25 دسمبر٬ کرسمس کے موقع پر
مسیحی برادری کے لیے خصوصی تحریر
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
”مسلمان ہوں،یہودی ہوں،مسیحی ہوں یاصابی ہوں جو کوئی بھی اﷲ تعالیٰ پر اور
قیامت کے دن پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے ان کے اجر انکے رب کے پاس محفوظ
ہیں اور ان پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ ہی کوئی اداسی وغم“۔ قرآن مجید کی
سورہ بقرہ کی اس باسٹھ نمبر آیت میں اﷲ تعالیٰ نے یہ واضح کیا ہے کہ اﷲ
تعالیٰ کی رحمت پر کسی مذہب والوں کی ٹھیکیداری نہیں ،کسی بھی مذہب سے تعلق
رکھنے والا اگر اپنا عقیدہ و عمل درست کر لے تو اس کے لیے اﷲ تعالیٰ کی
رحمت کے دروازے کھلے ہیں۔اور ظاہر ہے کہ عقیدہ و عمل کی درستگی صرف انبیاء
علیھم السلام کی تعلیمات سے ہی ممکن ہے۔
حضرت عیسی علیہ السلام بنی اسرائیل میں اﷲ تعالٰی کے آخری نبی تھے۔انکی
نانی اماں حضرت حنہ بنت فاقود جو حضرت عمران کی زوجہ محترمہ تھیں قرآن مجید
نے سورة آل عمران میں انکا تفصیلی ذکر کیا ہے۔انکے ہاں اولاد نہیں تھی،اس
بزرگ خاتون نے منت مانی کی اگر ان کے ہاں بچہ ہوا تو وہ اسے ساری عمر کے
لیے بیت المقدس میں اعتکاف بٹھا دیں گی۔بنی اسرائیل کی شریعت میں یہ عمل
جائز تھا جبکہ شریعت محمدی ﷺ میں اسکی اجازت نہیں اور یہ عمل منسوخ ہوگیا
ہے۔عموماََ اس طرح کی منت کے بعد بیٹا پیدا ہوا کرتا تھا لیکن حضرت عمران
کے ہاں بیٹی پیدا ہوگئی۔انہوں نے اسکا نام مریم رکھا اور بڑا ہونے پر بیت
المقدس کے ایک کونے میں اعتکاف کے لیے بٹھا دیا۔
بیت المقدس میں مرد لوگ ہی اعتکاف کیا کرتے تھے اور جب ایک خاتون بھی وہاں
اسی مقصد کے لیے داخل ہوگئیں تو متولیوں کے درمیان قرعہ اندازی ہوئی کہ کون
اس نووارد خاتون کی سرپرستی کرے گا۔ قرعہ فال حضرت زکریا علیہ السلام کے
نام نکلا جواﷲ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی ہونے کے علاوہ حضرت مریم علیہا السلام
کے رشتہ میں خالو بھی لگتے تھے۔یہ صبح شام بی بی پاک مریم علیہا السلام کے
پاس آتے اور انکی جملہ ضروریات پوری کرتے اور دیکھتے کہ انکے پاس بے موسمے
پھل دھرے ہیں۔ استفسار پر وہ بتاتیں کہ اﷲ تعالیٰ انہیں کھلاتا پلاتا ہے۔
حضرت زکریا علیہ السلام کے ہاں اولاد نہیں تھی،انہوں نے دعا کی کہ اگر اس
بیٹی کو بے موسمے پھل مل سکتے ہیں تو مجھے بھی تو اس پیرانہ سالی میں بے
موسمی اولاد مل سکتی ہے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں حضرت زکرےا علیہ السلام
جیسا بیٹا عطا کیا۔
حضرت مریم علیہا السلام کو حضرت جبریل مریم علیہ السلام نے خوشخبری دی کہ
انکے ہاں ایک بیٹا ہوگا،بی بی پاک مریم علیہا السلام نے پوچھا ایسا کیونکر
ہو سکتا ہے جبکہ مجھے تو کسی مرد نے چھوا بھی نہیں، حضرت جبریل علیہا
السلام نے جواب دیا کہ اﷲ تعالیٰ جیسا چاہتا ہے ویسا ہی کرتا ہے۔ بچے کی
پیدائش کے لیے بی بی پاک مریم ساتھ کے گاؤں سدھار گئیں۔اس گاؤں کا نام
”ناصرہ“تھا جہاں حضرت عیسیٰ علیہ اسلام پیدا ہوئے۔ بائبل مقدس نے اسی گاؤں
کی نسبت سے حضرت عیسیٰ کو یسوع ناصری کہا ہے اور قرآن مجید نے بھی اسی گاؤں
کی نسبت سے مسیحیوں کو نصاریٰ کہا ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش کے
