زکوة کا مفہوم دو معنوں سے مرکب ہے۔ ایک پاکیزگی دوسرے
نشوونما۔ ان دو اصطلاحوں سے زکوة کا پورا تصور بنتا ہے۔
قرآن پاک میں ارشاد ربی ھے کہ
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ (١) الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلااَاتِہِمْ
خٰشِعُوْنَ (٢) وَ الَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ (٣) وَ
الَّذِیْنَ ہُمْ لِلزَّکٰوةِ فٰعِلُوْنَ (٤)
سورہ مومنون، آیت نمبر 1تا 4۔
ترجمہ: ”بیشک کامیاب ہو گئے دین ِمصطفی کی تصدیق کرنے والے o جو اپنی نماز
میں خشیت اختیار کرتے ہیں o اور وہ جو بیہودہ بات سے منہ پھیر نے والے ہیں
o اور وہ جو زکوٰة ادا کرنے والے ہیں۔ (ترجمہ افضلیہ )
زکوٰة کا لغوی معنی ہے : ستھرا ہونا، پاک ہونا، عمدہ نشو ونما، خوشحال
ہونا، بڑھنا، زیادہ ہونا، زمین کا زرخیز ہونا، ذکی وذہین ہونا، صالح ہونا
وغیرھا۔
شرعی اصطلاح میں زکوة کا اطلاق دو معنی میں ہوتا ہے ایک وہ مال جو مقصد
تزکیہ کے لیے نکالا جائے دوسرے زکوة بجائے خود تزکیہ کا فعل ہے۔ زکوة کا
لفظ ابتدائے اسلام سے ہی عام صدقات کے معنوں میں استعمال ہونے لگا تھا۔ اس
کا پورا نظام آہستہ آہستہ فتح مکہ کے بعد قائم ہوا۔ 8 ہجری میں زکوة کے
تمام قوانین مکمل ہو کر نافذ ہوگئے تھے۔ زکوة ہر زمانے میں دین اسلام کا
اہم رکن رہی ہے۔ تمام انبیا کی طرح انبیائے بنی اسرائیل نے بھی اس کی سخت
تاکید کی تھی۔ زکوة کے احکام تورات اور انجیل دونوں میں موجود ہیں لیکن ان
الہامی کتب میں مدت کے تعین میں قطعیت نہیں تھی۔
جبکہ شریعت اسلامیہ میں زکوة مالی عبادت اور ارکان اسلام میں سے ایک اہم
رکن ہے اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ نبی
آخر الزمان حضرت محمد مصطفی سے پہلے رسولوں کی امت پر بھی فرض تھی ۔ قران
مجید میں بیاسی (82)مرتبہ نماز کے ساتھ زکوة کی ادائیگی کا حکم ہے اور
ہمارے پیارے آقا فخر عالم و عالمیان اس سلسلہ میں صحابہ کرام ؓ سے بیعت لیا
کرتے تھے اور اگر کوئی جماعت یا گروہ ادائیگی زکوة کا منکر ہو تو اس کےخلاف
جنگ کرنے کا حکم ہے ۔ زکوة کا ذکر اکثر و بیشتر مقامات پر عبادت کے طورپر
نماز کے ساتھ آیاہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے ”اے ایمان والو اپنے اس پاکیزہ مال سے خرچ کرﺅ جسے تم
نے کمایا ہے “ (البقرہ)اور حضرت ابوہریرہ ؓ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی
کریم نے ارشاد فرمایا ”اے لوگو بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور صرف پاکیزہ
چیز کو ہی قبول فرماتا ہے“ ادائیگی زکوة کے بارے میں حضرت امام ابو حنیفہ ؒ
نے فرمایا ہے ”جس نے لاعلمی کی وجہ سے کسی غیر مستحق کو زکوة دے دی تو وہ
اسے کافی ہو جائے گی اس سے دوبارہ زکوة کا مطالبہ نہیں کیاجائےگا“ ۔ اس
سلسلہ میں حضرت امام شافعیؒ فرماتے ہیں ”جس نے غلطی سے کسی غیر مستحق کو
زکوة دے دی اور پھر اسے اپنی غلطی کا علم ہوگیا تو اس پر لازم ہے کہ وہ
دوبارہ کسی مستحق کو زکوة ادا کرئے ان کا فرمان ہے کہ جیسے قرض اصل مالک کے
علاوہ کسی اور کو ادا کر دیا جائے تو لامحالہ دوبارہ اس کی اصل مالک کو
ادائیگی ضروری ہے اس طرح زکوة بھی اس مستحق تک پہنچانا ضروری ہے .
