سب سے پہلے اپنے تمام قارئین سے معذرت کہ ایک طویل عرصے
کے بعد آپکی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ۔میری اتنی طویل غیر حاضری ایک تو بزنس
کرائسزکی وجہ سے اور دوسرا غالب کے مشہور شعر کے مصرعہ کہ" ورنہ آدمی ہم
بھی تھے کام کے " پر پوری توانائی کے ساتھ پورا اترتا ہے۔مزید یہ بھی کہہ
لیجئے کہ سستی اور کاہلی کی وجہ سے اپنا وقت صحیح طرح سے استعمال نہیں
کرسکا اور آج اسی عنوان کے ساتھ حاضر خدمت ہوں کہ وقت کے صحیح استعمال نہ
کرنے سے انسان مسائل کا شکار ہوتا ہے۔ یقینا میری اس طویل غیر حاضری کو نظر
انداز کر کے مجھے معاف کریں گے۔ ان شاء اﷲ اب گاہے بگاہے تحریری ملاقات کا
سلسلہ جاری رہے گا۔
قارئین صحیح وقت پر صحیح فیصلے نہ کرنے اور وقت کو منیج نہ کرنے والے لوگ
ہمیشہ سختیِ حالات کا شکار رہتے ہیں ۔انکی مثال اس تنکے کے جیسی ہوتی ہے جو
دریا کی موجوں کے ساتھ بہتا رہتا ہے اور یہ دریا کی مرضی ہوتی ہے کہ کب اسے
کنارے پر پھینکے اور کب پھر سے کسی لہر کے ساتھ اٹھاکر دوبارہ حالات کی
موجوں کے حوالے کردے۔ ایسے لوگ ہمیشہ اپنے اسلاف کے قصے کہانیوں اور بہادری
کی داستانوں کے زعم میں اپنا مستقبل تاریک کر بیٹھتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ
ہمارے آباو اجداد نے شجاعت کی وہ وہ مثالیں قائم کیں کہ دنیا عش عش کر
اٹھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انکی اس شجاعت کی بنیاد پر انہیں عزت بھی
ملی، اختیار بھی ملا اور مقام بھی مگر آج دنیا بہت ترقی کر چکی ہے۔ اب عظمت
رفتہ کی کہانیاں محض قصے کہانیاں رہ گئی ہیں۔ آج دنیا میں وہی شخص کامیاب
ہے جو وقت کی قدر کرتا ہے۔ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے کہیں زیادہ حالات
اور معاشرے کی غلطیوں سے سبق حاصل کر تا اور عملی طور پر ڈیلیور کرتا ہے۔
آج وہ وقت نہیں رہا کہ باپ گاؤں کا نمبر دار تو بیٹا اور پوتا بھی نمبر
داری کی زندگی گزارتے تھے۔ اب دنیا کا سسٹم تبدیل ہو چکا ہے۔ انسان زمین سے
سفر کرتا ہوا چاند پر پہنچا اور نظام شمسی کے دوسرے سیاروں پر بھی کمندیں
ڈال رہاہے بلکہ سیاروں سے بھی آگے نکل کر گلیکسیز، کلسٹر اور سپر کلسٹر میں
جھانک رہاہے۔ دنیا بلیک ہو ل کے رازجاننے کی کھوج میں ہے اور وارم ہول کے
لئے انرجی پروڈیوس کرنے کی پلاننگ کر رہی ہے۔ آج وہ زمانہ نہیں رہا کہ جب
ایک کسب کو اپنانے والے لوگوں کو نائی، موچی ،تیلی یاکمہار کا نام دے کر
انہیں نیچ ذات سمجھا جاتا تھا۔ آج دنیا نے تعلیم کیساتھ شعور حاصل کر لیا
ہے اور یہ سمجھ لیا ہے کہ دنیا میں کوئی کمتر ہے نہ کوئی برتر۔ اگر کمتر ہے
تو انسان کی سوچ ہے اور برتر ہے تو بھی انسان ہی کی سوچ ہے ورنہ اﷲ نے تمام
انسانوں کو ایک جیسا اور برابری کی بنیاد پر پیدا کیا ہے۔ دنیا آج یہ بھی
سمجھ چکی کہ اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنے والے ہی چاند ستاروں پر کمندیں ڈال
سکتے ہیں ورنہ بے پر کے شاہین ہی رہتے ہیں جو کرگس کو اڑتا دیکھ کر یہی
