرف سے خراب ہے. میاں بیوی کے
درمیان ناچاقی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور اس کا اکثر اوقات اختتام طلاق پر
ہوتا ہے. سب رشتوں کے بیچ ایک تناو سا نظر آتا ہے .خاندان کی اکائی انتشار
کا شکار ہے. رواداری، بردباری، محبت، برداشت جیسے اوصاف ناپید ہوتے جارہے
ہیں.
ان تمام مسائل کا سبب صرف اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ والہ وسلم کے
احکامات سے دوری اور ناشکری ہے. اگر ہم میں سے ہر شخص ان رشتوں کی نعمت کو
نہ صرف تسلیم کرئے بلکہ ان کو ایمانداری سے ان کا جائز حق اور رتبہ بھی دے
تو یہ فساد خود بخود ختم ہوجائے گا. اللہ تبارک و تعالٰی قرآن پاک میں
فرماتے ہیں.
بُدُواْ اللّهَ وَلاَ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ
إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ
ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ
السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ مَن
كَانَ مُخْتَالاً فَخُورًاO
(القرآن، النساء، 4 : 36)
”اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں
باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور
نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم
مالک ہوچکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)، بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا
جو تکبر کرنے والا (مغرور) فخر کرنیوالا (خودبین) ہوo“
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ہم قرآن پاک کے احکامات پر عمل پیرا ہیں ؟
اس کا جواب صرف یہی ہے کہ کسی معاشرے میں بگاڑ ممکن ہی نہیں اگر اس کے رہنے
والوں نے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کو تھاما ہوا ہو غرض اے
دوستوں اپنی نعمتوں کو شمار کرنے کی کوشش کیجیے اور اللہ کی ان نعمتوں کو
جھٹلانے کے بجائے شکرگزار ہونا سیکھ جائیے. زندگی گلزار ہوجائے گی.
|