بہاولپور کی پریم کہانی۔۔۔!

میں اس سے بہت زیادہ محبت کرتا تھا کبھی وہ مجھے دیکھتے ہی خوش ہو جاتی تو کبھی اچانک مجھے دیکھتے ہی اسکا دل بجھ سا جاتا۔ کیونکہ جب اسکا چہرہ مجھے دیکھتے ہی اداس ہو جاتا تو تب اسکی ایک نگاہ میری طرف ہوتی اور دوسری نگاہ سے اس معاشرے کو تک رہی ہوتی تھی جو اسے اپنی روایات کے جنگل میں پھنسا کر مجھ سے دور کرنے کی کوشش میں لگا تھا ۔ لیکن میں جب اسکے بارے میں سوچتا تو ناجانے مجھ میں ایک خوش گوار زندگی کا احساس کہاں سے جھلکنے لگتا تھامگر عام الفاظ میں شاید اسے محبت کہا جاتا ہے ۔میں جب بھی اس سے باتیں کرنے بیٹھتا تو اسکے میٹھے میٹھے الفاظوں میں کھو ساجاتا۔ پھر میں دل میں کہتا کہ یہی زندگی مجھے ملے تو میں راضی ہوں ۔ کیونکہ وہ میری خواہش نہی بلکہ زندگی کا مقصد بن چکا تھا اور میرے جیسا ضدی انسان اپنے مقصد کو اپنی زندگی میں حاصل نا کر سکے یہ میرے نزدیک ناممکنات میں سے تھا ۔کیونکہ میں نے تو اپنی نمازوں میں بھی صرف اسی کو اپنے خدا سے مانگ رکھا تھااور میں اکثر اسے کہتا تھاکہ سنو اگر ہم نامل سکے تو؟؟؟؟؟؟ْ کیا تم میری محبت کے احساس کو بھلا کر کسی اور کی ہو سکتی ہو۔۔؟ تو اسکے بدن کا رنگ ماند پڑجاتا ماتھے پر بل، آنکھوں میں پانی اور لہجہ بنا لفظ کے ہی بتا دیتا کہ وہ مجھے کس قدر چاہتی ہے اور میں اسکی چاہت کا بھرم رکھتے ہوے اسے زور سے اپنے سینے میں لپیٹ لیتا۔ کیونکہ ایک ساتھ جینے مرنے کے وعدے کر رکھے تھے اور جب ہم ایک دوسرے سے پوچھتے کہ کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے کیونکہ معاشرے میں ، ٹی وی اور فلمز میں ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ اگر کسی کا شوہر یا بیگم مر جاے تو وہ اپنی زندگی کی روانی کو جاری رکھتے ہوے دوسری شادی کر لیتے ہیں ۔ تو ہم ایک دوسر ے کو کہا کرتے تھے کہ یہ سب ناٹک ہوتا ہے اور یہ ایسا ہی ہوتا ہے مگر ہماری محبت کو زمانہ یاد کرے گا۔

یا پھر وہ لوگ ہماری محبت کی گوہی ضرور دینگے جو ہمیں ایک دوسرے سے جدا کرنے کی کوشش میں لگے ہیں ۔ اور پھر یوں ہی ہوا ہماری پڑھایٔ مکمل ہوتے ہی ہم نے گھر میں اپنی محبت کا اظہار کر دیا۔ یہ اظہار جب میں نے اپنے گھر میں کیا تو میرے باپ نے مجھے کہا کہ ایسا ہرگز نہی ہو سکتا میں نے تجھے اس لیے نہی پڑھایا کہ تو اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ خود لے سکے میں اس وقت تو خاموش رہا مگر میرے دل میں اسے حاصل کرنے کی لگن اور بھی زور پکڑگیٔ ۔ چونکہ وہ میری زندگی کا سب سے پہلا اور آخری مقصد بن چکا تھا ۔مگر جب اسنے اپنے گھر میں یہ کہا کہ میں ایک لڑکے سے محبت کرتی ہوں آپ ایک دفعہ انکی فیملی سے مل لیں تو اسکی ماں نے ایک حتمی فیصلہ اپنے پہلے الفاظوں میں سناتے ہوے کہا کہ ہم غیر برادری میں شادی نہی کرتے آیٔندہ ایسی بات کر نے کی ہمت بھی مت کرنا ۔ پھر جب اسنے مجھے یہ بتایاتو ہم نے بھی ایک آخری فیصلہ کر لیا کہ یا تو ہم شادی کریں گے یا پھر ہم ایک دوسرے کی جان لے لیں گے ۔اور ہمیں اس معاشرے کا پہلے سے ہی پتہ تھا کہ محبت کو یہ لوگ گالی سمجھتے ہیں یہ ہمیں ایک دوسرے کا کبھی نہی ہونے دے سکتے ۔ اور ابھی تک تو میں نے کویٔ کام کاج کرنا بھی شروع کیا تھا جس سے میں اپنی حسینہ کو اس معاشرے سے دور کہیں لے جاتااور ایک خوبصورت زندگی فراہم کر سکتامگر ابھی یہ ممکن نہی تھااور اسکے گھر والے اسکا رشتہ دیکھنے کے لیے اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مار رہے تھے جس سے میری محبوبہ بہت زیادہ پریشان رہنے لگی تھی مگر جب اُسکے گھر والوں نے اسکا رشتہ کہیں اور تہہ کردیا تب اسنے مجھ سے رابطہ کیا اور کہنے لگی ہمارا وعدہ نبھانے کا وقت آن پہنچا ہے تم نے وعدہ کیا تھا ہم ایک دوسرے کے علاوہ کسی اور کے نہی ہو سکتے لہذا میں نے اسے ملنے کے لیے کہا۔ اُدھر سے وہ اپنے گھر سے نکلی تو اِدھر سے میں نے اپنے دراز سے پستول نکالی اُسے غور سے دیکھا اور دل میں ٹھان لی کہ اگر ہماری ملاقات کے دوران ہمیں کسی نے تنگ کیا تو میں اسے گولی سے اُڑا ڈالوں گا۔میرے ذہن میں طرح طرح کی باتیں جنم لے رہی تھیں میں خود کو قابو میں نہی کر پا رہا تھا سمجھ نہی آرہی تھی کہ میں اپنی زندگی کا خاتمہ کر لوں یا کسی اور کی جان لے لوں ۔۔۔ کیونکہ اس ظالم معاشرے نے آج تک کسی دو محبت کرنے والوں کی عزت نہی کی اور نا ہی ملنے دیا مگر ہیر رانجھے کی محبت کو جب ایک دوسرے سے شیٔر کرنے بیٹھتے ہیں تو ہیر رانجھے کے دشمنوں پر لعن تعن کرتے نظر آتے ہیں مگر اصل میں کسی کی محبت پر یقین نہی کرتے اور برادریوں کے علاوہ کسی اور سے نکاح کرنے کی اجازت نہی دیتے ۔۔۔! چونکہ میں بہاولپور میں مقیم تھا اور وہ بھی ۔ پھر ہم ایک بہاولپور کے شایٔن سٹار ہوٹل کمرہ نمبر 504 میں ملنے کے لیے چلے گے میں نے اندر سے دروازہ لاک کر دیا اور اسکے پاس جا کر بیٹھ گیا اسنے حسرت بھری نگاہوں سے مجھے تکنا شروع کر دیا میری آنکھوں سے آنسو باہر نکلنا چاہ رہے تھے مگر میں نے انکو چھپانے کے لیے اسکے ہاتھوں کو چامنے کے بہانے اپنے سر کو نیچے جھکادیا۔