کہتے ہیں کہ شاہین کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور۔ دوسرے الفاظ میں انگور
کھٹے ہیں۔ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ ہمارے نوجوان تعلیم یافتہ ہونے کے
باوجود تہذیب یافتہ نہیں ہیں۔ تربیت کا فقدان اس لئے بھی ہے کہ گھر اور
سکول دونوں علم سے خالی ہو چکے ہیں ۔سکول ڈگریوں کے حصول کا پرنٹنگ پریس
اور گھر نفرتوں ،کدورتوں ،دکھاوے اور دشمنی کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔ ایسے
میں ہم ایک ایسی فوج تیار کر رہے ہیں جن کے پاس ڈگری تو ہے لیکن علم نہیں۔
تعلیم توہے لیکن ہنر نہیں۔ ذرائع تو ہیں لیکن استعمال کرنے کا طریقہ نہیں۔
اور جنہیں ذرائع استعمال کرنے کا طریقہ آتاہے وہ اجارہ داری قائم کئے بیٹھے
ہیں اور نالائق اور جاہل ترین لوگوں کو اداروں کی کمان تھما رہے ہیں جو
اداروں کے ساتھ ملک اور معاشرے دونوں کا ستیاناس کر رہے ہیں۔نیو یارک میں
1924 میں پارکنگ پلازے تیار کرنے کا پلان بنا اور اس پر عمل درآمد شروع ہوا
جبکہ 1924 میں پورے نیو یارک شہر میں 25 گاڑیا ں تھیں۔ انہوں نے سو سال بعد
کی سوچ رکھ کر انفراسٹرکچر بنایا اور تعلیمی نظام کو یکساں بنا کر ایک
باشعور قوم پیدا کی جس نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔
جبکہ ہم آج بھی سو سال پیچھے کی سوچتے ہیں کہ کوئی محمد بن قاسم آئے گا اور
ہمیں مشکل سے نکالے گا ،یا کوئی سلطان محمود غزنوی آئے گا اور ہمارے حالات
درست کرے گا۔ تو عرض یوں ہے کہ اب نہ کسی محمد بن قاسم نے آنا ہے نہ ہی کسی
سلطان محمود غزنوی نے آنا ہے۔ اب دنیا ہر بندے کے ہاتھ کی دس انگلیوں کے
نیچے آ چکی ہے جو اس کا صحیح استعمال جان گئے وہ آگے نکلتے جائیں گے اور جو
سوشل میڈیا پر جعلی اکاؤنٹ بنا بنا کر ایک دوسرے کو گالیاں دیتے رہیں گے وہ
مزید سو سال اسی کام میں گزاریں گے۔ انکی دو نسلیں اپنے آباو اجداد کا ایک
دوسرے سے بدلہ لیں گی ۔جب تک دنیا مزید دو چار سو سال آگے نکل چکی ہو گی۔
کھوکھلے نعروں اور جعلی غیرت کے خول سے باہر نکل کر اور تعصب کی عینک اتار
کر معاشرے کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ برادری ازم اور قبیلاائی تقسیم نے ہمارے
دماغ منجمد کر دئیے ہیں جو برادری اور قبیلے سے آگے کچھ سوچتے ہی نہیں۔ یہی
سب سے بڑی وجہ ہے جو ہمیں تباہ کر رہی ہے جبکہ اﷲ تعالی نے خود قرآن مجید
کے اندر حکم دیا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ،بیمار کی عیادت
کرو ،بھوکے کو کھانا کھلاؤ، یتیموں کے سر پر دست شفقت رکھو، بیواؤں کے نکاح
کا بندو بست کرو ،پڑوس کا خیال رکھو اگر پڑوسی بھوکا سویا تو قیامت کے دن
سوال ہو گا ،مساکین کے لئے کھانے کا بندوبست کرو ،ظالم کا ہاتھ روکو اورر
مظلوم کا سہارہ بنو جبکہ ہمارے معاشرے میں الٹی گنگا بہتی ہے ہم قرآن کو
تلاوت اور دم درود کے لئے استعمال کرتے ہیں اور اس کے احکامات کے منافی کام
