قرب ِقیامت کی منجملہ علامتوں میں ایک علامت علم دین کا
اٹھالیا جانا بھی ہے، جس کا تذکرہ احادیث شریفہ میں بکثرت آیا ہے؛ لیکن علم
کیسے اٹھالیا جائے گا؟ کیا اچانک سینوں سے مٹادیاجائے گا کہ صبح ہوتے ہوتے
علماء کے سینے علم سے خالی ہوجائیں؟ نہیں! علم کے اٹھا لیے جانے کے معنی
اہل علم کا اٹھالیا جانا ہے، اس طور پر کہ علمی رُسوخ کے حامل علماء ایک
ایک کرکے اٹھا لیے جائیں گے، دنیا اس وقت اسی صورت ِحال سے دوچار ہے، علماء
ربانیین ایک ایک کرکے رخصت ہوتے جارہے ہیں، صرف بر صغیر ہندوپاک ہی جائزہ
لیں تو گذشتہ ایک سال کے عرصہ میں علم کے کئی آفتاب غروب ہوگئے، شیخ الحدیث
حضرت مولانامحمدیونس علیہ الرحمہ کی وفات ہی کیاکچھ کم المناک سانحہ تھا کہ
گذشتہ دنوں خانوادہ قاسمی کے گل سرسبد اور نانوتوی علوم کے وارث حضرت
مولانا محمد سالم صاحب قاسمی علیہ الرحمہ بھی داغ مفارقت دے گئے،مولانا
سالم قاسمیؒ یاد گار ِسلف ہونے کے ساتھ بانی دار العلوم دیوبند، حجۃ
الاسلام حضرت مولانا محمد قاسمی نانوتویؒ کے پڑ پوتے اور حکیم الاسلام حضرت
مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ کے خلف اکبر وجانشین تھے۔
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ سے کون ناواقف ہے؟ انہی کے دور
اہتمام میں دارالعلوم دیوبند کو عالمگیر شہرت حاصل ہوئی، علم کا ایسا
ٹھاٹھیں مارتا ہوا رسمندر تھا کہ ماضی قریب میں ان کی مثال ملنی مشکل ہے،
قاری صاحب کی بارہا حیدرآباد تشریف آوری ہوئی اور شہر کی مرکزی مساجد میں
ان کے خطابات بھی ہوئے، حیدرآباد کے جن بزرگ شہریوں کو قاری صاحب کی محفل
خطاب میں شرکت کا موقع ملا ہے انھیں اندازہ ہے کہ قاری صاحب کا خطاب کس قدر
علمی ہوا کرتا تھا، روانی کا یہ عالم کہ دریا بہہ رہا ہو، قاری صاحب کے
والد بزرگوار حضرت حافظ محمد احمد صاحبؒ کے سرزمین حیدرآباد سے گہرے روابط
تھے، وہ اسی سرزمین کے خطہ صالحین میں مدفون ہیں، حضرت قاری صاحبؒ اپنے دور
کے باکمال اور صاحب ِبصیرت عالم دین تھے،علمی بصیرت اور فکروآگہی کی وسعت
میں ان کا کوئی ہمسر نہیں تھا، وقت کے نامور علماء نے ان کے علمی کمال کا
اعتراف کیا ہے؛ چنانچہ جانشین مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی
دامت برکاتہم حضرت قاری صاحب کے کمالات وامتیازات پر روشنی ڈالتے ہوئے
لکھتے ہیں:
حکیم الاسلام کی شخصیت اپنے عہد کی بڑی مایہ نازعلمی وادبی شخصیت تھی، علم
دین اور حکمت ودانش کے بلند پایہ حامل تھے، انھوں نے اپنے عظیم مورث اور
علوم دینیہ میں بلند مقام رکھنے والے حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتویؒ سے
علمی گیرائی اور وسعت کی وراثت پائی تھی، اس کو ان کی تقریروں، تحریروں اور
دروس میں محسوس کیا جاسکتا ہے، انھوں نے اس بلند علمی مقام کے ساتھ ساتھ
دارالعلوم دیوبند جیسی عظیم درسگاہ کو جو ان کے اسلاف کی کوشش کا مرکز رہی
تھی، اپنے آغاز جوانی میں سنبھالا اور اس کی خدمت میں اپنی پوری عمر لگادی،
ان کی کوششوں کا مظہر صرف درالعلوم دیوبند کی ترقی اور مضبوطی ہی میں
نمایاں اور محدود نہیں تھا؛بلکہ اس کے نمائندہ خاص ہونے کے تعلق سے