جس سے اسنے مجھے کہا میں صرف تمہاری ہوں اور کسی کے ہونے کا سوچ بھی نہی سکتی کیونکہ عورت وہی ہوتی ہے جو اپنی محبت کو چھوڑکر کسی اور کے پاس نا جاے۔ اسکی یہ باتیں مجھے اندر سے اور بھی مضبوط کر رہی تھیں پھر اسنے مجھے کہادیکھو اگر تم چاہتے ہو کہ میں کسی اور کی نہ ہو سکوں مجھے اپنے ہاتھوں سے مار ڈالو۔۔۔! میں اسکی یہ باتیں سن کر اندر سے ٹوٹ سا گیا اور اسے غور سے دیکھنے لگا اور پوچھا کیا واقعی تم مجھ سے اتنی محبت کرتی ہو۔۔؟ اُسنے فوراً بولا آزما کر دیکھ لو ۔ چونکہ اس وقت میرے اوپر صرف اسکی محبت کا جنون سوار تھا میں نے اپنی پستول نکالی اور اپنا سر ُاسکے سر کے ساتھ جوڑکر رونے لگا اور وہ تو اپنے آنسووں کو روک ہی پا رہی تھی ہمیں ہمارے ماں باپ کی محبت نے ایک وقت کے لیے جھٹکا مگر فوراً ہماری محبت نے جواب دیا کہ اگر وہ ہم سے محبت کرتے تو معاشرے کے چند غیر اسلامی روایات کی خاطر ہمیں ایک دوسرے سے جدا مت کرتے ۔ ہم نے خودکشی کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ لوگوں کے یہ رواج بھی قایٔم رہیں اور ہمارا یہ وعدہ بھی کہ ہم کسی اور کے نہی ہونگے یہ بھی پورا ہو سکے ۔ مجھے کہنے لگی مجھ پر گولی چلاؤ میں نے کہا نہی پہلے میں خود پر گولی چلاؤں گا مگر فوراًاسنے مجھے اپنی قسم دے ڈالی اور بولی میری محبت کو امر کردو تمہیں میری قسم ۔۔۔!

میرے ہاتھ کپکپانے لگے اور اسنے یہاں پر بھی میرا ساتھ دیتے ہوے ٔپستول کی نلی کا رخ اپنے ماتھے پر رکھ کر میرے انگوٹھے پر اپنا انگوٹھا رکھ کر بنا کچھ سوچے سمجھے دبا دیا جس سے وہ ایک جھٹکے سے پیچھے کی طرف گر گیٔ ۔ میری روح بھی اسی وقت نکل چکی تھی مگر اپنے دھڑ کو اسکے پیروں میں گرانے کے لیے اپنے سر پر میں نے خود ہی گولی چلا دی کیونکہ میری زندگی سے میرا ساتھ دینے والا جا چکا تھا اور وفا کی مانگ بھی یہی تھی کہ میں بھی اسکے ساتھ اپنی زندگی کا خاتمہ کرتا ۔ اور میں نے وہی کیا جس سے میری محبت امر ہو سکے اور اس طرح ہم اپنی محبت و وفا کو اپنے ہاتھوں میں سمیٹ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔۔۔!
اور ہمار ی لاشیں اسی شایٔن سٹار ہوٹل کمرہ نمبر504 میں اس لیے پڑی رہیں تاکہ اس معاشرے کو اپنی غلطی کا احساس ہو سکے۔۔!
 

Osama Siddiq
About the Author: Osama Siddiq Read More Articles by Osama Siddiq: 35 Articles with 28651 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.