حوصلہ شکن اقدامات

صوبہ خیبرپختونخوا عرصہ دراز سے دہشت گردی اور بدامنی کا شکار صوبہ رہاہے جس کے نتیجہ میں ہزاروں افراد نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بدامنی اور افراتفری کے ادوار میں زندگی کتنی اضطراب کا شکار رہتی ہے،ایسے میں روزمرہ امور کے ساتھ ساتھ معاشرہ کی ترقی بھی یکسر رُک جاتی ہے اور کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا صوبہ خیبرپختونخوا بھی کررہاہے،جہاں تعلیمی،طبی اور دیگر شعبہ جات براہ راست متاثر ہوئے تاہم اس صوبہ اور اس مٹی سے محبت ولگاؤ رکھنے والے چند افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت ڈوبتی لنکا پار لگا ئی،کہیں سکول ،کالجز اور یونیورسٹیاں قائم کیں اور کہیں طبی مراکز ،کہیں سماجی ادارے قائم کرکے غیروں کے دیے گئے زخموں پر مرہم رکھے گئے تو کہیں صوبہ کی ڈوبتی کاروباری صنعت اورمعیشت کو سہارا دے کر ہزاروں پڑھے لکھے نوجوانوں کوبرسرروزگار بنادیا۔کچھ ایسے ہی کہانی صوبہ بھر میں ملک وقوم کی خدمت میں پیش پیش نجی تعلیمی اداروں کی بھی ہے،یہ ادارے جہاں محب وطن ،اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی پیدا کررہے ہیں تو ساتھ صوبہ کی بنیادی شرح خواندگی کو بڑھانے میں بھی اپنا مثبت کردار اداکررہے ہیں تاہم نہ جانے کیوں موجودہ صوبائی حکومت عرصہ دراز سے دی جانے والی قربانیوں کو یکسر نظرانداز کرکے انہیں سڑکوں پر لانا چاہتی ہے،ایک طرف جہاں صوبہ کا اعلیٰ تعلیم یافتہ،سمجھ دار نوجوان انہی تعلیمی اداروں کی وجہ سے برسر روزگار ہے تودوسری جانب صوبائی حکومت انہیں احتجاج پر مجبور کرکے ہزاروں نوجوانوں سے نوالہ چھیننے پر تلی ہوئی ہے،کہانی کچھ یوں ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت نے نجی تعلیمی اداروں سے مشاورت کیے بغیر ریگولیرٹی اتھارٹی قائم کردی جس کا مقصد صوبہ بھر کے نجی تعلیمی اداروں کو ریاستی دائرے کے اند ر لانا ہے ،تاہم ان باتوں کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ جن کی بدولت صوبہ بھر کے تمام نجی ادارے شرح خواندگی کو بہتر بنانے میں اپنا مثبت اور کلیدی کردار اداکررہے ہیں،جیسے کہ ہم اچھے سے جانتے ہیں کہ سرکاری تعلیمی اداروں کو عرصہ دراز سے اساتذہ کی کمی کا سامنا رہا۔جسے موجودہ صوبائی حکومت حتی الوسعٰی پورا بھی کردیا۔مگر اب بھی سرکاری سکول میں ہزاروں آسامیاں خالی پڑی ہیں اور جس سے براہ راست تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہورہی ہیں۔چونکہ سرکاری تعلیمی اداروں میں آسامیاں پُر کرنے کے لئے دوسے تین سال کا عرصہ درکار ہوتاہے،اس لئے سرکاری تعلیمی ادارے شرح خواندگی کی بہتری میں اپنا حصہ ڈالنے سے یکسر قاصر نظرآتے ہیں، محکمہ تعلیم ہرسال سرکاری سکولوں میں بچوں کے اعداد وشمار اکٹھا کرتاہے پھر اس ڈیٹا کو سامنے رکھتے ہوئے نئی آسامیاں تخلیق کی جاتی ہیں، تخلیق کردہ آسامیوں کی تفصیل محکمہ خزانہ کو بھجوا ئی جاتی ہیں ،جہاں سے منظوری کے بعد اسے آنے والے بجٹ میں شامل کرلیاجاتاہے،آسامیاں مشتہر ہونے کے بعد اہل امیداروں سے ا ن کی تعلیمی اسناد طلب کی جاتی ہیں،جن کی چھان بین پر کم ازکم ایک سے دوسال کا عرصہ درکارہوتاہے،جس کی دوسری جانب تعلیمی سرگرمیاں شدید متاثر ہورہی ہوتی