خیبرپختونخوا میں تعلیم کا فقدان اور حکومت کی ترجیحات

ملک کی ترقی تعلیم ہی کے ذریعے ممکن ہے تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے کوئی بھی ملک یا معاشرہ ترقی کی راہ میں گامزن نہیں ہوسکتاہے تعلیم عام کرنے کے لئے زیادہ وسائل کی ضرورت نہیں پڑتی اور نہ ہی زیادہ تعلیمی ادارے کھولنے سے تعلیم عام ہوتی ہے اگر ہم باہردنیا کی طرف ایک نگاہ دوڑائیں تو تعلیم کے میدان میں روس ،امریکہ ،یورپ ،انڈونیشیا،چین اور برطانیہ آگے جاچکے ہیں پاکستان میں تعلیم عام کرنے کیلئے موجود ہ حکمران اور بیورکریٹس سرگرم عمل ہیں لیکن ہم کیوں تعلیم کے میدان میں پیچھے رہ چکے ہیں ہمارے طلباء و طالبات کو اچھی تعلیم کے حصول کیلئے باہردنیاکوجانا پڑتا ہے وہاں تعلیم عام کیوں ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں پراچھی پرورش اور بہتر تربیت پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں بچوں کے صلاحیتوں کوپرکھاجاتاہے جب بچہ پید ا ہوتا ہے تو والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ پہلا قدم سکول کی طرف لے لیں اور اچھی تعلیم حاصل کرلیں جب بچہ طوطلی زبان بھولنے لگے تو اُس کو سکول میں داخل کیا جاتاہے بچپن سے لے کر لڑکپن تک تعلیم کے حصول کیلئے جدوجہد کرتا ہے حصول تعلیم کے لئے پاکستان میں بھی بہت زیادہ سرکاری و پرائیویٹ تعلیمی ادارے کام کررہے ہیں لیکن اگر دیکھا جائے تو اس وقت بھی ہزاروں کی تعداد میں بچے تعلیم کی بجائے مختلف اداروں میں اور سبزی منڈیوں میں کاروبار کرتے ہوئے دیکھنے کوملتے ہیں کوئی لفافے فروخت کرتا ہے، کوئی مزدوری کرتاہے کوئی ورکشاپوں میں کام کرتے ہیں کوئی بھیک مانگنے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ایک طرف حکومت پاکستان تعلیم کے حصول کیلئے بانگ وبالا دعوے کرتی ہے تو دوسری طرف ہمارے معاشرے میں تعلیم کا یہ حال ہے پاکستان کے مختلف اضلاع میں پرائیویٹ اور سرکار ی سکولز کام کرتے ہیں ان میں چند ایک سکول حجرے میں تبدیل ہوئے ہیں یہ حقیقت ہے کہ اقوام کی تعمیروترقی کا راز بہترتعلیمی نظام میں مضمرہے اور بہترین تعلیمی نظام کا راز چیک اینڈ بیلنس (جزاوسزا)کے مؤثر نظام سے عبارت ہے ہمارایہ نظام پروان چڑھنے کے بجائے گھٹ کیوں رہاہے اس کی بڑی وجہ چیک اینڈ بیلنس کافقدان ،میرٹ کی پامالی اورتعلیمی اداروں میں بے جا سیاسی مداخلت ہے آفسوس صد آفسوس کہ ہردور میں سیاسی قوتوں کے ایجنٹ نظام کو چلنے نہیں دیتے موجودہ حکومت جومیرٹ کی عالمبردار کہلاتی ہے خصوصاًتعلیمی ایمرجنسی کی دعویدار ہے،سب زبانی جمع خرچ کے علاوہ اور کچھ نہیں اگر ایک طرف حکومت کروڑوں اوراربوں روپے کی مفت کتابیں دینے کی بلندوبالا دعویدار ہے تودوسری طرف اس کے ایجنٹ تعلیمی گلے کاٹنے کے پے درپے ہیں تحریری اورچشم دید گواہوں سے ثبوت دستیاب ہیں کہ یہاں پر کچھ ایجنٹ ہیں جو دونوں ہاتھوں سے ہمارے تعلیمی نظام کو لوٹ کر دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں بلکہ قومی غدار اور تعلیمی قاتل کہلانے کے مستحق ہیں حکومت کی غفلت کی وجہ سے ہمارامعیار تعلیم بلند ہونے کے بجائے پستی کی طرف جارہا ہے ایسے سکولوں کا کیا فائدہ جن میں بچے تعلیم سے محروم ہیں حکومت کا دعویٰ ہے کہ ہم بچوں کو سرکاری سکولوں میں مفت کتابیں اور یونیفارم فراہم کرکے مفت تعلیم دے رہے ہیں لیکن ملک میں زیادہ تر بچے تعلیم سے بے خبر ہے کہ تعلیم کیا ہے اور تعلیم کسی خاتون کا نام ہے یامردکا ،تعلیم عام کرنے کیلئے موجود ہ خیبر پختونخوا کی حکومت جو پاکستان تحریک انصاف نے بنائی ہے وہ بھی تعلیم کے حصول کیلئے جد وجہد کررہی ہے اُن کے وزراء ہر اسٹیج اور ہر جلسے جلوسوں میں تعلیم عام کرنے کے دعوے کررہی ہے لیکن میں زیادہ آگے نہیں جانا چاہتا خیبر پختونخوا میں لاکھوں بچے تعلیم کے حصول سے محرو م ہیں ان ہی حکومت نے کئی اضلاع میں یونیورسٹیوں ،کالجز اور سکولوں کا قیاعمل میں لایاہے اور تعلیم عام کرنے کیلئے آگاہی مہم چلاتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرو اور تعلیم انسان اندھیروں سے نکل کر روشنیوں کی طرف لاتا ہے لیکن دوسری طرف ان ہی حکومت نے خیبر پختونخوا میں چار سوکے قریب مکتب سکولز بندکردیئے ہیں یہ تعلیم کے دروزاے کھول رہی ہے یا بند کررہی ہے اُنہوں نے خیبر پختونخواکے سکولوں میں مانٹیرنگ نظام عمل متعارف کیا اس سے اساتذہ صبح آتے ہی سکولوں بائیو میٹرک حاضری لگا رہے ہیں اس کے فوری حاضری پشاور سیکرٹریٹ لگاتی ہے کہ فلاں استاد سکو ل کو آیا ہے اور فلاں نہیں آیاہے اب اس بائیو میٹرک نظام کا کتنا فائد اور کتنا نقصان ہے بظاہر تو حکومت کوفائدہ لگ رہاہے لیکن دوسری طرف طلباء احتجاج کرتے ہیں اُن کاموقف ہے کہ صبح اساتذہ بائیو میٹرک کے ذریعے حاضری لگاتا ہے بعد میں رفوں چکر ہوجاتے ہیں پھر دن بار کلاسوں سے غائب رہتے ہیں فائدحکومت کو صرف عکاسی میں نظر آرہی ہے بظاہر فائدہ نہیں ہے صرف تعلیمی ادارں میں کم چوری نہیں ہے بلکہ ہر ادارے میں ایساہورہاہے کہتے ہے کہ بچے قوم کا مستقبل بلکہ مستقبل کے معمار ہوتے ہیں یہی بچے آگے چل کرملک وقوم کی خدمت کی بھاری ذمہ داریاں اپنے کندوں پر اٹھائیں گے ان کی صحیح تعلیم وتربیت کرکے ہی ان کو ایک اچھا مسلمان اور معاشرے کی ایک مفید رکن بنایا جا سکتا ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے یہاں عموماًـدرس وتدریس میں ناجائزطور پر بچوں کوتشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ساری پڑھائی ڈنڈے کی زور پر کی جاتی ہے اور لطف کی بات تو یہ ہے کہ کہ اس کو تعلیم وتربیت کا ایک لازمی جزو سمجھا جاتا ہے استاد بجائے مشفق اور مہربان باپ ہونے کے جلاد کا کردار ادا کرتاہے بچہ استاد کے ڈنڈے کے خوف سے کمرہ جماعت میں سہما اور ڈرا ڈرا سا رہتا ہے استاد کا ڈنڈا طلبہ کے سروں پرایک لٹکتی ہوئی تلوار ہوتی ہے اور ان کا ذہن کتاب سے زیادہ ڈنڈے کی طرف رہتاہے شیخ سعدی ؒنے تو بہترین معلم کا کمال یہ بتایا ہے کہ وہ اپنی محبت شفقت اور ہمدردی سے باغی اور بھگوڑا بچوں کو بھی درسگاہ میں لا سکتا ہے۔
؂ درس ادیب اگر بود زمزے محبتے جمعہ با مکتب آوردطفل گریز ہائے را