لیکن درحقیقت زکوة دو پہلوﺅں پر مشتمل ہے ایک یہ کہ عبادت ہونے کی وجہ سے
اللہ کا حق ہے اور دوسرا غرباءو مساکین ، یتیموں بیوگان اور مجاہدین اسلام
کی کفالت کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے حقوق العباد میں سے ہے اور یوں یہ عبادت
بھی ہے اور مالی حق بھی زکوة ادا کرنے والے کا مال پاک ہو جاتا ہے اور مال
سے شر ختم ہو جاتا ہے
زکوۃ کے حساب کے لیے ہجری سال کی ایک تاریخ مقرر کرلیں۔ اور ہر سال اسی
تاریخ کو حساب کیا کریں۔
👇حساب لگانے سے پہلے دو چیزوں کو سمجھ لیں۔
نمبر1: قابل زکوۃ اموال اور اثاثہ جات۔
نمبر2: مالیاتی ذمہ داریاں یعنی جو رقم قابل زکوۃ اموال سے کم کرنی ہے۔
▪نمبر ایک: قابل زکوۃ اشیاء اور اثاثہ جات:
1: سونا اور چاندی، کسی بھی شکل میں ہوں اور کسی بھی مقصد کے لیے ہوں۔ کھوٹ
اور نگینے نکال کر ان کی جو مالیت بنے وہ نوٹ کرلیں۔
2: گھر میں یا جیب میں موجود رقم
3: بینک اکائونٹ یا لاکر میں موجود رقم
4: غیر ملکی کرنسی کی موجودہ مالیت
5: پرائز بانڈ
6: مستقبل کے کسی منصوبے( حج، بچوں کی شادی وغیرہ) کے لیے جمع شدہ رقم
7: تکافل یا انشورنس پالیسی میں جمع شدہ رقم
8: جو قرض دوسروں سے لینا ہے
9: کمیٹی BC کی جو رقم جمع کراچکے ہیں اور ابھی کمیٹی نہیں نکلی
10: کسی بھی چیز کے لیے ایڈوانس میں دی گئی رقم جب کہ وہ چیز ابھی ملی نہ
ہو۔
11: سرمایہ کاری، مضاربت، شراکت میں لگی ہوئی رقم
12: شئیرز، سیونگ سرٹیفیکیٹس، این آئی ٹی یونٹس، این ڈی ایف سیونگ
سرٹیفیکیٹس، پراویڈنٹ فنڈ کی وصول شدہ یا کسی اور ادارے میں مالک کے اختیار
سے منتقل شدہ رقم
13: مال تجارت یعنی دکان، گودام یا فیکٹری میں جو سٹاک قابل فروخت ہے اس کی
موجودہ قیمت
14: خام مال جو فیکٹری، دکان یا گودام میں موجود ہے، اس کی موجودہ قیمت
15: فروخت شدہ مال کے بدلہ میں حاصل شدہ اشیاء کی مالیت اور فروخت شدہ مال
کی قابل وصول رقم
16: فروخت کرنے کی نیت سے خریدے گئے پلاٹ، گھر یا دکان کی موجودہ قیمت
👆اوپر ذکر کردہ تمام اشیاء کی کل مالیت کا حساب نکال کر ٹوٹل کرلیں۔
▪نمبر دو: مالیاتی ذمہ داریاں یعنی جو رقم قابل زکوۃ اموال سے کم کرنی ہے۔
1: قرض جو ادا کرنا ہے یعنی ادھار لی ہوئی رقم۔
2: ادھار خریدی ہوئی چیزوں کی جو رقم ادا کرنی ہے۔
3: بیوی کا حق مہر جو ابھی ادا کرنا ہے۔
4: پہلے سے نکلی ہوئی کمیٹی BC کی جو بقیہ قسطیں ادا کرنی ہیں۔
5: آپ کے ملازمین کی تنخواہیں جواس تاریخ تک واجب الادا ہوں۔
6: ٹیکس، دکان مکان وغیرہ کا کرایہ، یوٹیلٹی بلز وغیرہ جو اس تاریخ تک واجب
الادا ہوں۔
7: گذشتہ برسوں کی زکوۃ جو ابھی ادا نہیں کی گئی۔
👆مذکورہ تمام اشیاء کی کل مالیت کا حساب نکال کر ان کا بھی ٹوٹل کرلیں۔