کرتے ہیں۔ ہم دوسروں کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کے بجائے رعب قائم کرنیکی
کوشش کرتے ہیں۔ بیمار کی عیادت تو دور اس کے ساتھ ہمدردی کے دو بول بولنے
سے بھی کتراتے ہیں۔ بھوکے کو کھانا کھلانا تو درکنار اسے جھڑک کر دور کرتے
ہیں ۔یتیموں کے سر پر دست شفقت رکھنا تو کجا انکا مال ہڑپ کرنے کی تاک میں
رہتے ہیں ۔پیچھے رہ گئی بیوہ عورتیں ،رشتے دار اور مساکین ،تووہ ہماری کسی
لسٹ میں آتے ہی نہیں۔ مظلوم کی دادرسی کرنے کے بجائے الٹا ظالموں اور
جابروں کو اقتدار سونپتے ہیں اور رج کے جوتے کھاتے ہیں لیکن سدھرتے پھر بھی
نہیں کہ برادری،قبیلہ اور اونچی ناک جعلی غیرت اور کھوکھلی عزت ہمیں پیاری
ہے ۔خدا راہ اب تو ہوش کے ناخن لو ،اپنی نسلوں کو بربادی کی گہری کھائی میں
نہ دھکیلو۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور یہ وقت پھر کبھی لوٹ کر واپس نہیں
آئے گا۔ آ ج ٹیکنالوجی کے اس دور میں گلوبل ویلج میں رہتے ہوئے بھی اگر کچھ
نہ سیکھا تو آنے والی نسلیں لعن طعن کرتی رہیں گی ۔وہ آپ کی بہادری اور
غیرت کے قصے نہیں سنائیں گی بلکہ یہ سوچیں گی کہ اﷲ پاک نے ہمارے آباو
اجداد کو جس مقصد کے لئے دنیا میں بھیجا تھا خود تو اس پر پورا نہیں اتر
سکے الٹا ہمیں ذلت و رسوائی خاندانی جاگیر کے طور پر سونپ گئے۔ اگر کوئی اس
بات پر شک کرے تو جائے اور جا کر رنگون کی گلیوں میں بھیک مانگتے مغل
خاندان کے لوگوں کو دیکھے۔ اور دیکھے کہ کس طرح بہادر شاہ ظفر کے رشتے دار
اور مغل خاندان کے سپوت رسوا ہو رہے ہیں۔ جائے اور جا کر دیکھے کہ ہندوستان
پر تین صدیوں تک راج کرنے والوں کا خاندان کس بے کسی اور کسمپری کی زندگی
گزار رہا ہے۔ وہ عظمت رفتہ کی کہانیاں تو سناتے ہیں لیکن ذلت و رسوائی انکا
مقدر بن چکی ہے۔ ہر خاندان اور قبیلے کے نوجوان اپنی عقل کو ہاتھ ماریں اور
برادری ازم وقبیلائی تقسیم کے اس گندے اور غلیظ کھیل سے نکل کر برابری اور
انسانیت کی بنیاد پر آگے بڑھیں۔وقت کو منیج کریں اور ڈگری کے ساتھ علم حاصل
کریں ۔ڈگری صرف کاغذ کا ٹکڑا ہے علم اور ہنر کے بغیر اس کی کوئی وقعت نہیں۔
اور تہذیب ،ادب اور تربیت کے بغیر کوئی شخصیت باوقار نہیں بس کھوکھلی عزت
اور غیرت ہے، کھوکھلے نعرے ہیں اور کھوکھلی کہانیاں ہیں۔اٹھیں اور نکلیں
اپنی ایک بامقصد زندگی گزارنے کی جدوجہد کریں۔ سرکاری نوکری سے صرف رشوت
اور حرام کی کمائی ہو سکتی ہے باقی کچھ نہیں۔ اپنا کاروبار کریں ہنر سیکھیں
،کوئی چنے سبزی یا فروٹ کی ریڑھی لگا لیں لیکن کچھ کریں۔ سیاستدانوں کے
آسرے پر اپنی جوانی اور اپنی زندگی ضائع نہ کریں ۔ چالیس لاکھ کی آبادی میں
چند اداروں کے اندر کتنے لوگ ملازمت اختیار کر لیں گے۔اپنی زندگی کو بامقصد
بنائیں اور اپنی منزل کا تعین کر کے گھر سے نکلیں تا کہ آنے والے وقتوں میں
زندگی بھی آسان ہو سکے اور معاشرے کے اندر آپکا کردار بھی نمایاں ہو سکے۔
اﷲ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ |