انڈین ٹی وی ہمارا معاشرہ

انڈین ٹی وی ہمارے گھروں میں اس قدر رائج ہو چکا ہے کہ اسے زندگی کا ایک لازمی جزو کہا جائے تو ہرگز غلط نہ ہوگا ہماری خواتین جس قدر اہتمام سے ان ڈراموں کو دیکھنے کے لیے وقت نکالتی ہیں اس سے ان ڈراموں کی اہمیت کا خوب اندازہ ہو سکتا ہے یہ ڈرامے نہں بلکہ پورے چار گھنٹے کا بھرپور انٹرٹینمنٹ پروگرام ہوتا ہے جس میں دکھلائے جانے والے پروگراموں کو روزمرہ زندگی کےمعمولات کا نام دیا جاتا ہے اور اس سب کو معاشرہ میں روح نما ہونے والے واقعات سمجھا جاتا ہے ان ڈراموں کے اوقات میں ہمارے گھروں میں عجب سناٹا اور خاموشی ہوتی ہے صرف اور صرف اس وقت مندروں میں بجھنے والی گھنٹیوں پوجا پاٹ اور منتروں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں خواتین یا تو ڈراموں کے اوقات میں بچوں کو سلا دیتی ہیں یا نہایت خاموشی سے بچوں کو بھی اس انٹرٹینمنٹ میں شامل کر لیتی ہیں اس دوران کسی فون کو سننا بھی گوارہ نہیں کرتیں اگر کوئی غلطی سے فون کر لے تو اسے یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ بعد میں بات ہوگی ابھی ہم مصروف ہیں ان اوقات میں کسی قسم کی کوئی مداخلت انہیں پسند نہیں یہ حال ہے ہمارے مسلم گھرانوں کا اس موقع پہ مجھےاپنے پیارے آقا مولا حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی حدیث مبارک یاد آتی ہے کہ قیا مت کے نزدیک ہر گھر میں ناچ گانا ہوگا۔ یہی سب کچھ آج ہم دیکھ رہے ہیں ہمارے گھر جن سے تلاوت قرآن اور درود شریف کی آوازیں آنی چاہئیں اور خدائے واحد و یگانہ کی توحید کی آوازیں بلند ہونی چاہئیں وہاں تو بت پرستی ہندوؤں کی مورتیوں اور بھگوانوں کی پوجا ہو رہی ہوتی ہے ہم ویسے تو توحید اور رسول خدا حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم پہ مر مٹنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن میں اسے بے غیرتی کہوں یا بے حسی کہ ہمارے گھروں میں بت پرستی ہو رہی ہے اور ہم کیسے مسلمان ہیں جو اس میں براہ راست شریک ہوتے ہیں بات یہاں تک ختم نہیں ہو جاتی ہندوؤں کے رسموں رواج ہماری زندگیوں کا حصہ بن رہے ہیں اور بن چکے ہیں ہمارا سارا معاشرہ کیا مرد خواتین بچے سب ان ڈراموں کے زیر اثر ہیں ان ڈراموں میں عورت کو ہیرو بنا کر پش کیا جاتا ہے جو کہ تمام مسائل مردوں کو مات دیتے ہوئے حل کر لیتی ہے جس کی وجہ سے ہماری عورتیں بھی خود کو ڈرامائی کردار تصور کرتے ہوئے اپنے خاوندوں کو کسی خاطر میں نہیں لاتیں اور بچوں پہ اثر کی داستان سن لیں میرے ایک کزن نے جو کہ یورپ میں رہتے ہیں ان کا بچہ پیدا ہونے والا تھا تب منت مانگی کہ میں اسے اسلام کے لیے وقف کروں گا اور عالم دین بناؤں گا ابھی بچہ تین سال کا ہوا ہے تو وہ جسے کلمہ طیبہ اور اسلام علیکم یاد کرنے تھے وہ نمستے جے شی کرشنا اور تو اور آشیرباد بھی لیتا ہے ہمیں اس گھڑی سوچنا چاہیے کہ کس بے خیالی میں ہم اپنی اولادوں کو بت پرستی میں دھکیل رہے ہیں خدا محض اپنا خاص فضل فرماتے ہوئے اس لعنت سے بچنے کی توفیق دے آمین-
nusrat ullah
About the Author: nusrat ullahCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.