ہندوستانی مسلمانوں کی دینی رہنمائی کا فریضہ بھی اثر پذیری کے ساتھ انجام
دیا، مسلمانوں میں جو دینی انحراف یا عقائد کی خرابی پائی جاتی تھی اس کے
ازالہ میں بھی خصوصی حصہ لیا، وہ ایک دل نواز اسلوب کے حامل خطیب تھے، ان
کی شخصیت بھی دل نواز تھی، وہ اپنی باطنی خوبیوں کے ساتھ دل نواز طرز
وانداز کے بھی مالک تھے، طبیعت میں نرم مزاجی اور خوش اخلاقی تھی، ان سے مل
کر مسرت حاصل ہوتی تھی، گفتگو اور انداز ِکلام دل کو متأثر کرنے والا اور
ذہنوں کو مطمئن کرنے والا تھا، اپنی بات کو علمی وتاریخی حوالوں اور مثالوں
سے واضح کرتے تھے، بعض اہم ترین موقعوں پر علماء کی طرف سے ان کی نمائندگی
بڑی مؤثر ثابت ہوئی، اسی طرح سے دارالعلوم دیوبند جو در اصل علومِ دینیہ کا
مؤثر ترین ادارہ رہا ہے اور ہے اس کی صحیح نمائندگی کا مولانا نے حق ادا
کیا، اور اس کے مہتمم کے منصب پر فائز رہے، اور جو ذمہ داری ان پر عائد
ہوتی تھی اس کو بھی ادا کیا (حیات ِطیب ۱؍۲۲)
مولانا محمد سالمؒ ایسے عظیم اور باکمال باپ کے باکمال فرزند تھے، حضرت
قاری صاحبؒ کی بہت سی خصوصیات مولانا سالم صاحب کو وراثت میں ملی تھیں،
قاری صاحب کی طرح ا ن کی شخصیت بھی بڑی دل نواز تھی، وہ علمی کمال اور ذاتی
خوبیوں میں اپنے والد محترم کا عکس جمیل تھے، باکمال معاصرین کی معاصرت اگر
کسی کے شخصی کمال کی دلیل ہوسکتی ہے تو مولانا سالم صاحب کے معاصرین اور
رفقاء تعلیم میں حضرت مولانا اسعد مدنیؒابن شیخ الاسلام مولانا حسین احمد
مدنیؒ، مولانا عتیق الرحمن سنبھلی ابن مولانا منظور نعمانیؒ اور مولاناسید
محمد رابع حسنی ندوی جیسی بلند پایہ شخصیات شامل ہیں، حضرت مولانا محمد
سالم صاحب خانوادہ قاسمی کے چشم وچراغ تھے، یہ وہ خانوادہ ہے جس کا سلسلہ
صدیق اکبرؓ تک پہونچتا ہے، صدیق اکبرؓ کی طرح اس خانوادہ کے بزرگوں نے بھی
نازک حالات میں حفاظت ِدین کا عظیم فریضہ انجام دیا، حضرت مولانا محمد قاسم
نانوتویؒ کی سوانح ’’الامام الاکبر ‘‘ کے مؤلف کے مطابق :
سب سے پہلے نویں صدی ہجری کے اواخر میں سکندر لودھی کے زمانہ میں اس خاندان
کے پہلے فرد قاضی مظہر الدین نے ہندوستان کا رخ کیا، اور سکندر لودھی کی
دعوت پر وہ ہندوستان تشریف لائے، اسی زمانہ میں نانوتہ واطراف میں جاٹوں نے
سر اٹھایا جن کی سرکوبی کے لیے سکندر لودھی نے قاضی مظہر الدین کے فرزند
قاضی میراں کی قیادت میں ایک لشکر بھیجا، لشکر کی کامیابی پر خوش ہوکر
سکندر لودھی نے یہ علاقہ اس خاندان کے نام کردیا، اس کے بعد سے اس خاندان
نے نانوتہ میں بود وباش اختیار کی، پھر دارالعلوم دیوبند کے قیام کے بعد
مولانا قاسمی نانوتویؒ دیوبند کے ہوکے رہ گئے(الامام الاکبر، ص:۷۵-۷۴)
یہ وہ عظیم خانوادہ ہے جس کا پورے بر صغیر پر احسان ہے، آج دنیا بھر میں
فضلائے دارالعلوم جو دینی خدمات انجام دے رہے ہیں وہ در اصل ا سی خانوادہ
کا فیض ہے، غیر منقسم ہندوستان میں احیائے دین، بدعات وخرافات کے خاتمے اور
سنتوں کی ترویج کے جو دینی اثرات نظر آرہے ہیں وہ سب اسی خانوادہ کی مرہون
منت ہیں، دارالعلوم دیوبند محض ایک ادارہ نہیں بلکہ احیائے اسلام کی
عالمگیر تحریک کا نام ہے، جس کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ نے دین اسلام کی نشأۃ
ثانیہ کا کام لیا اور جس کے فضلاء نے سارے ملک میں دینی مدارس کی جال
پھیلادی اور غیر اسلامی خرافات کا خاتمہ کیا، ایسے عظیم خانوادہ اور نامور
والدین کی گود میں ۸؍ جنوری ۱۹۲۶ء کو مولانا محمد سالم کی ولادت ہوئی،
ابتدائی تعلیم مختلف اساتذہ سے انفرادی طور پر حاصل کی، ثانوی تعلیم کے لیے
دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور وہیں سے ۱۳۶۷ھ میں فضیلت کی تکمیل
فرمائی، آپ کے فارسی کے اساتذہ میں خلیفہ عاقل صاحبؒ، مولانا ظہیر صاحبؒ
اور مولانا سید حسن صاحبؒ تھے،مولانا سالم صاحب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ
انھوں نے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے میزان الصرف پڑھی،
گویا وہ حضرت تھانویؒ کے آخری شاگرد تھے، آپ نے دارالعلوم دیوبند میں اس
دور کے چوٹی کے اساتذہ سے شرف تلمذ حاصل کیا، حضرت مولانا اختر حسین میاں
صاحب ؒسے کنز الدقائق ، قاری اصغر صاحبؒ سے میبذی، حضرت مولانا عبد السمیع
صاحبؒ سے مختصر المعانی اور حضرت مولانا عبد الاحد صاحبؒ سے ہدایہ پڑھی،آپ
کے اساتذۂ دورۂ حدیث میں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی صاحبؒ،
شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب، علامہ ابراہیم بلیاوی صاحبؒ اور
حضرت مولانا سید فخر الحسن صاحبؒ نمایاں ہیں،دورۂ حدیثسے فراغت کے بعد مادر
علمی ہی میں تدریسی خدمات کا آغاز فرمایا، نور الایضاح اور ترجمہ قرآن سے
ابتدا کرکے ترقی کرتے کرتے مشکوۃ شریف، ابوداؤد شریف اور بخاری شریف تک کی
کتابیں پڑھائیں، حضرت مولانا محمد سالم صاحب ایک کامیاب مدرس تھے، طلبہ میں
ان کا درس بے حد مقبول تھا، تفہیم کی بے پناہ صلاحیت رکھتے تھے اور ایک
کامیاب مدرس کے لیے مطلوب ساری صفات آپ کے اندر بدرجہ اتم پائی جاتی تھی،
مولانا سالم صاحب کو علوم نقلیہ کے ساتھ علوم عقلیہ میں بھی کافی درک حاصل
تھا، والد بزرگوار حضرت قاری محمد طیب صاحبؒ کے بعد مولانا سالم واحد شخصیت
تھے جو مولانا قاسم نانوتوی کے علوم ومعارف کی تفہیم وتشریح کا غیر معمولی
سلیقہ رکھتے تھے، حضرت نانوتوی کے وہ دقیق مضامین جو عام علماء کی فہم سے
بھی بالا تر ہوتے تھے، مولانا سالم صاحب انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ ان کی
تفہیم فرماتے تھے، مولانا سالم قاسمی کا ایک کارنامہ دارالعلوم دیوبند میں
مرکز المعارف کی نگرانی ہے، دارالعلوم کے ذمہ داروں نے مولانا سالم صاحب کو
اس مرکز کی ذمہ داری سونپی تھی،یہ در اصل دارالعلوم کا ایک تحقیقی شعبہ
تھا، اسی طرح جامعہ دینیات دیوبند کا قیام بھی مولانا کی تعلیمی سرگرمیوں
کا ایک روشن باب ہے، عصری یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبہ کو مراسلاتی
طریقہ تعلیم کے ذریعہ اسلامی علوم سے آراستہ کرنے کی خاطر مولانا نے دیوبند
میں جامعہ دینیات کا قیام عمل میں لایا تھا۔
مولانا کی صلاحیتوں کے حقیقی جوہر اس وقت کھلے جب دارالعلوم کے قضیہ
