پھول کھلنے ہوں تو انہیں کوئی روک نہیں سکتا ، موسم کی
سختیاں ،یہ ناسازگار ماحول یہاں تک کہ کسی خوبصورت باغیچے میں ہی نہیں بلکہ
جوہڑ وں کے کنارے بھی کھل سکتے ہیں اوراپنی خوشبوئیں بکھیر سکتے ہیں ،
جولوگ ہر وقت زندگی کی محرومیوں کا رونا روتے رہتے ہیں آگے بڑھنے اور کچھ
کر گزرنے کی جستجو نہیں کرتے ، وہ کامیابی کے مزے اور لطف سے بھی ہمیشہ
ناآشنا ہی رہتے ہیں جبکہ زندگی کی مشکلات محرومیوں اور چیلنجزکا مردانہ وار
مقابلہ کرنے والے کردار مایوسیوں کا شکار ہو کر بیٹھ نہیں جاتے ، یہ کچھ نہ
ہونے کے غم کو سینے سے لگا کرجستجو کو ترک نہیں کرتے ، یہ محرومی مایوسی
اور مشکل کو طاقت میں بدل کر زیادہ محنت زیادہ کوشش کو اپنامعمول بنا لیتے
ہیں ، یہ عام لوگوں سے کہیں زیادہ محنتی اور دھن کے پکے ہوتے ہیں چنانچہ ہم
دیکھتے ہیں کہ میلوں پیدل چل کر سکول جانے والے بھی اپنی محرومیوں کو شکست
دے کر اور تعلیمی میدان میں شاندار کارکردگی دکھا کر بڑے بڑے عہدوں پر جا
پہنچتے جبکہ بعض نازونعم میں پلنے والے جنہیں بظاہرکوئی چیلنج درپیش نہیں
ہو تا خوبصورت چمکتی گاڑیوں میں سکول آنے کے باوجود زندگی کے میدان میں کچھ
نہیں کر پاتے ، جستجو نہ ہونے کی وجہ زندگی کی تمام مراعات ہونے کے باوجود
ان لوگوں کو پچھلی لائن میں رکھتی ہے ، اسی طرح محروم طبقے کے مایوس نوجوان
محرومیوں کوخود پہ طاری کر کے آگے بڑھنے کا خیا ل ہی چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ
منزلوں کو پانے اور اونچی اڑان بھرنے کی جستجوکانام ہی تودراصل زندگی ہے،
گوجرانوالہ کا انعام بٹ شہر کے گنجان آباد محلے میں رہتا ہے ، اس کاتعلق
ایک مڈل کلاس فیملی سے ہے ، اسکے والد لالہ کے نام سے جانے جاتے ہیں ، لالہ
نے کسی قسم کی سرکاری سر پرستی اور سہولیات کے بغیر اپنے بیٹے انعام بٹ کو
اتنا مضبوط اور ارادو ں کا پکا بنادیا کہ اسے جیت کی سچی لگن لگ گئی ، اسے
محرومیوں پر اشک بہانے کا مرض لاحق نہیں ہوا، وہ اﷲ کی ذات کے بعد اپنے
زوربازو پر بھروسہ کرنے والا نوجوان ہے ، اس نے اس وقت بھی گدا کشتی میں وہ
کارنامے دکھائے ہیں جب اسکے پاس تربیت کے لئے ڈھنگ کا گدا بھی نہیں تھا،تب
بھی وہ کامن ویلتھ گیمز میں گولڈ میڈل لے آیا تھا جب پاکستان ریسلنگ کلب
کھلے آسمان تلے مٹی میں ٹریننگ کرنے والے جنونی نوجوان کی واحد تربیت گاہ
تھی ، وہ دوسری بار گولڈ میڈل ہوا تو ہر محب وطن پاکستانی کا دل خوش ہو گیا
ہے ، وہ دکھوں کی ماری پریشان حال قوم کے لئے عالمی اعزاز جیت کر لایاہے ،
اس نے دنیا کو بتا دیا کہ سچی نیت اور لگن کے ساتھ محنت کی جائے تو سہولیات
کا فقدان بھی آپکے راستے کی زنجیر نہیں بن سکتا ، ایک طرف 70سال کے ہمارے
وہ حکمران ہیں جنہوں نے پاکستان کا دنیا میں کیا چہرہ پیش کیا ہے اسکا
اندازہ پاکستانیوں کو اس وقت ہوتا ہے جب وہ بیرون ملک جاتے ہیں اور اپنا
پاسپورٹ نکال کر غیرملکی عملے کے سامنے رکھتے ہیں اس وقت اسکے تاثرات ہی
بتا دیتے ہیں کہ پاکستان کو دنیا میں کیا مقام حاصل ہے اور ہم نے اپنے ملک
کا کسقدر نام روشن کیا ہے، ملک میں کھیلوں کے فروغ خاص طورپر ریسلنگ کے لئے
مختص بجٹ کا حجم سن کر پیروں تلے زمین نکل جاتی ہے ، گوجرانوالہ کی
انتظامیہ نے انعام بٹ کو بڑے ا حسان کے ساتھ اس کے کلب کے لئے منی سٹیڈیم
میں جگہ دی گئی تھی جہاں وہ ریسلنگ فیڈیریشن کی جانب سے دیا گیا گدا بچھا