تاہم حکومت کوشش کرنے میں مصروف عمل ہیں کہ جو بچے تعلیم سے محروم ہیں و ہ تعلیم سے آراستہ کرائیں اگر دیکھاجائے تو خیبرپختونخوا کی پسماندہ ضلع بنوں میں بھی ایسے بچے دیکھنے کو ملتے ہیں جو تعلیم کے حصول سے محروم ہیں جب صبح کے وقت میں اخبار دیکھنے کیلئے گھر سے نکلتا ہوں مجھے اکثر چھوٹے چھوٹے تعلیمی کتاب کے بجائے اپنے لئے رزق کی تلاش میں مصروف نظر آتے ہیں جہاں پرمختلف کاروباری مراکز میں کاربار کرتے نظرآتے ہیں ایک طرف حکومت نے چائلڈ لیبر کا قانون بنایا ہے جبکہ دوسری طرف اُٹھارہ سال سے کم عمر بچے کاروبار کرتے ہیں اور تعلیم کے حصول سے محروم ہیں حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ چائلڈلیبر قانون کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر بچے تعلیم کی طرف مرکوز کریں اور اُن کو تعلیم سہولیات باہم پہنچائے تاکہ صوبہ میں تعلیم کا معیار بلند ہو اور معصوم بچے کلاشنکوف کلچر کو چھوڑ تعلیم پر توجہ دیں ۔

Rufan Khan
About the Author: Rufan Khan Read More Articles by Rufan Khan: 32 Articles with 27511 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.