نامرضیہ کے بعد دارالعلوم وقف کا قیام عمل میں آیا، ۱۹۸۲ء میں دارالعلوم
وقف کی بنیاد پڑی اور ۱۹۸۳ء میں قاری محمدطیب صاحبؒ کے انتقال کے بعد
مولانا سالم اس کے مہتمم ہوئے، لوگوں نے دیکھا کہ کس طرح مولانا سالم نے
اپنی بے پناہ انتظامی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مختصر سی مدت میں
دارالعلوم وقف دیوبند کو ایک عالمی ادارے کی حیثیت سے متعارف کرایا، مولانا
محمد سالم برسوں تک دارالعلوم وقف میں بخاری شریف کا درس دیتے رہے،جہاں تک
تصنیف وتالیف کی بات ہے تو اگرچہ مولانا نے تصنیف وتالیف کو مستقل مشغلہ
نہیں بنایا اورآپ کی بے پناہ انتظامی مصروفیات اس کی اجازت بھی نہیں دیتی
تھیں؛ لیکن وقتا فوقتا آپ کی علمی سرگرمیاں جاری رہیں، مختلف سمیناروں کے
لیے آپ نے بیش قیمت علمی مقالات تحریر فرمائے، بہت سی علمی کتابوں پر وقیع
مقدمات لکھے، ویسے آپ کے خطبات بذات خود عظیم علمی سرمایہ کی حیثیت رکھتے
ہیں، جن کی مختلف جلدیں خطبات خطیب الاسلام کے نام سے شائع ہوکر اہل علم سے
خراج تحسین حاصل کرچکی ہیں، علماء نے آپ کی مستقل تصنیفات میں درج ذیل
کتابوں کا تذکرہ کیا ہے: (۱) مبادئ التربیۃ الاسلامیہ (عربی) (۲) تاجدار
ارض حرم کا پیغام (۳)مرد غازی(۴) ایک عظیم تاریخی خدمت۔دارالعلوم وقف
دیوبند میں قائم حجۃ الاسلام اکیڈمی بھی مولانا سالم صاحبؒ کے علمی وتحقیقی
ذوق کی مظہر ہے۔
امتیازات
مشاہیر کی زندگی کمالات وامتیازات کا حسین مرقع ہوتی ہے، اور یہی امتیازی
خصوصیات بعد والوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوتی ہیں، حضرت مولانا محمد سالم
صاحبؒ کی بعض خصوصیات انفرادی شان رکھنے کے ساتھ لائق تقلید بھی ہیں:
۱- مولانا کے شاگردوں کا کہنا ہے کہ مولانا سالم وقت کے بڑے پابند تھے،
اکابر شخصیات اور سلف صالحین کے یہاں وقت کی قدروقیمت کی سیکڑوں مثالیں
ملتی ہیں، حضرت مولانا سالم صاحب اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وقت کا بڑا
اہتمام فرماتے تھے، مولانا سالم صاحب کے شاگرد رشید اور دارالعلوم وقف
دیوبند کے استاذ مولانا محمد اسلام صاحب اپنے استاذ محترم کے بارے میں
لکھتے ہیں: ’’حضرت مولانا (محمد سالم) دارالعلوم کے وہ استاذ ہیں جو تدریس
کے ساتھ وقت کے اتنے پابند کہ بلا شبہ طلبہ درس گاہ میں ان کی آمد پر اپنی
گھڑیوں کے ٹائم سیٹ کرتے، طلبہ دیکھا کرتے تھے کہ وہ متعینہ درس گاہ (دار
التفسیر) میں ایک قدم اندر رکھتے، اسی وقت گھنٹہ بجتا تھا، وقت کے منٹوں
اور سکنڈوں کے لحاظ سے اتنے پابند دارالعلوم کے اساتذہ وکارکنان میں سے
کوئی نہ تھا، یہ بھی ان کی خوبی تھی کہ تدریس کے لیے وہ اپنے گھر سے نکلتے
اور براہ راست درس گاہ پہونچتے، اختتامی گھنٹہ بجتا اور وہ واپس صدر گیٹ کے
راستے اپنے گھر کو روانہ ہوتے ، نہ کسی سے ملاقات نہ کسی دفتر میں جانا‘‘
۲- مولانا سالم صاحب کی ایک خصوصیت مسلکی اعتدال اور فروعی مسائل میں شدت
سے گریز تھی، آپ کے ایک خوشہ چیں معروف محقق اور ندوی فاضل مولانا ڈاکٹر
اکرم ندوی حضرت کے اس امتیاز پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :’’آپ کی ایک