سکتا تھا، انعام کے والد نے بتایاکہ یہ اتنی گندی جگہ تھی کہ اسکی صرف
صفائی پر ہزاروں روپے خرچ کئے گئے تھے بے سروسامانی میں ہم نے یہ جگہ بھی
غنیمت جانی ورنہ تو ہم نہر کے کنارے گدا پچھا کر ٹریننگ کراتے رہے ،شیخوپورہ
موڑ پر واقع منی سپورٹس سٹیڈیم کی حالت ایسی ہے کہ اسے دیکھ کر موہنجو داڑو
کے کھنڈارات کا خیال آنے لگتا ہے ،سٹیڈیم کو باہر سے ٹرکوں کے اڈوں نے
گھیرے میں لیا ہوا ہے ، اندرایک بڑے حصے میں ایک سرکس لگی ہوئی ہے اور ایک
حصے میں پاکستان ریسلنگ کلب کے نام پر ایک بڑا ہال موجودہے جو بدبو ، گندگی
اور تعفن سے اسقدر بھرا ہوا ہے عقل تسلیم نہیں کرتی کہ چھت کے بغیر کوڑے
اور گندگی کے ڈھیر کے کنارے پاکستان ریسلنگ کلب کے اس کھلاڑی انعام بٹ نے
ملک کے لئے دوبارعالمی اعزاز حاصل کیا ہے، یہ خیلا پختہ ہو گیا کہ منی
سٹیدیم کھیلوں کے لئے بنا ہو گا لیکن حقیقت میں تویہاں منشیات کے عادی
افراد اپنا کھیل کھیلنے کے لئے آزاد ہیں ، یہی وجہ ہے کہ بدبو سے برا حال
ہے ، کوڑے کے بڑے بڑے ڈھیر جمع ہیں ، واش رومز میں گندگی ناقابل بیا ن ہے
کبھی یہاں سرمایہ خرچ کر کے ٹائل پتھر کا کام بھی کرایا گیا ہوگا، اب یہ
ٹائیلیں گندگی سے اٹی پڑی ہیں ، میرے خدا ! ہمارے نوجوان یہاں تربیت حاصل
کرنے آتے ہوں گے ، میں نے منی سٹیڈیم نامی کھنڈر سے باہر نکلتے ہوئے سوچا،
اربوں روپے سالانہ کے ترقیاتی بجٹ خرچ کرنے والی حکومتوں نے ملک کا جھنڈا
بلند کرنے والوں کوکوڑے کے ڈھیرمیں پھینکا ہوا ہے ۔۔۔۔میں بے اختیار مسکرا
دیا ۔۔۔یہ سوچ کر کہ اس کوڑے کے ڈھیر کے کنارے بھی جس پھول نے کھلنا تھا ،
اسے کوئی کھلنے سے نہیں روک سکا ، منشیات کے گڑھ بنے ہوئے اس کھنڈر میں گدا
بچھا کر انعام نے بڑے بڑے سورماؤں کو پچھاڑنے کی تیاری کی ہوگی ، اب کے تو
بھارت کا کھلاڑی انعام بٹ سے دس صفر سے ہارا ہے اور اسکے سامنے 90سیکنڈ بھی
نہیں ٹھہر سکا ، گوجرانوالہ کے شیر بیٹے نے ملک کے ساتھ ساتھ اپنے شہر
کانام بھی روشن کیا ہے ، ایک طرف اہل سیاست نے ملک کی ساکھ دنیا بھرمیں
تباہ کی ہوئی ہے مگر ہمارے نادان لوگ ان سیاستدانوں کے’’ انجانے‘‘ کارناموں
پہ زندہ باد کہتے ہوئے کروڑوں روپے انکے جلسوں پر اجاڑ دیتے ہیں ، کیا ہی
اچھا ہو کہ دھرتی کے ایسے سپوتوں کی حوصلہ افزائی کے لئے بھی تھوڑی فراخ
دلی دکھا دیں ، اگلے روزمیں گارڈن ٹاؤن ہاؤسنگ سوسائٹی کے چیئرمین چوہدری
افتخار احمد کے سامنے بیٹھا تھا ،دکھ بھرے لہجے میں بات کی تو انہوں نے بلا
تامل انعام بٹ کی خواہش کے مطابق اکیڈمی کے قیام میں تعاون کی حامی بھر لی
،انعام بٹ یقینی طور پر انعام و اکرام کا مستحق ہے اس نے سب سے پہلے اکیڈمی
کی خواہش کی ہے وہ چاہتا ہے اور زیادہ لڑکے ابھر کر سامنے آئیں ،انعام بٹ
کا کردار پاکستانیوں کے لئے ایک روشن مثال بن گیا ہے ، ان کرکٹ کے لاڈلے
کھلاڑیوں کے لئے بھی جو کروڑوں روپے سالانہ خرچ کرکے بنائی گئی کرکٹ اکیڈمی
اور مہنگے ترین فارن کوچز کی موجودگی میں سارا سال پریکٹس کرنے کے بعد بھی
باہر جاتی ہوئی گیند کو کھیلنے کاسلیقہ نہیں رکھتے ،انعام بٹ نے انہیں ایک
خاموش پیغام دے دیا ہے ، ،حوصلے پہاڑ جیسے ہوں تو مشکلات بھی خود راستہ بدل
لیتی ہیں، انعام کا پیغام سچی نیت اور صدق دل کے ساتھ پرخلوص کوشش اور
جستجو کا پیغام ہے
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی
فقظ ذوق پرواز ہے زندگی
|