معاشرہ جس روش پہ چل رہا ہے، اس میں بیمار ذہنوں کی
پیداوار ایک لازمی امر ہے۔ انتہاپسندی اور عدم برداشت کے رویے زندگیوں ہی
کے چراغ گُل نہیں کر رہے یہ عفریت انسانیت، علم، ہم دردی، یگانگت اور علم
وآگہی سمیت تمام روشن اقدار کو نگلے جارہے ہیں۔9 mm کی گولی ہر اُجالے کا
نصیب بن جائے تو کہاں روشنی رہے گی۔ اور ہمارے دیس میں یہی ہورہا ہے۔
انتہاپسندی کے اندھیروں کی یلغار اور تشدد کی کالی آندھی اس زور سے چل رہی
ہے کہ سب چراغ بجھتے جارہے ہیں۔
زندگی کے کچھ واقعات سانحہ بن کر روح میں اتر جاتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ
ساتھ محسوس یوں ہوتا ہے کہ زخم بھرگیا ہے لیکن ایسا ہوتا نہیں، بس انسان
اپنے آپ کو تسلی کی چادر میں لپیٹ کر دھوکا دیتا ہے۔ 29 اپریل 2015 ایک
سانحہ،ایک قرب ناک دن۔وہ دن میرے محترم استاد ڈاکٹر وحید الرحمن کی شہادت
کا دن تھا۔
نظریے اور عقیدے کی بنیاد پر کسی کی جان لے لینے کی خوف ناک روایت مذہبی
حلقوں سے سیاسی جماعتوں تک ہر جا اپنے منحوس سائے پھیلاچکی ہے۔ اس صورت حال
کا سب سے خوف ناک پہلو فرقہ واریت میں شدت اور تشدد کا عنصر آجانا ہے۔
مساجد کی ملکیت اور گلی محلوں میں ہونے والی سرپھٹول سے بڑھ کر اب فرقہ
واریت امت مسلمہ کے لیے ماضی کے مقابلے میں کہیں بھیانک ہوچکی ہے۔ فرقہ
واریت کو اسلام دشمن قوتیں اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ اس
ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے سیدھی سادی سیاسی اور جمہوری تحریک یا غیرملکی
طاقت کے غلبے کے خلاف جدوجہد کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا جاتا ہے۔
بدامنی کا شکار دیگر ممالک میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے بارے میں واضح ہے کہ
کون کر رہا ہے اور کیوں ہورہا ہے، لیکن ہم اس بدقسمت ملک اور بدنصیب شہر کے
باسی ہیں جہاں اکثر مرنے والے کو پتا ہوتا ہے کہ اسے کیوں مارا گیا نہ اس
کے ورثاء جان پاتے ہیں کہ ان سے ان کا پیارا کس جرم کی پاداش میں چھین لیا
گیا اور نہ ہی عوام کے سامنے یہ حقیقت آتی ہے کہ قتل کا سبب کیا تھا؟ میرے
ملک میں قتل کرنا شاید سب سے آسان عمل ٹھہرا ہے۔ کسی کی بھی جان لے لو، خون
مٹی میں جذب ہونے سے پہلے ہی قانون میں دب جائے گا اور لوگوں کے ذہنوں سے
محو ہوجائے گا۔ پھر کون قاتل کیسا قتل، ’’نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا۔‘‘
ڈاکٹر وحید الرحمن یاسر رضوی کا قتل بھی ایک ایسا ہی اندوہ ناک واقعہ ہے۔
ڈاکٹروحید الرحمن یاسر رضوی کا قتل فقط اُن کے اہل خانہ، احباب اور اُن کے
ہزاروں طلبا ہی کے لیے ناقابل تلافی نقصان نہیں، یہ تو پوری قوم اور ریاست
کا زیاں ہے۔ ایک اسکالر، ایک استاد ،معروف صحافی، جامعہ کراچی کے شعبہ
ابلاغِ عامہ کے پروفیسر۔ گویا علم وآگہی اور اعزاز کا شہر مٹادیا گیا۔ سسٹم
یا ریاست کئی عشرے اور نہ جانے کتنے پیسے خرچ کرکے ایک اسکالر تیار کرتی
ہے، اور اسے چند سو روپے کی گولی یک دم ختم کردیتی ہے۔ ریاست کو اپنے اس
ہول ناک نقصان کے بارے میں اب سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔
یہ سب کہنا تو لایعنی ہوگا کہ قتل کی یہ روح فرسا واردات دن دیہاڑے اور
بھری پری سڑک پر ہوئی، کہ ہمارے شہر میں قاتلوں کو نہ دن کی روشنی میں قتل
کرتے خوف آتا ہے نہ کسی پُررونق علاقے میں خون کی ہولی کھیلتے ہوئے انھیں