اہم خوبی تھی کشادہ دلی وبے تعصبی اور جزئیات وفروعی مسائل میں توسع،اس وصف
کم یاب بلکہ نایاب میں آپ ایک شریف اور تہذیب یافتہ صاحب علم وفکر کی طرح
سلف صالح کے اسوہ پر قائم تھے، آپ نے ایک بار آکسفورڈ میں دین اور مسلک کے
درمیان فرق کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ عام طور سے لوگ مسلک کو دین کا
درجہ دیتے ہیں اور دین ومسلک میں کوئی فرق نہیں کرتے‘‘
۳- آپ کا نمایاں وصف عزم وحوصلہ اور سخت حالات میں صبرواستقامت کے ساتھ
اپنے موقف پر قائم رہنا ہے، دارالعلوم کے قضیہ میں انتہائی نازک مراحل آئے
؛ لیکن آپ کے پایہ ثبات میں تھوڑی سی بھی لغزش نہ آئی، دارالعلوم وقف کا
قیام بھی کسی چیلنج سے کم نہ تھا؛ لیکن آپ نے اس چیلنج کو قبول کیا، پھر
دنیا نے دیکھا کہ کس طرح قلیل مدت میں یہ ایک عظیم اسلامی یونیورسٹی بن
گیا۔
۴- اسی طرح آپ کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ آپ نے عام علماء کی طرح صرف
دارالعلوم دیوبند کی فراغت پر اکتفاء نہیں کیا؛ بلکہ علم وتحقیق کی مزید
جستجو میں لگے رہے، علمائے سلف کی کتب سے استفادہ کا سلسلہ جاری رکھا، نیز
محقق علماء کی مجالست کو بھی ضروری سمجھا، یہی وجہ تھی کہ آپ کی ہر گفتگو
علمی ہوا کرتی تھی اور آپ کی مجالس سے علم وتحقیق کارنگ جھلکتا تھا۔
۵- مولانا کاایک امتیاز دینی خدمات میں وسعت اور تنوع تھا، اس کااندازہ آپ
کے عہدوں اور مناصب سے لگایا جاسکتا ہے، آپ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ
کے تا حیات نائب صدر رہے، مجلس مشاورت کے صدر ، دارالعلوم وقف دیوبند کے
سرپرست، مجلس منتظمہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے رکن، مجلس شوریٰ مظاہر علوم
وقف کے رکن، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے کورٹ کے رکن، کل ہند رابطہ مساجد کے
سرپرست اور اسلامک فقہ اکیڈمی کے سرپرست تھے، آپ کی ان ہمہ جہت اور متنوع
خدمات کی وجہ سے عالم اسلام اور اندرون ملک آپ کو مختلف اعزازات اور
ایورڈوں سے نوازا گیا، مصر کی حکومت نے آپ کو بر صغیر کے ممتاز عالم کا
نشان امتیاز عطا کیا، اسی طرح ترکی کی جانب سے آپ کو مولانا قاسمی نانوتوی
ایوارڈ عطا کیا گیا، نیز حضرت شاہ ولی اﷲ ایوارڈ سے بھی آپ کونوازا گیا،
مولانا کا ایک وصف خاص یہ تھا کہ وہ دین وملت کی فکر میں اپنا سب کچھ قربان
کردیا کرتے تھے۔
۶- مولانا کی زندگی میں جو چیز نمایاں طور پر نظر آتی تھی وہ عفو در گذر
اور تحمل وبرداشت تھی، مولانا انتقامی جذبات سے ما وراء تھے، دارالعلوم کے
قضیہ نامرضیہ کے دوران مخالفین نے آپ کے تعلق سے کیا کچھ طوفان نہ کھڑا
کیا؛ لیکن آپ نے کسی کے خلاف منفی رد عمل کا اظہار نہیں کیا، الغرض ستودہ
صفات اور اعلیٰ کردار کی حامل یہ شخصیت ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئی،فی الواقع
مولانا سالم قاسمی سرخیل علماء اور اکابر کی شان تھے، اب ایسی شخصیات چراغ
لیکر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گی، شاعر نے سچ کہا
ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
|