انسانیت،ایثار،ہمدردی اور اس جیسے تمام الفاظ کھوکلے اور
بالکل بمعنی ہو چکے۔ایک ہی ملک کے اندر کچھ ملک کے باسی اور کچھ ملک کے
اجنبی باسی بن چکے۔کچھ کا خون سب لوگوں کا غم و دکھ بن جاتا ہے اور کچھ کے
خون پر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔لفاظی کا ارادہ نہیں لیکن درد کو
الفاظ کا جامہ پہنانے پر مجبور ہوں۔کوئٹہ کے اندر کئ سالوں سے شیعہ ہزارہ
کمیونٹی پر ظلم کے مصائب ڈھائے جا رہے ہیں۔نسل کشی کی جارہی ہے،ملک سے فرار
پر مجبور کیا جارہا ہے،تعلیم و تربیت،کھیل و ثقافت کے تمام میدان ویران کر
دئیے گئے لیکن پاکستانی عوام ابھی بھی شیر و بلے کے گرد محو رقص ہے۔نہیں
معلوم کہ انسانیت کس افسانوی پرندے کا نام ہے۔ہمدردی کس موجود معدوم کے
اوصاف میں سے ہے۔ایک علاقے میں ایک ظالم مار دیا جاتا ہے تو میڈیا آہ و
واویلا شروع کردیتا ہے،انسانیت کی پامالی اور بے حرمتی ہوتی نظر آتی ہے
لیکن ایک علاقے مین ہزاروں لوگوں کو بےگناہ شھید کردیا جاتا ہے اور سب کر و
لال ہو کر مجرمانہ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔مرنے والے چیخ چیخ کر یاد دلا
رہے ہیں کہ ہم بھی اس ملک کے شہری ہیں۔ہمارے شناختی کارڈ پر ملیت پاکستانی
ہونا ہے۔ہم نے بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔کھیل و
ثقافت کے میدانوں میں ہم نے بھی پاکستان کا پرچم اٹھایا ہے۔ہم بھی پاکستانی
ہیں۔ہاں ہم بھی پاکستانی ہیں۔پھر فراموشی کیوں؟
ٹھیک ہے کہ آپ اس ملک کے باسی ہیں لیکن ملک کے اجنبی باسی۔ہاں اس ملک کے
اجنبی باسی!!!
|