یومِ مزدور،چائلڈ لیبر،غربت وپسماندگی

بچے کائنات کا حسن ہیں، دنیا کی رونق ہیں۔ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ بچوں کے حقوق پر اسلام نے ہی زور دیا ہے، محسنِ انسانیتﷺ نے اپنے قول و فعل سے بچوں کے حقوق اجاگر کیئے ہیں اور عالمِ انسانیت کو بتا دیا ہے کہ بچوں سے محبت کیسے کی جاتی ہے، جب آفتابِ نبوتﷺ طلوع ہوا تو اس کی کرنیں جہاں کائنات کی اور چیزوں کو روشن کرتی چلی گئیں وہاں بچے بھی اِس سے محروم نہ رہے، محسنِ انسانیتﷺ نے فرمایا،
'' جس نے بچوں پر رحم نہ کیا وہ ہم میں سے نہیں ''

اسلام نے بچوں کو بے سہارا نہیں چھوڑا، جائیداد اور وراثت تک کی حفاظت کی، بچوں کو بھیک مانگنے سے منع کیا، بچوں کو یہ حق دیا کہ ان سے جھوٹ نہ بولا جائے، اسلام نے سات سال کی عمر تک بچوں پر کوئی بوجھ نہیں ڈالا، یہاں تک کہ مسجد جانے کا پابند بھی نہیں کیا، مگر آج۔۔۔!
آج بچوں سے یہ سارے حقوق چھین لیئے گئے ہیں، آج۔۔۔!
فاقوں سے بلکتے ہیں بچے
گلیوں میں سسکتے ہیں بچے
ہر شخص کو تکتے ہیں بچے
ظالم کو کھٹکتے ہیں بچے

آج ان معصوم بچوں کے ناتواں کاندھوں پر مزدوری کا بوجھ ہے، آج ان کے نازک بدن پر لباس نہیں، پاوں میں جوتا نہیں، آج یہ پھول کوڑے کے ڈھیر پر نظر آتے ہیی، ان کے ننھے منے ہاتھ مِلوں میں کام کرتے نظر آتے ہیں، بد قسمتی سے پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں بچوں سے جبری مشقت لی جاتی ہے، چھوٹے چھوٹے لاکھوں بچوں سے تعلیم کا حق چھین کر ان کو محنت و مشقت پر لگا دیا جاتا ہے ٹریننگ کے نام پر بچوں سے مفت مشقت لی جاتی ہے، پانچ سات سال کے بچوں پر گھر کا پورا بوجھ لاد دیا جاتا ہے، اینٹوں کے بھٹے اور قالین بانی کے مراکز ظلم کا مرکز ہیں، جہاں پربچے اپنے والدین کا قرض ادا کرنے کے لیئے کام کر رہے ہوتے ہیں، لیکن قرض اپنی جگہ رہتا ہے اور صرف سود ہی ادا ہو پاتا ہے، وہ معصوم پھول اور کلیاں جو حضرت محمدﷺ کو بہت پیاری تھیں، یہ معصوم جانیں جن کی مسکراہٹ دل کو ٹھنڈک پہنچاتی ہے، ان کا اس طرح سے استحصال یقیناً گناہِ کبیرہ ہے، ہزاروں بچے سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں، چہرے پر بھوک اور پیاس کی شدت لیئے بڑی بڑی گاڑیوں کے پیچھے غبارے لیئئے، گجرے اٹھائے، چھوٹی موٹی چیزیں لیئے بھاگتے دوڑتے نظر آتے ہیں، ٹریفک کے بے پناہ رواں دواں ہجوم کے بیچوں بیچ چار پیسے کمانے کے لیئے اپنی زندگیاں داو پر لگائے پھرتے ہیں، جسموں پر ایسے زخموں کے نشانات کہ جنہیں دیکھ کر لرزہ طاری ہوجائے، دراصل ان بچوں کی آواز میں قدرت پکار رہی ہوتی ہے کہ۔!
دیکھو ہمیں جو دیدہء عبرتِ نگاہ ہو

لیکن، کون دیکھتا ہے ان کا یہ حال کس نے کیا؟۔۔۔ بیحسی سی بے حسی ہے کوئی۔؟۔۔ کہ ایک طرف تو بچوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہوتا ہے تق دوسری طرف بیت سے معصوم کوڑا چُنتے، دن بھر گلیوں کی خاک چھاننے کے بعد شام ڈھلے اپنے ناتواں کندھوں پر کُوڑے کا ڈھیر اٹھائے گھروں کو واپس جا رہے ہوتے ہیں، ایک طرف تو کتوں کو عیش و آرام مہیا کرنے کے لیئیے بیتحاشہ پیسہ پانی کی طرح بہایاجاتا ہے تو دوسری طرف یہ معصوم غریب بچے ایک نوالے کے لیئے ترستے ہیں، کہیں ان ادھ کھلی کلیوں کو بموں کے ذریعے فضا میں اڑا دیا جاتا ہے تو کہیں گلشنِ جہاں کے پھولوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی ہے، کہیں ننھی کلیوں کو بیدردی سے اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر مسل دیا جاتا ہے،، کتنی ہی غریب ماوں کی جھولیاں خالی کر دی جاتی ہیں۔۔۔۔ بقول شاعر،
بھوک افلاس کے عفریتوں کو دیکھتے ہیں ڈر جاتے ہیں
کتنے قاسم کتنے ٹیپو بچپن میں ہی مر جاتے ہیں
ماں کی جھولی خالی کر کے قبروں کے منہ بھر جاتے ہیں
کتوں کو ملتا ہے سب کچھ بچے بھوک سے مر جاتے ہیں