وقت بھی حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور بی بی کے سر کی طرف زمین پر
اپنا پر مارا جس سے صحت بخش پانی کا ایک چشمہ پھوٹ نکلا جسے بی بی پاک نے
نوش جان فرمایا اور ساتھ ہی حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا کہ اس درخت کو
ہلائے، کھجور کے درخت سے کھجوریں ٹپکیں تو زچگی وقت بی بی پاک نے وہ
کھجوریں بھی تناول فرمائیں۔بی بی پاک مریم علیہا السلام نے پوچھا کہ میں
اپنی قوم کو کیا جواب دوں گی کہ یہ کس کا بچہ ہے؟حضرت جبریل علیہ السلام نے
کہا کہ آپ اشارے سے کہنا کہ میں چپ کے روزے سے ہوں اور یہ بچہ جواب دے گا۔
بی بی نے پوچھا یہ بچہ کیا بولے گا؟حضرت جبریل علیہ السلام نے پھر پہلے
والا جواب دیا کہ اﷲ تعالیٰ جیسا چاہتا ویسا ہی کرتا ہے۔
بی بی پاک مریم علیہا السلام جب بچہ اٹھائے بیت المقدس پہنچیں تو لوگوں نے
کہا بی بی آپ تو نبیوں کے خاندان سے ہو یہ کیا پاپ کر آئی ہو؟انہوں نے
اشارے سے کہا کہ میں چپ کے روزے سے ہوں اور یہ بچہ جواب دے گا۔ لوگ جیسے ہی
بچے کی طرف متوجہ ہوئے تو پنگھوڑے میں موجود حضرت عیسیٰ علیہ السلام بول
اٹھے”میں اﷲ کا بندہ ہوں،اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور مجھے اپنا پیغمبر
بنایا ہے،اور اس نے مجھے بابرکت کیا ہے جہاں بھی میں ہوں،اور اس نے مجھے
نماز ار زکوة کا حکم دیا ہے جب تک بھی میں زندہ رہوں ،اور اس نے مجھے اپنی
والدہ کا خدمت گار بنایا ہے اور مجھے سرکش و بدبخت نہیں کیا اور مجھ پر
میری پیدائش کے دن اور میری موت کے دن اور جس دن کہ میں دوبارہ زندہ کیا
جاؤں ،سلام ہی سلام ہے”۔قرآن مجید نے ان کا یہ قول سورة مریم کی آیات30تا
33میںبیان کیا ہے۔
توحید کا درس حضرت عیسیٰ علیہ السلام سمیت سب انبیاء کا اولین درس ہے۔ سب
آسمانی کتب کا بھی سب سے پہلا سبق توحید کا ہی سبق ہے۔ قرآن نے بھی اہل
کتاب سے یہی کہا کہ آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان
مشترک ہے کہ ہم اﷲ تعالٰی کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے۔ کسی کو اﷲ
تعالیٰ کا ساجھی قرار دینا،اسکا ہم سر قرار دینا،اس جیسا قرار دینا یا اسکی
ذات کا حصہ یا اسکے اختیارات میں برابر کا قرار دینا،یا کسی کے بارے میں
سمجھنا کہ وہ اﷲ تعالیٰ پر کوئی دباؤ یا زبردستی استعمال کر سکتا ہے سب
توحید کے برخلاف ہے اور شرک میں داخل ہے۔اﷲ تعالیٰ نے کسی کواپنا بیٹا قرار
نہیں دیا کیونکہ بیٹا کمزوری ہوتا ہے اور اﷲ تعالیٰ ہر کمزوری سے پاک
ہے۔اور یہی عقیدہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بھی تھا۔
انجیل مقدس آج بھی شرک سے پاک ہے انجیل کے علاوہ بائبل میں جو انسانی کلام
ہے اس میں لوگوں کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں وہ کچھ کہا
گیا ہے جو تعلیمات انبیاء علیھم السلام کے بالکل خلاف ہے۔ پوری بائبل میں
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہیں بھی خود کو خدا یا خدا کا بیٹا نہیں کہا۔ہر
نبی نے توحید کی تعلیم دی،ایک وقت تھا جب لوگ سونے چاندی اور پتھروں کے بنے
ہوئے بتوں کی پوجا کرتے تھے وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے نئے نئے خدا تراش
لیے ہیں