ہیں،حالانکہ محکمہ تعلیم ان مسائل کا تدارک نئے اساتذہ کو بھرتی کرکے کرنے کی کوشش کرتا ہے تاہم نئے اساتذہ کی بھرتی سے سینئر اساتذہ کو اگلے گریڈ اور بعض اوقات دوسرے سکول میں پروموٹ کردیاجاتاہے،یوں شرح خواندگی کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات اور ان سے حاصل ہونے والے اہداف حاصل نہیں ہوپاتے ،کیونکہ پروموٹ ہونے والے اساتذہ کی جگہ نئے اساتذہ کی بھرتی میں مزید دو سے تین سال کا عرصہ درکار ہوتاہے،جبکہ برعکس اس کے نجی تعلیمی اداروں میں ایک استاد کے جانے یا کمی کی صورت میں جلد ہی دوسرے استا دکو بھرتی کرلیاجاتاہے،یوں تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوئے بغیر کام چلتا رہتاہے،اور شاید یہی کچھ وجہ ہو کہ نجی تعلیمی اداروں کے نتائج صوبہ بھر کے سرکاری سکولوں سے بہتر ہیں۔حالانکہ سرکاری تعلیمی اداروں میں اعلیٰ یافتہ اساتذہ درس تدریس جاری رکھے ہوئے ہیں،مگر اساتذہ کی کمی انہیں اچھے نتائج دینے سے یکسر محروم رکھتی ہے۔ہمارے ہاں چونکہ حقائق سے پردہ پوشیدہ کا عنصر کچھ زیادہ ہی پایا جاتاہے،اس لئے سرکاری تعلیمی ادارے ہمیشہ سے تنقید کا نشانہ بنتے چلے آرہے ہیں لیکن اگر ہماری مذکورہ بات پر غور کیا جائے تو کم عقل اور کم فہم کو بھی سمجھ آجائے کہ دراصل سرکاری تعلیمی ادارے شرح خواندگی بڑھانے میں اپنا بھر پور کردار اداکررہے ہیں تاہم اساتذہ کی کمی انہیں نجی تعلیمی اداروں سے دوقدم پیچھے کردیتی ہیں،اس کے علاوہ جبکہ ہم تسلیم بھی کرچکے ہیں کہ نجی تعلیمی اداروں کی کارکردگی سرکاری تعلیمی اداروں سے بہتر ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نجی تعلیمی اداروں میں آپ کے مہینے کا کام ایک ہفتہ میں ہوجائے گا جبکہ محکمہ تعلیم میں بعض اوقات ایک گھنٹہ کے کام پر ہفتے بیت جاتے ہیں،جیساکہ سرکاری سکولوں میں آسامیاں پُرکرنا ہے،یوں نجی تعلیمی اداروں کی حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی بلاجواز ہے،اس کے علاوہ حکومت اگر نجی تعلیمی ادارو ں کو پھلتا پھولتا دیکھناچاہتی ہے تو اول انہیں اعتما دمیں لے،ان سے ان کی آمدن طلب کرے،سکولوں کی کیٹگریز کرکے انہیں اساتذہ کی تنخواہوں ،فیسوں وغیرہ کا ایک ڈرافٹ بنا کردے،یوں صوبہ بھر میں نامی گرامی اور اچھی ساخت کے حامل نجی اداروں کی حوصلہ افزائی ہوگی تو دوسری جانب آئے روز کی ہڑتالوں اور تالہ بندیوں سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارا مل جائے گا۔کیونکہ گزشتہ چند ہفتوں سے صوبہ بھرکے تعلیمی اداروں اور والدین کے درمیان شدید اختلافات دیکھنے کوملے ہیں۔کہ جن سے براہ راست تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہورہی ہیں،اگر حکومت سنجیدگی سے اس معاملہ کو حل کردے تو یقینا عرصہ دراز سے ملک وقوم کی خدمت میں پیش پیش نجی تعلیمی اداروں کی مشکلات کا ازالہ ہوسکے گا۔بصورت دیگر حالات سدھار کی بجائے بگاڑ کی جانب بڑھیں گے کہ جس سے براہ راست نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے ،ان کے والدین اور سکول مالکان متاثر ہونگے۔

Waqar Ahmad Awan
About the Author: Waqar Ahmad Awan Read More Articles by Waqar Ahmad Awan: 65 Articles with 51681 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.