بچے کسی بھی ملک کا سرمایہ ہیں، مستقبل کے معمار ہیں، آنے والا کل ہیں، مستقبل کی امید ہیں، دنیا کے کسی بھی خطے میں رہنے والے باشندے اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ بچوں کی معصوم شرارتیں، بے ساختگی، شوخ و چنچل ادائیں، اور ان کی سچائیاں سب سے قیمتی متاع ہیں، مگر اج پاکستان کے وہ بچے جنہیں زندگی کی اہمیت کا شعور بھی نہیں، اور جن کے بچپن ہنستے گاتے، پڑھتے لکھتے، شرارتیں کرتے ہوئے گذرنے چاہیئں وہ شاعر کے ان اشعار کی تفسیر نظر اتے ہیں کہ،
سگنل کے پاس جا کر کاروں کو پونچھتے ہیں
پھیرے لگا لگا کر اخبار بیچتے ہیں
کرتے ہیں بوٹ پالش یہ پارکوں میں جا کر
یا بیچتے ہیں تافی یہ طشت میں سجا کر
قالین بُن رہے ہیں کپڑے بھی سی رہے ہیں
خونِ جگر مسلسل بیچارے پی رہے ہیں
سنسار میں نہیں ہے ان کی کہیں رہائش
ہوتی ہے اس طرح بھی بندوں کی آزمائش

جی ہاں، یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے بہت سے نونہالوں کے سروں پر تو چھت ہی نہیں ہے، آج پاکستان کے کم و بیش تین لاکھ بچے سڑکوں پر رہتے ہیں، معزز حکمرانوں سے، حکومتِ وقت سے گذارش ہے کہ محض باتوں سے نہ بہلایا جائے بلکہ خدارا کُچھ کر کے دکھایا جائے، اپنے وطن کے مستقبل کو یو لاوارث چھوڑ کر ضائع نہ کیا جائے کہ،،،
''ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی ''

حکومتِ وقت سے درخواست ہے خدارا پاکستان میں چائلڈ لیبر سے پاک صنعت کاری کا عہد کیا جائے، نازک ہاتھوں سے کم اجرت میں قالین سازی، یا پتھر توڑنے کا کام نہ لیا جائے، بلکہ ان معصوم غریب بچوں کی مفت تعلیم کا بندوبست کیا جائے، ایک بار انگلی پکڑا کر تو دیکھیئے صاحب آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کتنے انمول ہیرے مٹی میں ملنے سے بچا لیئے۔۔ غربت کے مارے پسماندہ لوگوں کو باوقار روزگار مہیا کیا جائے تاکہ وہ اپنے بچوں کو اپنے قرض کی ادائیگی کے لیئے محنت و مشقت کی خاطر ملوں میں نہ بھیجیں، ایسے ادارے تشکیل دیئے جائیں جہاں سب غریبوں کے لیئے روزگار کے مواقع میسر ہوں، یوِ مزدور پر صرف عہد نہ کیجیئے بلکہ عمل کیجیئے کہ دھیان رہے کوئی بھی معصوم بچہ اپنے کھیل کھلونے، اپنی کتابیں چھوڑ کر اوزارون سے نہ کھیلے، اپنے نرم و نازک ہاتھوں کی انگلیاں وقت سے پہلے فگار نہ کر لے، ایک بار ان سڑک پر رُلتے، کوڑا چنتے، اینٹوں کے بھٹوں پر اپنی زندگی ضائع کرتے بچوں کو تعلیم کی طرف راغب کر کے تو دیکھیئے ان میں کتنے ہنر مند ایسے نکلیں گے جنہیں ہم فخریہ '' جناح کے وارث '' کے نام سے پکاریں گے۔۔۔۔ کسی غریب کے منہ میں ایک نوالہ دے کر تو دیکھیئے اﷲ آپ پر کیسی کیسی نعمتیں نچھاور کرتا ہے۔۔۔۔۔
بلاتے ہیں ہمیں محنت کشوں کے ہاتھ کے چھالے
چلو محتاج کے منہ میں نوالہ رکھا جائے

Rehana Parveen
About the Author: Rehana Parveen Read More Articles by Rehana Parveen: 17 Articles with 23488 views میرا نام ریحانہ اعجاز ہے میں ایک شاعرہ ، اور مصنفہ ہوں ، میرا پسندیدہ مشغلہ ہے آرٹیکل لکھنا ، یا معاشرتی کہانیاں لکھنا ، .. View More