یکم مئی یعنی یومِ مزدور، اس روز کو یومِ مزدور کے عنوان
سے منانے کا آغاز ۱۸۸۶سے ہوا، یہ دن امریکہ کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کی
یاد کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے مزدوروں سے اظہار یکجہتی کے طور پر منایا
جاتا ہے۔تاریخ حقائق کے مطابق صنعتی انقلاب نے امیر اور غریب کے درمیان
فاصلے کو بہت بڑھا دیا تھا، ،مزدوروں سے بے تحاشا کام لیا جاتا تھا، جس پر
مزدوروں نے شکاگو میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا ، مظاہرے میں یہ مطالبہ کیا
گیا کہ مزدوروں سے کام لینے کی مدت کو آٹھ گھنٹے تک محدود کیا جائے،
سرمایہ داروں کی ترجمان حکومت نے مزدور تحریک کو کچلنے کے لئے پولیس سے
اندھا دھند فائرنگ کروائی جس سے سینکڑوں مزدور ہلاک اور زخمی ہوئے اور بہت
سارے مزدوروں کو گرفتار کر کے پھانسی دی گئی۔
اس کے بعد ہر سال کو یکم مئی کے روز یومِ مزدور منایا جاتا ہے، وہ ۱۸۸۶ کا
امریکہ تھا اور آج ۲۰۱۸ ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ طبقے نے اپنے
طریقہ واردات کو بدلا اور پوری دنیا کو اپنا مزدور بنا کر رکھ لیا۔ قدیم
مزدور اس حوالے سے خوش قسمت تھے کہ وہ جانتے تھے کہ کس کی مزدوری کر رہے
ہیں جبکہ عصرِ حاضر کے مزدوروں کو یہ بھی شعور نہیں کہ وہ کس کے مزدور ہیں۔
بے شک آج کا مزدور آٹھ گھنٹے ہی کام کرتا ہے لیکن اس کے صلے میں اسے صرف
اتنی ہی اجرت دی جاتی ہے کہ وہ بمشکل اپنا پیٹ پال سکے اور اپنے تن کو
ڈھانک سکے، پہلے سرمایہ دارای بطورِ نظریہ چند ممالک تک محدود تھی آج
ہمارے سماج کا حصہ بن چکی ہے ، آج جو جتنا سرمایہ دار ہے وہ اتنا ہی بے
رحم، ظالم اور سفاک ہے، اس ظلم اور سفاکیت کا نتیجہ یہ ہے کہ امیر اور غریب
کے درمیان ماضی کی طرح آج بھی ایک گہری اور وسیع خلیج حائل ہے۔ بہت سارے
ایسے سفید پوش بھی ہیں جو اپنی جھوٹی نمود و نمائش کے ذریعے اپنے آپ
کوسرمایہ داروں کی صف میں شامل کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں لیکن در حقیقت
جو سرمایہ دار ہیں انہوں نے عوام کو اپنا مکمل مزدور بنایا ہوا ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک غریب ملک کے حکمران ارب پتی ہیں، لوگ ایک
انجکشن کی قیمت ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں جبکہ حکمران اپنے
علاج کے لئے بیرونِ ملک تشریف لے جاتے ہیں، عام آدمی کےلئے اور ایک سرمایہ
دار کے بچے کے لئے تعلیمی نظام مکمل جداگانہ ہے۔عام آدمی کو پینے کا صاف
پانی میسر نہیں اور سرمایہ دار منرل واٹر سے نہاتے ہیں۔۔۔
اب اس دور میں ہمیں مزدور ہونے کے جدید معنی کو سمجھنا ہوگا، آج ہروہ شخص
مزدور ہے اور اس کے حقوق کا استحصال ہورہا ہے جس کے لئے معیاری تعلیم کا
بندوبست نہیں، اس کی غیر معیاری تعلیم ہونے کے باعث اس کے لئے اچھے روزگار
کے مواقع میسر نہیں اور اچھا روزگار نہ ملنے کی وجہ سے وہ شدید محنت کے
باوجود قلیل آمدن پر گزاراہ کرتا ہے اور بمشکل اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتا
ہے۔جسکے پاس محنت کے باوجود علاج کے لئے پیسے نہیں اور پینے کا صاف پانی
میسر نہیں وہ یقینا جدید سرمایہ کاروں کا مزدور ہے۔
جدید سرمایہ کاروں نے صرف قلیل تنخواہ کے ذریعے ہی لوگوں کا استحصال نہیں
کیا بلکہ دینی مقدسات کے نام پر بھی لوگوں کو خصوصاً مسلمانوں کو اپنے
مزدوروں کے طور پر استعمال کیا ہے۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے انکار نہیں کیاجا سکتا کہ ۱۸۸۶ میں شکاگو
میں گولیاں چلوانے والے امریکہ نے آج پوری دنیا میں بارود اور جنگوں کا
جال بچھا رکھا ہے، داعش، القاعدہ، طالبان، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ سب اسی
کے مزدور ہیں، پاکستان و افغانستان کے مسلمانوں کے بعض دینی مدارس کو ان
مزدوروں کی ٹریننگ کے لئے استعمال کیا گیا اور آج یہ مزدور پوری دنیا میں
امریکی مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں، انہوں نے دنیا بھر میں ہنستے بستے اسلامی
ممالک کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا ہےاور اب انہی کے نام سے امریکہ دیگر
ممالک کو ڈرا ڈرا کر اپنا اسلحہ فروخت کررہا ہے۔
مسلمان جوانوں کو اسلحہ بردار مزدور بنانا یہ جدید سرمایہ دارانہ نظام کی
بدترین چال ہے۔ آج یمن، بحرین، شام، عراق اور افغانستان کا حال ہمارے
سامنے ہے، یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کا منصوبہ ہے کہ اپنے مزدوروں سے
مسلمان ممالک کو تباہ کرو اور پھر اپنی کمپنیوں کے ذریعے ان ممالک کی
تعمیرِ نو کے نام پر سرمایہ بناو۔
اب یومِ مزدور کے موقع پر جہاں مزدوروں کے دیگر حقوق کے لئے آواز اٹھنی
چاہیے وہیں مسلمان جوانوں کو اسلحہ بردار مزدور بنانے کے خلاف بھی آواز
بلند ہونی چاہیے۔یقینا وہ دینی مدارس اور سیاستدان قومی مجرم ہیں جن کی وجہ
سے مسلمان نسل سرمایہ داروں کی مزدور بنی، ایسے علما، مدارس اور شخصیات کے
خلاف یومِ مزدور کے موقع پر ضرور صدا بلند ہونی چاہیے جنہوں نے سرمایہ
داروں کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے امت مسلمہ کے جوانوں کو سرمایہ
داروں کا مزدور بنایا۔
یہ حالات اور وقت کا تقاضا ہےکہ ہم سرمایہ دارانہ نظام کے قدیم جرائم کے
ساتھ ساتھ جدید جرائم کے بارے میں بھی عوام کو شعور اور آگاہی دیں۔
اگر ہم سرمایہ دارانہ نظام کا جدید چہرہ لوگوں کے سامنے نہیں لاتے تو پھر
بے شک ریلیاں نکالتے رہیں اور کالم لکھتے رہیں در حقیقت ہم سب سرمایہ داروں
کے مزدور ہیں۔
|