دولت،دنیا،اولاد،شہرت،مذہب،اقتدار،پیٹ کی خواہش اور پیٹ سے نیچے کی
خواہش،رنگ،نسل،علاقہ اور نہ جانے کتنے کتنے خدا ہیں جو ایک ایک انسان کے
سینے میں براجمان ہیں اور دن رات وہ انکی پوجا میں مصروف ہے،حضرت عیسیٰ
علیہ السلام سمیت سب انبیا کی یہ تعلیمات ہیں کہ صرف ایک خدا کا پجاری ہی
نجات کا مستحق قرار پائے گا۔
پچیس سال کی عمر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نزول وحی کا آغاز ہوا اور
انجیل جیسی شاندار کتاب ان پر نازل کی گئی۔آپ علیہ السلام کو بہت سے معجزے
بھی عطا کیے گئے۔آپ مردے کو اﷲ تعالیٰ کے حکم سے زندہ کر دیتے تھے۔روایات
میں لکھا ہے کہ آپ علیہ السلام کے معجزے کے نتیجے میں حضرت نوح علیہ السلام
کا بیٹا بھی زندہ ہوا،اسے فوت ہوئے اگرچہ ہزاروں سال بیت چکے تھے لیکن اس
نے کہا کہ موت کی کڑواہٹ ابھی بھی میرے حلق میں موجود ہے۔آپ علیہ السلام
کوڑھ کے مریض پر ہاتھ پھیرتے جاتے ،جہاں جہاں سے یہ مقدس ہاتھ گزرتا وہاں
وہاں سے مریض کی جلد ایسے ہوجاتی کہ جیسے کوڑھ جیسا موذی مرض کبھی تھا ہی
نہیں ۔پیدائشی اندھے کی آنکھوں پر اپنا دست مبارک پھیرتے تو اﷲ تعالیٰ کے
حکم سے اسے بینائی جیسی نعمت مل جاتی۔حضرت عیسی علیہ السلام مٹی سے پرندے
بناتے اور ان میں پھونک مارتے تو وہ اﷲ تعالیٰ کے حکم سے زندہ ہوکر اڑنے
لگتے۔لوگوں کے اسرار پر ”مائدہ“نامی دسترخوان بھی آپ علیہ السلام کے معجزے
کے نتیجے میں شروع ہوا جس پر بعض اوقات ہزاروں لوگ ایک وقت میں کھانا کھاتے
لیکن وہ کھانا کبھی بھی ختم نہ ہوتا،جب لوگ بچا بچا کر گھر لے جانے لگے تو
اﷲ تعالیٰ نے ”مائدہ“ختم کر دیا۔آپ علیہ السلام لوگوں کو بتا دیتے کہ کیا
کھا کر آئے ہیں اور گھر میں کیا کیا غلہ رکھا دھرا ہے۔ان سب معجزات کے ساتھ
آپ علیہ السلام لوگوں کو باور کراتے کہ یہ سب کچھ اﷲ تعالیٰ کے حکم سے ہی
ہے اور اس کائنات کا اول و آخر حکمران اﷲ تعالیٰ ہی ہے جو ہر طرح کے شرک سے
پاک ہے۔
علمائے بنی اسرائیل نے اس نوجوان نبی کے خلاف اعلان بغاوت کیا کیونکہ حضرت
عیسیٰ علیہ السلام انکے گمراہ عقائد اور سیاہ اعمال پر انہیں سرزنش کرتے
تھے۔ یہودیوں کے ان علماء نے حسب سابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل پر
اجماع کیا اور بادشاہ سے کہا انہیں پھانسی دے دی جائے۔اس وقت حضرت عیسیٰ
علیہ السلام کی عمر مبارک چالیس سال تھی جب آپ کے ایک مقدس ساتھی نے آپ کی
جگہ پھانسی پر چڑھنا قبول کر لیا اور آپ علیہ السلام کو زندہ آسمانوں پر
اٹھا لیا گیا۔ لوگوں نے اس مقدس ساتھی کو حضرت عیسیٰ سمجھ کر پھانسی دے
دی۔آسمانی کتب نے خبر دی ہے کہ قیامت کے نزدیک ایک بار پھر حضرت عیسیٰ علیہ
السلام دنیا میں امتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے اس وقت جب زمین ظلم سے
بھر چکی ہوگی۔ روایات میں موجود ہے کہ وہ شریعت محمدی ﷺ نافذ کریں گے اور
کم و بیش چالیس سالوں تک پوری دنیا میں حکومت کریں گے اور مدینہ منورہ
میںحجرہ عائشہ رضی ﷲ عنھا کے اندر جہاں ایک قبر کی جگہ ہنوز خالی ہے اس
انسان عظیم الشان کو دفنا دیا جائے گا کیونکہ ہر انسان نے موت کا ذائقہ
چکھنا ہے اور صرف خداوند خدا ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا اور اسے کبھی موت
نہیں آئے گی۔ |