کسی کا ڈر ہوتا ہے۔ خوف اور دہشت تو بس اس شہر کے نہتے اور پُرامن باسیوں
کا مقدر ہے، چاہے وہ قانون کا خوف ہو یا قاتلوں، ڈاکوؤں اور راہ زنوں کی
دہشت۔
دانش اور علم کا یہ چراغ بجھانے والے کون تھے؟ ڈاکٹروحید الرحمن یاسر رضو ی
کوکس ’’جرم‘‘ کی سزا دی گئی؟ ان کے قتل کے پیچھے کیا مقاصد اور محرکات
کارفرما تھے؟ ان سوالوں کا جواب تو پولیس کی تفتیش کے بعد ہی سامنے
آسکتاتھا، لیکن اس کے لیے ضروری تھا کہ صحیح معنوں میں تفتیش ہو تی اور
مجرموں تک پہنچنے میں کوئی مصلحت نہ آڑے آتی،لیکن ہمارے یہاں ایسا کم کم ہی
ہوتا ہے۔
یہ دردناک واقعہ جانے کب تک دل کو نڈھال اور روح کو گھائل کیے رکھے گا۔ کیا
قیامت ہے، ڈاکٹروحید الرحمن یاسر رضوی جیسا نیک سیرت، وسیع المطالعہ، وسیع
النظر اور امن پسند عالم اور دانش ور قتل کردیا گیا۔ یہ کوئی پہلا واقعہ
نہیں، ہمارے ملک اور خاص طور پر کراچی میں کتنے ہی علمائے دین، اساتذہ،
ڈاکٹر اور وکیل خون میں نہلائے جاچکے ہیں۔ علم ودانش اور فکر کی اعلیٰ سطح
صاحب الرائے افراد کو جنم دیتی ہے، اور ہمارے ہاں اختلاف رائے اور
اظہاررائے فقط قتل قرار پائے ہیں۔ اگر یہی ہوتا رہا تو ہمارے یہاں کوئی
دانش ور ہوگا نہ مفکر، علمی لحاظ سے بنجر ہوجانے والی اس سرزمین پر ہر طرف
سہمی ہوئی خاموشی کا راج ہوگا۔ سقراط کو زہر کا پیالہ پلانے کے لیے تو
عدالت لگی تھی، لیکن ہمارے ہاں ہر شخص ہاتھوں میں زہر کا پیالہ لیے پلانے
کو تیار کھڑا ہے۔ ہم تو عدم برداشت کے معاملے میں قبل مسیح کے یونانیوں کے
دور سے بھی پیچھے جاچکے ہیں۔
یک ایسے شخص کو ماردیا گیا تھا جو صحیح معنی میں سیلف میڈ تھا۔ چھوٹی عمر
میں باپ کی شفقت سے محروم ہونے والے ڈاکٹر وحید الرحمن المعروف یاسر رضوی
نے نوکری کرتے ہوئے تعلیم جاری رکھی۔ اپنی محنت اور قابلیت سے صحافت کے
شعبے میں نام بنایا اور ساتھ ہی صحافت کی تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ ہمیشہ ایک
جملہ زبان پر ہوتا کہ دعا کیجیے کہ میرا خاتمہ ایمان پر ہو۔ اﷲ نے انہیں
شہادت کا اعلیٰ درجہ عطا کیا۔
ڈاکٹریاسر رضوی کی شہادت میرے اور مجھ جیسے ان کے لاتعداد شاگردوں کے لیے،
جنھیں وہ اولاد کی طرح سمجھتے تھے، ایک سانحہ تو ہے ہی، لیکن یہ پوری قوم
کے لیے بھی ایک المیہ ہے۔ ڈاکٹرشکیل اوج اور دیگر کئی اساتذہ کی طرح ایک
اور استاد کو خون میں نہلادیا گیا، لیکن قاتل قانون کی گرفت میں نہیں آسکے۔
یہی نہیں، حکومت کی جانب سے ان کے پسماندگان، جن میں بیوہ اور دو بیٹیاں
شامل ہیں، کو معاوضے کی جو رقم دینے کا وعدہ کیا گیا تھا وہ بھی اب تک پورا
نہیں کیا جاسکا ہے۔ نہ ہی اس خاندان کو مرحوم کی پینشن کی رقم دی گئی ہے۔
بڑی سے بڑی رقم بھی مرحوم کے اہل خانہ کے لیے ان کے پیارے اور ہم شاگردوں
کے لیے اپنے شفیق استاد کا نعم البدل نہیں ہوسکتی، لیکن یہ رقم ایک ایسے
گھرانے کو معاشی مسائل کا شکار ہونے سے بچاسکتی ہے جو اپنے واحد کفیل سے
محروم ہوگیا ہے۔ اسی طرح معاوضے کا اجراء یہ باور کراسکتا ہے کہ حکم رانوں
کے دل میں علم اور استاد کے لیے تھوڑی بہت قدر ہے۔
آخر میں میرا سوال ہے کہ ایک استاد کے قاتلوں کی گرفتاری میں اتنی تاخیر
کیوں؟ کیا علم دینا ہمارے ہاں اتنا بڑا جرم بن گیا ہے جس کی سزا جسم میں
گولیاں اتاردینے کی صورت میں دی جائے اور پھر حکم راں اور قانون اس قتل پر
سوچ کر خاموش ہوجائیں کہ یہ خونِ خاک نشیناں تھا، رزقِ خاک ہوا
|