اب قابل زکوۃ اشیاء کی کل مالیت سے یہ بعد والی رقم یعنی مالیاتی ذمہ
داریوں والی رقم تفریق کردیں۔ جو جواب آئے اس کو چالیس 40 پر تقسیم کردیں۔
جو جواب آئے وہ آپ کے ذمہ واجب الادا زکوۃ کی کل رقم ہے۔ آپ یہ رقم اکٹھی
بھی دے سکتے ہیں اور تھوڑی تھوڑی کر کے بھی ادا کر سکتے ہیں۔
*زکوٰۃ کا نصاب*
پاکستانی کرنسی کے مطابق 2018ء میں زکوٰۃ کا نصاب ساڑھے باون تولے (612.36
گرام) چاندی کی قیمت تقریباً 47,000 سینتالیس ہزار روپے ہے.
کس کو زکوۃ نہیں دے سکتے؟
⭕ زکوۃ کی رقم حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے لیے حلال
نہیں۔ آپ کے خاندان سے مراد ہیں: *آل علی، آل عقیل، آل جعفر، آل عباس اور
آل حارث بن عبد المطلب رضی اللہ عنہم*۔ جو شخص مذکورہ پانچ بزرگوں کی نسل
سے ہو اسے زکوۃ نہیں دے سکتے، ان کی مدد کسی اور ذریعے سے کرنی چاہئیے۔
⭕ کافر کو زکوۃ دینا جائز نہیں۔
⭕ ایسی NGO’s اور ادارے جو شرعی حدود کا لحاظ نہیں کرتے، انہیں زکوۃ دینا
جائز نہیں۔
⭕ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کو زکوۃ نہیں دے سکتے۔
⭕ اپنے آباء و اجداد یعنی ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی وغیرہ اور اپنی آل
اولاد یعنی بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسہ نواسی وغیرہ کو زکٰوة دینا جائز
نہیں۔ ان کے علاوہ باقی مستحق رشتہ داروں کو زکوۃ دے سکتے ہیں۔
⭕ مسجد میں زکوۃ کی رقم نہیں دے سکتے۔
زکوۃ کس کو دے سکتے ہیں:
✅ ہر ایسا مسلمان جس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولے (612.36 گرام) چاندی یا
اس کی مالیت کے بقدر سونا، نقد رقم، مال تجارت یا روزمرہ کی استعمال سے
زائد اشیاء نہ ہوں وہ زکوۃ اور صدقات واجبہ کا مستحق ہے۔
زکوۃ کا بہترین مصرف:
1⃣ دینی مدارس ہیں اس میں دگنا ثواب ہے اشاعت وتحفظ دین کا اور ادائیگی
زکوۃ کا۔
2⃣ آپ کے مستحق رشتہ دار ہیں اس میں بھی دہرا ثواب ہے صلہ رحمی کا اور
ادائیگی زکوۃ کا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو قوم زکوة نہ دے گی اللہ
اسے قحط میں مبتلا فرمائے گا۔”
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جب لوگ زکوة کی ادائیگی چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ بارش کو روک دیتا ہے اگر
زمین پر چوپائے موجود نہ ہوتے تو آسمان سے پانی کا قطرہ بھی نہ گرتا( ابن
ماجہ)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ زکوة نہ دینے
والے پر رسول اللہ ۖ نے لعنت فرمائی ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ.
زکوة ادا نہ کرنے والا دوزخ میں جائے گا۔
اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فرماۓ. آمین |